اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا عشق رسولﷺ
تحریر :مولانا اکبر علی قادری فیضی
انچارج علما فاؤنڈیشن نیپال
خادم :مدرسہ اسلامیہ قادریہ اہل سنت فیض العلوم روہنی گاؤں پالیکا وارڈ نمبر ا بینی پور روپندیہی نیپال
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا عشق رسول ﷺ بہت ہی مثالی تھا ،ان کا عشقِ رسول ﷺایک جامع، عملی، اور مثالی نمونہ تھا جو ان کی تمام تحریروں ،نعتیہ شاعری اور روزمرہ کی زندگی میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ان کی پوری زندگی اور تمام کام اسی عشق کے گرد گھومتے تھے۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کو ایمان کا جزو سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہیں ’’عاشق رسول‘‘ اور’’امام عشق و محبت‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ان کی شاعری اور نعتیہ کلام کے مجموعۂ کلام ’’حدائقِ بخشش‘‘ میں جابجا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وعظمت، اور صفات حسنہ ،مقامات رفیعہ ،علوم اعلیٰ کا ذکرملتا ہے۔ جیسا کہ یہ شعر دیکھیں جو ان کے عشق رسول ﷺکی انتہا کو ظاہر کررہا ہے، جس میں وہ اپنی جان کے ساتھ ساتھ کروڑوں جہان بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا کرنے کی تمنا رکھتے ہیں،فرماتے ہیں:۔
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
آپ کی تحریروں اور اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ آپ فنا فی الرسول تھے جیسا کہ فرماتے ہیں :
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پر چڑ ھے دیکھ کے تلوا تیرا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑ کیا ں کھا ئیں کہا ں چھوڑ کے صدقہ تیرا
ان کا نبی ﷺسے عشق ایسا سچا تھا کہ وہ اس یقین پر پہنچ گئے تھے کہ جسم کہیں بھی ہو ان کا دل ہمیشہ دیارنبوی ﷺ میں ملے گا ،فرماتے ہیں:
ارے اے خدا کے بندو کو ئی میر ے دل کو ڈھونڈو
میر ے پاس تھا ابھی تو ابھی کیا ہو ا خدایا انھوں نے اپنی پوری زندگی ناموسِ رسالتﷺ کا بھرپور دفاع کیا۔ ان افراد کا سختی سے رد کیا جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی یا توہین کا ارتکاب کیا۔ وہ اس معاملے میں کسی نرمی یا رعایت کے قائل نہیں تھے اور ’’الحب للہ والبغض
للہ‘‘(اللہ کی رضا کے لیے محبت اور اللہ کی رضا کے لیے بغض) کے اصول پر سختی سے عمل پیرا رہے۔ان کا عشق نبیﷺ ایسا تھا کہ وہ اپنی ذات کے لیے تو سب کچھ برداشت کر سکتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ادنیٰ سی بے ادبی بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے یہی وجہ ہے کہ گستاخوں کی جانب سے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت پر کیے جانے والے حملوں کا سختی سے دفاع کرتے رہے تاکہ وہ غصے میں آکر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:
ان شاء اللہ العزیز اپنی ذات پر کیے جانے والے حملوں اور تنقید بھرے جملوں کی طرف توجہ نہ دوں گا،سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے مجھے یہ خدمت سپرد ہے کہ عزت سرکار کی حمایت کروں نہ کہ اپنی،میں تو خوش ہوں کہ جتنی دیر مجھے گالیاں دیتے،برا کہتے اور مجھ پر بہتان لگاتے ہیں،اتنی دیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد گوئی اور عیب جوئی سے غافل رہتے ہیں،میری آنکھوں کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ میری اور میرے باپ دادا کی عزت و آبرو عزت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنی رہے۔(فتاوی رضویہ،ج :١٥ص:٨٩،٩٠،ملخصا) ایک اور مقام پر انھوں نے ارشاد فرمایا:کہ جس کو اللہ و رسول کی شان میں ادنیٰ سی بھی توہین کرتا پاؤ، اگر چہ وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو فوراً اس سے جدا ہو جاؤ، جس کو بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخی کرتا دیکھو،اگر چہ وہ کیسا ہی عظیم بزرگ کیوں نہ ہو اسے اپنے اندر سے دودھ کی مکھی کی طرح پھینک دو۔(تعلیمات امام احمد رضا بریلوی، ص:٥،ملخصا)نبی پاک ﷺ سے ان کا عشق مثالی تو تھا ہی ،شہر نبوی مدینہ منورہ سے بھی ان کا عشق بے مثال تھا۔ وہ مدینہ کی گلیوں اور وہاں کے ذرات سے بھی والہانہ محبت رکھتے تھے۔ ایک شعر میں وہ اپنی اس محبت کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:
طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
اس سے ان کے مدینہ سے عشق کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ان کے عشق کا حال یہ تھا کہ خاک طیبہ،خار صحرائے طیبہ،صبح طیبہ،باغ طیبہ،ہواۓ طیبہ غرض یہ کہ سگان کوچۂ مدینہ بھی انھیں محبوب و مرغوب تھے ،وہ ان چیزوں کو جنہیں کوچہ حبیب سے ذرہ سی بھی نسبت ہے دارا و سکندر کی شہنشاہی اور جام جم کی جہانگیر سے زیادہ اہم سمجھتے تھے ،انہیں اس گلی کا گدا ہونا باعث صدافتخار ہے ،اعلی حضرت کی نگاہ میں مدینہ پاک کی گلیاں نور سے معمور ہیں ،یہاں ابر رحمت گھر گھر برستا ہے ،یہاں اغنیاء کو بھی پناہ ملتی ہے ،یہاں نوری فرشتوں کی ٹولیاں آتی جاتی دکھائی دیتی ہیں۔