Oct 23, 2025 02:08 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
خطیب البراہین ایک نظر

خطیب البراہین ایک نظر

خطیب البراہین ایک نظر

اسم گرامی:  محمد نظام الدين علیہ الرحمہ

  لقب :  خطیب البراہین و صوفی با صفا

ولادت :21 رجب 1346ھ مطابق 15جنوری 1928ء جائے ولادت: موضع آگیا چھاتا، پوسٹ دودھارا، ضلع سنت کبیر نگر،  یوپی انڈیا 

بيعت وخلافت : حضور سيدی سركار سيد مصطفی حيدر حسن قادری بركاتی عرف احسن العلماء مارهره مطہرہ آیتہ یوپی۔

 والد گرامی :  عالی جناب نصيب اللہ رحمۃ اللہ

 والدہ : عابدہ زاہدہ ۔تہجد گزار خاتون ۔ 

وصال : يكم جمادی الآخر 1434 ھ مطابق 14 مارچ  2013 ء  بروز جمعرات صبح ،8  بجے  نماز جنازہ :15 مارچ بروز جمعہ 4 بجے شام شہزادہ  حضور خطیب البراہین  حضرت علامہ حبيب الرحمن صاحب قبلہ قادری نے نماز جنازہ پڑھائی ۔

مدفن خانقاہ نظامیہ برکاتیہ، آگیا چھاتا شریف ۔ضلع سنت کبیر نگر ۔

حلیہ مبارك : رنگ گورا، قد میانہ،  چہرہ گول، آنکھیں سرمگیں، چہره نورانی، پیشانی سے سجدہ کا نشان ہویدا ۔جہاں تشریف رکھتے سر جھاکر تشریف رکھتے جو  انہیں دیکھتا اسے خدا یاد آجاتا تھا۔راقم نور محمد خالد مصباحی کو متعدد بار، 2000 تا2010 عرس قاسمي بركاتي مارهره شريف ميں زيارت كا موقع ملا۔ 

  تعلیمی سفر 

مقامی مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز دارالعلوم تدریس الاسلام بسڈیلہ بستی سے فرمایا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ اسلامیہ اندکوٹ میرٹھ کا رُخ کیا، وہاں پر ایک سال رہ کر اپنے روحانی مربی حضرت علامہ حاجی مبین الدین محدث امروہوی اور امام النحو حضرت علامہ غلام جیلانی میرٹھی علیھما الرحمہ سے اکتساب علم و فیض کیا، پھر ازہر ہند الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا اور اساتذہ اشرفیہ بالخصوص حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ فیض سے علم کی لازوال نعمتوں سے مالا مال ہوئے اور حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ و حضرت سید محمد صاحب کچھوچھوی علیہ الرحمہ و دیگر اکابر علماء کے ہاتھوں آپ کو الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں 10 شعبان المعظم 1371ھ مطابق 5 مئی 1952ء کو سند و دستار فضیلت سے نوازا گیا ۔

حضور صوفی صاحب کا لقب صوفی  صاحب كب پڑا

۔مثل مشہور ہے ہونہار بروا کے چکن پات۔ آپ بچپن ہی سے تقوی وطہارت کا عطر مجموعہ تھے  آپ کی پرورش ایک اسلامی ماحول میں ہوئی تھی آپ کی والدہ عابده زاهده تجہد گزار خاتون تھیں  ۔ اور آپ فطرتاً بھی اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ تھے،  آپ کو بچپن ہی سے لہوولعب، کھیل کود، ہنسی مذاق اور دیگر خرافات طفلی سے شدید نفرت تھی اور طلب علم کی لگن کے ساتھ ساتھ ذوق عبادت بھی رکھتے تھے۔

ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور مئی 2013 میں آپ کے صوفی سے ملقب ہونے کے بارے میں  کچھ یوں مرقوم ہے جس کا خلاصہ میں آپ لوگوں کے سامنے  پیش کر رہا ہوں اور اسی کو پڑھنے سے آپ کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ آپ کو صوفی کا لقب کب ملا ۔

جب آپ ازھر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور بارگاہ حضور حافظ ملت میں  شرف تلمذ سے بہرہ مند ہونے کے لئے گئے تو طلبائے اشرفیہ جیسا کہاں لوگوں  کا معمول تھا اور آج بھی ہے کہ کسی متقی پرہیزگار صوم وصلوة  کم گو، کم سخن،متعلم  کو  صوفی صاحب  کہتے تھے آپ نے طلباء کے اس روئے  کو دیکھ کر بارگاہ حضور حافظ ملت ميں شکایت کی کہ حضور طلباء مجھے  صوفی صاحب کہتے ہیں  ۔ حضور طلباء سے فرما دیں کہ مجھے صوفی صاحب نہ کہا کریں  کیونکہ میں اس کا مستحق نہیں ہوں  اتنا سننا تھا کہ حضور حافظ ملت حضرت علامه  شاه  عبدالعزيز محدث مبارك پوری علیہ الر حمتہ نے اپنی نگاہ ولایت صوفی صاحب قبلہ کے تن خاکی پر دوڑائی  اوپر دیکھا نیچے دیکھا، ظاہر دیکھا، باطن دیکھا اور فرمایا یہ کوئی معمولی طالب علم نہیں بلکہ اپنے وقت کا ولی کامل ہے۔ولی را ولی می شناشد .ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے ۔آپ نے فرمایا طلباء آپ کو جو صوفی کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں آپ صوفی کے لائق ہو ۔حضور حافظ ملت کی زبان فیض ترجمان سے نکلی ہوئی بات ایسی مشہور ہوئی کہ لوگ آپ کا اصلی نام ہی بھول گئے اور  اس لقب نے اسم کا درجہ لے لیا ۔آپ  کے دوران طالب علمي  جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ہاسٹل کے نگراں  احمد علي مبارکپوری علیہ الرحمة  بیان کرتے ہیں کہ جب بھی میں  فجر کی نماز  کے لئے ہاسٹل میں طلباء  کو جگانے  گیا تو  نظام الدين سلمہ كو با وضو يا وضو کرتے ہوئے  پایا۔

صوفی صاحب کا مطلب ہوتا ہے اللہ سے ڈرنے والا آپ کا بچپنے  ہی میں خشيت الهي كا عالم یہ تھاکہ ایک بار آپ  اپنے گاؤں آگیا میں  کسی کے ساتھ اپنا کھیت دیکھنے تشریف لے گئے چنانچہ اسی دوران ایک کھیت کو اپنا سمجھ کر اس سے مٹر توڑ لیا ساتھ میں موجود صاحب نے بتایا سلمہ یہ آپ کا کھیت نہیں، بلکہ گاوں کے فلاں شخص کا ہے آپ وہ پھلی لئے گھر آئے اور اس کھیت کے مالک سے معافی مانگی اور اسے وہ  پھلی واپس کر دیا۔اسی طرح ایک درزي نے آپ کے سویٹر کے آستین میں دوسرے کا کترن لگا دیا جب کہ یہ عوام میں معمولی بات مانی جاتی ہے مگر آپ نے اسی وقت اس کترن  کو نکلوا دیا اور خود کپڑا خرید کر لائے اور اسے آستین میں لگوایا ۔خدا کی قسم اب اس  زمانے میں ایسا مجھے کوئی نظر نہیں آرہا ہے

 خطیب البراہین کا لقب 

: یوں تو آپ زمانہ طالب علمی ہی سے تقوی وطہارت کے جامع تھے اور دور طالب علمی ہی سے قرآن وحديث سے مبرہن خطاب فرما تے تھے  میں نے مارہرہ مطہرہ کے اسٹیج پر کئی بار حضرت كے زبان فیض ترجمان سے نکلی ہوئی خطاب سماعت کیا  ہے جب خطاب فرما تے تو سر جھکا کر فرماتے  اور جو بھی فرماتے قرآن وحديث سے مدلل کرکے بیان فرماتے، عوام وخواص میں آپ کی تقریر بڑی مقبول ہوتی تھی بڑے بڑے علماء و مشائخ کے مابین آپ کا خطاب ہوتا، اسی بنا پر آپ کے دور میں جب بھی خطیب البراہین کا لقب بولا یا لکھا جاتا تو ذہن آپ کی ذات گرامی کی طرف مبذول ہو جاتا اسی لئے آپ لقب خطیب البراہین سے ملقب ہوئے۔ عوام وخواص میں آپ کی مقبولیت:

جب اللہ پاک اپنے کسی بندے سے محبت كرتا ہے تو فرشتوں کو ندا دیتا ہے کہ اے فرشتوں میں اپنے فلاں بندے سے محبت كرتا هوں تم بھی اس سے محبت كرو اور جاو  زمین والوں کو   ندا دے دو کہ اللہ فلاں بندے سے محبت كرتا ہے۔ ہم لوگ بھی اس سے محبت كرتے ہیں تم لوگ بھی اس سے محبت كرو.تو دنيا والے اس سے محبت كرنے لگتے ہیں ۔

حضور صوفي صاحب قبله اس آيت  کے مظہر تھے ۔میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالی نے جو مقبولیت آپ کو  عطا فرمائی  تھی وہ کسی کے نصیبہ میں نہ آیا، شمالی ہند میں جس قدر علماء کثرت سے آپ کے مرید یوئے  کسی اور پیر کے نہ ہو ئے۔

آپ کا روحاني وعلمي مقام ؛

آپ 1952  تا 1963  ہندوستان کے مختلف مدارس میں بحيثيت مدرس خدمت انجام ديتے رہے مثلا  مدرسہ اہلسنت فیض الاسلام مہنداول بستی ۔۔مدرسہ شاہ عالم احمد آباد گجرات  .مرسه فضل رحمانيہ پچپروا ليكن 1963  عیسوی میں آپ مدرسہ اہلسنت تنویر الاسلام  امر دوبھا میں بحيثيت صدر المدرسین  تسريف لائے اور 1987 میں وہیں سے ریٹائرد ہوئے، ریٹائرڈ کے بعد ارکان جامعہ کی منت وسماجت پر آپ پھر وہیں بحيثيت شيخ الحديث منتخب کر لئے گئے اور وصال تک اسی عہدے پر فائز رہے ۔

آپ کا اخلاص: 20 برس تک مسلسل آپ بلا معاوضہ بخاری شریف کا درس دیتے رہے جو آپ کے خلوص وللہیت پر دال ہے۔

آپ کا اندازتدریس : آپ 56 برس تک مسلسل درس وتدريس ميں منہمک رہے ۔

آپ کا انداز تدریس اپنے استاد خاص جلالة العلم حضور حافظ ملت  سے ملتا جلتا تھا دوران تدریس ۔آپ  طلباء کے سامنے لمبی چوڑی تقریر نہ کرتے بلکہ ضروری مقامات پر  جوپیچیدہ عبارتیں ہوتیں ان کی تشریح کر دیتے ۔طلباء سے عبارت خوانی ضرور کرواتے اور عبارت خوانی کی اغلاط پر سخت تنبیہ فرماتے۔آپ جامع منقول و معقول تھے۔

آپ کے اہم تلامذه : 

مشهور مقولہ ہے درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور استاد اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتا ہے ۔۔1  شہزادہ  خطیب البراہین حضرت علامه حببب الحمنقادري سجاده نشين خانقاه نظاميه آگیا شریف۔ 2 محسن العلماء حضرت علامه محمد محسن صاحب قبله نظامي۔ 3تنویر العلماء حضرت علامه مفتي عبدالمنان قادري عليه الرحمة مفتي اعظم مندسور۔ 4حضرت علامہ مولانا تفسیر القادری قیامی علیہ الرحمة سابق نائب پرنسپل جامعہ علیمیہ جمدا شاہی۔ 5حضرت علامہ شفیق نظامی علیہ الرحمة۔ ان کے علاوہ 56برس کے مسلسل تعلیمی سفر میں آپ کے ہزاروں علماء وفضلاء شاگرد پیدا  ہوئے۔

 آپ کی تصنیفات وتالیفات 

 جہاں آپ کی پوری زندگی قال اللہ وقال الرسول میں گزری وہیں آپ نے رشدوہدایت کے ذریعہ لاکھوں بندگان خدا کو عشق و معرفت الہی کا جام پلا یا اور   انہیں سنتوں کا متبع بنایا، آپ  کی پوری زندگی سنت مصطفوی کی آئینہ دار تھی آپ کے مریدوں کی خصوصیات یہ  تھی کہ جو آپ سے مرید ہو جاتا اسے خود بخود اصلاح امت کا جذبہ پیدا ہو جاتا تھا اور   بلا مبالغہ میں  کہتا ہوں کہ 90  فیصد نظامی علماء کو جو اصلاح کا جزبہ ملا غالبا یہ حضور صوفي صاحب قبله كي كرامات ميں سے ایک کرامت ہے۔

 علامہ غیاث الدین مصباحی عارف نظامی صاحب، علامہ عبدالجبار علیمی نظامی اور کس کس نظامی کا نام لوں سب اپنی جگہ آفتاب و مہتاب ہیں،  علماء مہراچ گنج، یوپی، روپندیہی ، نولپراسی ۔کپلوستو ۔ ممبئ گوا میں آپ کے مریدین علماء کی ایک طویل فہرست ہے ۔آپ کی تصنیفات سے آپ کے تبحر علمي وسعت مطالعہ امت مسلمہ کے لئے خیر خواہی کے جذبے  كاپتہ چلتا ہے 

 آپ کی تصنیفات 

 1 فضائل تلاوت قرآن۔ 2اختيارات امام النبين۔ 3خطبات خطیب البراہین۔ 4فضايل مدينہ۔ 5 کھانے پینے کا اسلامی طریقہ۔ 6 داڑھی کی اہمیت۔ 7بركات مسواك۔ 8 حقوق والدين۔ 9 فلسفہ قربانی۔ 10بركات روزه۔

از : نور محمد خالد مصباحی ازہری 

+977 981-1190536

 

 

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383