_______*قوم پرستی کی زہر آلود فضا ________
✍🏿محمد ذاکرعلیمی
مدرس دارالعلوم اسلامیہ قادریہ بفلیاز پونچھ جموں و کشمیر
آہ! آج اپنے قلم کو حرکت دینے پر اس وقت میں مجبور ہوگیا، جب میں نے امت مسلمہ کے بہت سے لوگوں کو قوم پرستی کی بلا میں مبتلا پایا- قوم پرستی اس وقت اس قدر بڑھتی جارہی ہے، جس طرح صلح کلیت، رافضیت پھیل رہی ہے- زمانہ جاہلیت کے غلط رسم و رواج کو صرف میڈیا پر غلط کا نام دیا جارہا ہے ، رہی بات عمل کی تو، شہری، دیہاتی، جاہل، حتی کہ بعض پڑھے لکھے حضرات بھی اس کا شکار ہیں- اس سے بھی زیادہ تعجب خیز یہ ہے، کہ بعض نام نہاد، علما بھی اس کا شکار اور اس کی تبلیغ میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:{یٰاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} (آیت 1١٣،س،حجرات پ،٢٦،) ترجمہ :اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔ {یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى} : اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا۔ ارشاد فرمایا :اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد حضرت آدم -عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام- اورایک عورت حضرت حوا (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا- سے پیدا کیا اورجب نسب کے اس انتہائی درجہ پر جا کر تم سب کے سب مل جاتے ہو، تو نسب میں ایک دوسرے پر فخر اوربڑائی کا اظہار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ، سب برابر ہو اور ایک جدِّ اعلیٰ کی اولاد ہو (اس لیے نسب کی وجہ سے ایک دوسرے پر فخر کا اظہار نہ کرو) اور ہم نے تمہیں مختلف قومیں ،قبیلے اور خاندان بنایاتاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کی پہچان رکھو اور ایک شخص دوسرے کا نسب جانے اوراس طرح کوئی اپنے باپ دادا کے سوا دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرے! نہ یہ کہ اپنے نسب پر فخر کرنے لگ جاے اور دوسروں کی تحقیر کرنا شروع کر دے۔ (صراط الجنان تحت آیت )
نبی کریم - صل اللہ علیہ والہ وسلم- نے ارشاد فرمایا : عن ابی ذز ان النبی - صلی اللہ علیہ والہ وسلم- قال لہ انظر فانک لیس بخیر من احمر ولا أسود الا ان تفضلہ بالتقوی. ترجمہ: حضرت ابو ذر غفاری بیان فرماتے ہیں "نبی اکرم - صلی اللہ علیہ والہ وسلم- نے ارشاد فرمایا :تم کسی گورے یا کالے سے افضل نہیں ہو البتہ تم اس پر تقوی سے فضیلت حاصل کروگے" - وعن ابی نضرۃ حدثنی من سمع خطبۃ رسول اللہ - صلی اللہ علیہ والہ وسلم- فی وسط ایام التشریق فقال یاایھا الناس الا ان ربکم واحد الا عربی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمر الا بالتقوی أبلغت قالوا بلغ رسول اللہ - صلی اللہ علیہ والہ وسلم-. (تبیان القرآن ج ١١،ص ،٣٠٢)
ترجمہ : ابو نضرۃ بیان کرتے ہیں کہ ایام تشریق کے وسط میں جس شخص نے نبی کریم - صلی اللہ علیہ والہ وسلم- کا خطبہ سنا اس نے مجھ سے بیان کیا آپ نے فرمایا: اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، کسی عربی کی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کی عربی پر، کسی گورے کی کالے پر اور نہ کالے کی گورے پر فضیلت ہے، فضیلت صرف تقوی کی ہے،حضور نے فرمایا: کیا میں نے تبلیغ کردی؟صحابہ کرام - رضی اللہ عنھم-نے فرمایا آپ نے تبلیغ کردی- حضرت ابو ذر غفاری -رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ- فرماتے ہیں :نبی اکرم -صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ -کی موجودگی میں ایک شخص سے میری تکرار ہوگئی تو میں نے کہا:اے کالی عورت کے بیٹے !تو نبیٔ کریم -صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ -نے ارشاد فرمایا:’’اے ابوذر! صاع پورا نہیں بھراجاتا، سفید عورت کے بیٹے کو سیاہ عورت کے بیٹے پرکوئی فضیلت نہیں ۔ حضرت ابو ذر -رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ -فرماتے ہیں : میں لیٹ گیا اور اس شخص سے کہا : اٹھو اور میرے رخسار کو پامال کردو۔ جب نص قطعی سے یہ ثبوت مل رہا ہے، کہ کوئی شخص کسی پر فضیلت نہیں رکھتا مگر تقویٰ کی بنیاد پر، تو فخریہ طور پر یوں کہنا :میں چودھری ، گجر، بکروال ، جٹ فلاں فلاں ہوں، چہ معنی دارد؟ آج سے تقریباً ٩،١٠سال قبل علما کی زبان سے ذات پات کا زبردست انداز میں رد پیش کیا جاتا تو راقم الحروف عام لوگوں کی ہونے والی جھڑپ میں ذات پات کو استعمال میں لاتے ہوے دیکھتا تو ان پر فوراً برھم ہوجاتا، لیکن! آج جب بعض علما کو اس مرض عظمیٰ میں مبتلا پاتا ہوں تو حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ اس میں ان لوگوں کا سب سے اہم کردار ہے، جو حفظ یا زیادہ سے زیادہ اعدایہ یا اولی پڑھ کر عالم نبیل فاضل جلیل بنے پھرتے ہیں (اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے شر سے ہم سب کومحفوظ فرماے )
جب سے اس مرض العقر نے ہمارے اندر جنم لیا ہے، تب سے ہمارے نوجوان، بزرگ،خواتین سب میں وہ جزبہ ایمانی کم ہوگیا ہے، وہ درد مسلم نہ رہا، اب ذات کو ترجیح دی جانے لگی ہے-اس میں سیاست دانوں نے بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، بل کہ اس کے سب سے بڑے پرچارک ہیں، جو اپنی گندی سیاست کی روٹی سیکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں -
اس کا نقصان: اس سے آہل سنت کو کتنا نقصان ہوا ہے؟ وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر یوں کہا جاے کہ آج ہم نے بزرگوں کے اعراس کو بھی اس طرز پر منانا شروع کردیا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ کسی کی سچی بات جو قاری کی تکذیب عیاں کرتی ہو تو اسے رضویت، اشرفیت، شخصیت پرستی(یہ تو بہت ہی عروج پر ہے) ....... کی طرف منسوب کرکے جو جی چاہے کہہ دیتے ہیں- ہم اسی اختلاف سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں، دوسری طرف رافضیت، خارجیت، شیعیت ہماری خانقاہوں،مسجدوں تک میں تاج محل تیار کرچکی ہے، راقم الحروف نے خود اپنے ایک استاد کی کتاب کا مطالعہ کیا،جس میں موصوف نے اپنے گاؤں کے متعلق لکھا تھا "٢٠٠٥ سے ہم جماعت اہل حدیث سے منسلک ہوے ہیں، تب سے ہمارے گھروں میں دین کی روشنی نظر آنے لگی ہے-“(مخلصا، لچھی ڈٹ کمکڑی، مصنف رفیق خان رفیق) اگر قوم پرستی کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں ہماری قوم شیرازہ شیرازہ ہو کر بکھر جاے گی- میری ان نام نہاد مولوی حضرات سے گزارش ہے،کہ اس سے اجتناب کریں! اور علماے کرام سے بھی عرض ہے، کہ اگر کسی کے اندر قوم پرستی کا مرض ہو تو اس کو جڑ سے اکھاڑ دیں، قبل اس کے نسل میں اوس و خزرج والی لڑائی جنم لے لے-اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔