Oct 23, 2025 07:39 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
حضرت مفتی حنیف القادری ،نیپال میں سرمایۂ ملت کے نگہباں

حضرت مفتی حنیف القادری ،نیپال میں سرمایۂ ملت کے نگہباں

26 Feb 2025
1 min read

از: (مؤرخ نیپال، مفتی) محمد رضا مصباحی نقشبندی

سربراہ اعلی علماء کونسل نیپال،بانی ومہتمم: نیپال اردو ٹائمز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدر الافاضل، فخر الاماثل، شیخ طریقت حضرت مولانا محمد حنیف القادری بن مولوی عبد اللہ بن پناہ بن حاجی ثمن علی غفر اللہ لھم، نیپال کی ایک معتبر علمی، مذہبی اور روحانی شخصیت کانام ہے۔ آپ کا شمار قدیم علماے نیپال میں ہوتا ہے۔ ولادت باسعادت، ایک تخمینہ کے مطابق ۱۹۲۷ء میں ’’بیلااِکڈارا‘‘ نام کی بستی میں ایک نجیب وشریف خاندان میں ہوئی۔یہ بستی ضلع مہوتری کے صدر مقام ’’جلیشور‘‘ سے گیارہ کلو میٹر جانب مغرب واقع ہے۔ آپ کا خاندان دیہاتی ماحول کے مطابق خوش حال اور متمول تھا۔ آپ کے پردادا الحاج ثمن علی غفر اللہ لہ اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ نیپال سے پیادہ پا حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے۔ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ تشریف لائے اور انھیں ایام میں وصال کی دولت لازوال نصیب ہوئی اور مکہ معظمہ ہی میں مدفون ہوئے۔

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کی خمیر تھی

آپ کی اہلیہ محترمہ حج سے فارغ ہو کر گھر واپس ہوئیں۔

اس واقعہ سے آپ کے خاندان کا نجیب وشریف اور دیندار ہونا اظہر من الشمس ہو جاتا ہے۔

تعلیم وتربیت: ابتدائی تعلیم والد ماجد مولوی عبد اللہ صاحب سے حاصل کی۔ فارسی وعربی کی تعلیم کے لیے شمالی بہار کی قدیم درسگاہ مدرسہ رضاء العلوم ، کنہواں، ضلع سیتا مڑھی میں داخلہ لیا اور فارسی پہلی سے لے کر کافیہ تک کی تعلیم حاصل کی۔

اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے لیے بہار کی قدیم اور بافیض درسگاہ، مدرسہ فیض الغربا، آرہ تشریف لے گئے۔ اس ادارہ کے بانی، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا رحیم بخش رحمۃ اللہ علیہ (م۸؍شعبان ۴۳؍۱۳۴۴)ہیں۔

یہاں آپ نے شرح جامی سے لے کر بخاری شریف تک کی تعلیم بہت ہی محنت کے ساتھ حاصل کی اور ۱۳۶۱ھ/۱۹۴۲ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔

 فیض الغرباء میں آپ نے درج ذیل اساتذہ سے بطور خاص اکتساب علم کیا۔

(۱)حضرت مولانا عبد الغفور علیہ الرحمہ شیخ الحدیث فی زمانہ

(۲) حضرت مولانا مفتی محمد ابراہیم علیہ الرحمہ

(۳) حضرت مولانا اسماعیل علیہ الرحمہ

آپ کی دستار فضیلت اپنے وقت کے جلیل القدر مشائخ اور اکابر اہلسنت کے پاتھوں ہوئی۔ جلسۂ دستار بندی کا انعقاد ہوا، جس میں خلیفۂ اعلیٰ حضرت، ملک العلما، حضرت علامہ ظفر الدین بہاری، مصنف صحیح البہاری قدس سرہ (۱۳۰۳ھ- ۱۳۸۲ھ؍۱۹۶۲ء)، تلمیذ اعلیٰ حضرت ، محدث اعظم ہند علامہ محمد اشرف کچھوچھوی (۱۳۱۱ھ- ۱۳۸۳ھ)اور سراج الاصفیاء حضرت صوفی شاہ محمد تیغ علی قادری آبادانی، سرکانہی شریف (۱۳۰۰ھ۔۱۳۷۸ھ) قدست اسرارہم کے ہاتھوں آپ کو دستار فضیلت سے نوازا گیا۔

سوانح حنیف ملت کے مرتب مولانا صفی اللہ قادری تحریر فرماتے ہیں:

’’مدرسہ فیض الغرباء کے زیر اہتمام سالانہ نوری اجلاس کے موقع پر، اولیاے طریقت واساطین اہلسنت مثلاً محدث اعظم ہند ،حضرت علامہ سید محمد اشرف کچھوچھوی، حضرت علامہ ظفر الدین عظیم آبادی وسراج الاولیاء حضرت شاہ تیغ علی علیہم الرحمۃ والرضوان کے مقدس ہاتھوں سند فراغت دستار فضیلت سے سرفراز فرماے گئے‘‘۔ 

بیعت وارادت:

مدرسہ رضاء العلوم، کنہواں میں طالب علمی کے زمانہ میں سلسلۂ قادریہ کے شیخ، حضرت مولانا شاہ خلیل الرحمٰن قادری نند پوری، نواکھالی، بنگلہ دیش، خلیفہ حضرت سید احمد تنوری صرف میراں، خلیفہ سید علی حیدر قادری قدس اللہ اسرارہم۔ سے شرف بیعت حاصل کی۔ آپ کا سلسلۂ بیعت۱۹؍ واسطوں سے حضور غوث پاک، شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔

خلافت واجازت:

۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸ء میں مدرسہ مظہر العلوم، گلاب پور، سسوا   کٹیا کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ایک عظیم الشان ’’رسول اعظم کانفرنس‘‘ میں جانشین حضور مفتیٔ اعظم ہند تاج الشریعہ، علامہ مفتی اختر رضا قادری اظہری دامت برکاتہم القدسیہ نے آپ کو مختلف سلاسل کی خلافت و اجازت عطا فرما کر دستار بندی فرمائی۔

تدریسی خدمات:

          فراغت کے بعد آپ نے اپنے گاؤں کے مکتب میں تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری فرمایا۔ گلاب پور، کٹیا جس کو آپ نے دائمی طور پر دعوت وتبلیغ اور رشد وہدایت کا مرکز بنایا آپ کی آمد سے قبل سخت جہالت میں ڈوبا ہوا تھا۔ 

لوگ مذہب سے ناآشنا تھے۔ شراب نوشی، قمار بازی عام تھی۔ لوگ ہندوانہ مراسم میں مبتلا تھے۔ انھیں ایام میں ایک خدا رسیدہ بزرگ، حضرت پیر حفیظ اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ بانسو پٹی، مدھوبنی کی آمد ہوئی۔ یہاں کے مسلمانوں کی حالت زار اور جہالت وتمرد کو دیکھ کر سخت کبیدہ خاطر ہوے۔ انھوں نے جہالت کے خاتمہ اور تعلیم کی روشنی عام کرنے کے لیے حکیمانہ انداز میں منصوبہ سازی کی۔ کٹیا کے ایک بااثر شخص کو اس بات پر آمادہ کیا کہ بچوں کی دینی تعلیم کے لیے وہ اپنا دالان وقف کر دے۔ وہ راضی ہوے اور حافظ محمد یوسف صاحب کو تدریس اطفال پر مامور کر دیا۔ یہ سلسلہ کچھ دنوں تک یونہی چلتا رہا۔ مقامی طلبا کی کثرت نے لوگوں کو ایک مدرسہ کی تاسیس پر مجبورکر دیا۔ 

چنانچہ ۱۳۷۱ھ/۱۹۵۰ء میں مدرسہ مظہر العلوم کے نام سے پیر حفیظ اللہ بانسو پٹی، مدھوبنی نے ایک مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ ابھی مدرسہ کی تعمیر مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ دفعۃً ہندو مسلم فساد برپا ہوگیا اور شرپسند عناصر، مسلمانوں کے مال واسباب کے ساتھ ہی مدرسہ کی تعمیر کے ضروری ساز وسامان بھی لوٹ کر لے گئے۔ ایک سال تک کسی کے دل ودماغ میں مدرسہ کی تعمیر جدید کا خیال تک نہیں آیا کیوں کہ مسلمان اس حادثہ سے بہت زیادہ ٹوٹ چکے تھے۔ انھیں ایام میں پیر حفیظ اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ دوبارہ تشریف لاے اور گاؤں کے مسلمانوں کو تسلی دی، ڈھارس بندھائی اور مدرسہ کی تعمیر پر ابھارا۔ غالباً آپ ہی کے ایما پر حضرت حنیف ملت کو اِکڈارا سے یہاں بلایا گیا۔ آپ نے مدرسہ کی تعمیر جدید کی طرف توجہ دی اور اپنے استاذ گرامی، فاضل بہار، حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین حامدی قدس سرہ (م ۱۳۸۵ھ) کو یہاں آنے کی دعوت دی اور ان کے ہاتھ سے ۱۳۷۲ھ/۱۹۵۱ء میں مدرسہ ہذا کی تعمیر ثانی کے لیے سنگ بنیاد رکھوایا۔ اس ادارہ کوپروان چڑھانے میں حضرت حنیف ملت کو بڑے مصائب وآلام اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

آپ نے یہاں درس وتدریس کی ایسی شمع فروزاں کی کہ پروانوں کا ہجوم ہونے لگا۔ تشنگان علوم دور دور سے کشاں کشاں آنے لگے۔ خود یہ قریہ علمی اعتبار ست اتنا زرخیز ہوگیا کہ آج یہاں علما کا شہر آباد ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے ممتاز علما اس خاک سے اٹھے اور ہمدوش ثریا ہوگئے۔ علاقہ سے جہالت کا خاتمہ ہوا۔

تلامذہ:

آپ کے تلامذہ کی فہرست کافی طویل ہے۔ چند نمایاں تلامذہ کے اسما ء حسب ذیل ہیں۔

(۱) حضرت حافظ محمد تسلیم الدین صاحب غفرا للہ لہ والد ماجد مفتی مصلح الدین قادری۔

(۲) حضرت مفتی مصلح الدین قادری گلاب پوری، شیخ الحدیث ، مدرسہ حبیبیہ اسلامیہ، لعل گوپال گنج، الہ آباد ،یوپی

(۳) حضرت مفتی محمد نجم الدین مصباحی بیلای، شہزادۂ حنیف ملت، صدر المدرسین مدرسہ تعلیم القرآن رحمانیہ، کانپور، یوپی۔

(۴) مولانا مفید عالم کٹیاوی، سابق استاذ مدرسہ مظہر العلوم، گلاب پور، کٹیا۔

(۵) مولانا صفی اللہ قادری، نائب شیخ الحدیث مدری حبیبیہ اسلامیہ، لعل گوپال گنج، الہ آباد، یوپی۔

(۶) مولانا حبیب الرحمٰن، سابق استاذ مدرسہ مظہر العلوم، کٹیا۔

(۷) مولانا مفتی محمود مصباحی، دار العلوم حبیبیہ گلشن رضا، راے بریلی۔

اشاعت سلسلہ:

سلسلۂ قادریہ ، رضویہ کی اشاعت اور مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ واستحکام میں نیپال اور شمالی بہار کے اندر آپ نے بے پناہ کوششیں کیں۔ دشواز گزار راستوں سے دیہات وقصبات کا دورہ فرما کر سنیت کو مضبوط کیا۔ سیکڑوں افراد نے آپ کے دست اقدس پر بیعت کی۔ آپ سے مرید ہونے والوں میں اہل علم کی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے۔ گلاب پور، کٹیا، جہاں آپ کے شب وروز گزرے، یہاں کے تقریباً ایک درجن علما وحفاظ آپ سے بیعت ہیں۔

وصال پرملال:

علم وعمل، زہد وورع، تقوی وطہارت کا یہ روشن ستارہ ۱۴؍ شعبان المعظم ۱۴۱۳ھ مطابق ۲۱؍ فروری ۱۹۹۲ء بروز جمعہ ۶؍بجے صبح  اور تجلیات حنیف ملت کے مطابق ۱۶؍شعبان ۱۴۱۲ھ مطابق ۲۱؍ فروی ۱۹۹۲ء بروز جمعہ غروب ہوگیا۔ 

قمر العلما، حضرت مولانا ڈاکٹر قمر رضا خان بریلوی برادر صغیر حضور تاج الشریعہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مدرسہ مظہر العلوم کے صحن میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ ہر سال وصال کی تاریخ ۱۶؍شعبان کو آپ کا عرس نہایت تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتاہے۔

تفصیلی سوانح معلوم کرنے کے لیے جان رحمت، سوانح حنیف ملت اور تجلیات حنیف ملت کی طرف رجوع کریں۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383