حضور خطیب البراہین علیہ الرحمۃ کی شخصیت کا علمی اور تدریسی پہلو
محمد جمیل علیمی مصباحی
جامعہ اشرفیہ مبارک پور
حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ کی روحانی و باطنی اور فکری بالیدگی و ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ جب آپ نے اس خاکدان گیتی پر اپنی آنکھیں کھولیں تو آپ کو ایسے عظیم والدین کی آغوش محبت و شفقت نصیب ہوئی جو دینداری، عبادت گزاری اور تقوی شعاری میں ممتاز تھے
آپ کی والدہ محترمہ ایک تہجد گزار، تلاوت کلام اللہ سے عشق کرنے رکھنے والی، عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں جبکہ والد محترم صوم و صلوٰۃ کے پابند، صالح و نیک سیرت اور ذہین و فطین شخصیت کے حامل تھے
یوں آپ کی پرورش و پرداخت دینی و اسلامی فضا میں ہوئی
اور زمانۂ طالب علمی میں علامہ سخاوت علی اور علامہ کاظم علی، اشرف العلما حضرت علامہ سید حامد اشرف اشرفی جیلانی ، خلیفۂ مفتئ اعظم ہند بدر الملۃ والدین حضرت علامہ بدر الدین احمد قادری رضوی علیھم الرحمۃ وغیرہ جیسی عظیم شخصیات کی سنگت و رفاقت ملی
مزید برآں یہ کہ اپنے وقت کے اکابر علمائے اہل سنت ، یگانہ روزگار شخصیات سے شرف تلمذ حاصل ہوا جو اپنے زمانے میں خود اپنی مثال آپ تھے
جب اتنی ساری خصوصیات شخص واحد میں جمع ہوجائیں تو لامحالہ ایسا شخص اپنے وقت کا ایک عظیم مفتی ، مدرس ، محقق ، فقیہ ، خطیب، صوفی ، الحب في الله و البغض في الله کا پیکر ،عاشق رسول ﷺ، مقبول انام اور قابل تقلید اور گوناگوں صلاحیتوں کا حامل بزرگ بن کر ابھرتا ہے_
یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت کو جس جہت سے بھی دیکھا جائے تو فضائل و کمالات کا ایک جہان نظر آتا ہے
اسی وجہ سے جب کوئی قلم کار، خطیب یا شاعر آپ کی شخصیت پر کچھ لکھنا، بولنا ، کہنا چاہتا ہے تو بے ساختہ اس کی زبان سے یہ شعر نکل جاتا ہے شکار ماہ کہ تسخیر افتاب کروں
کسے میں ترک کروں کس کا انتخاب کروں
حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ و الرضوان الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور سے فراغت کے فوراً بعد ہی سے بغرضِ خدمتِ دین متین درس و تدریس اور تحریر و تقریر سے منسلک ہوگئے اور ١٩٥٢ء سے ١٩٦٣ء تک مختلف مدارس میں رہ کر اپنے علمی اور روحانی فیضان سے طالبان علوم نبویہ کو مالا مال فرماتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی تحریر و تقریر سے عام لوگوں کی بھی اصلاح و تربیت فرماکر ان کے قلوب و اذہان کو جلا بخشتے رہے_
اور پھر جب ١٩٦٣ء میں آپ کے علمی مقام و مرتبہ اور طریقۂ درس و تدریس کا شور و غوغا چہار جانب ہونے لگا تو آپ کے روحانی مربی اور استاذ حضور رئیس الاتقیا علامہ مبین الدین امروہوی علیہ الرحمۃ نے منظر اسلام بریلی شریف میں درس و تدریس کی خدمت انجام دینے کے لیے اپنے پاس مدعو کیا، اور عین اسی وقت آپ کے رفیقِ درس علامہ سخاوت علی علیہ الرحمۃ نے بھی دار العلوم اہل سنت تنویر الاسلام امرڈوبھا میں بحیثیت مدرس تشریف
آوری کے لیے دعوت پیش کی، یہ صورت حال آپ کے لیے تشویش اور تردد کا سبب بن گئی کہ ترجیح کسے دی جائے، ایک جانب استاذ محترم تو دوسری جانب دیرینہ رفاقت، ایک جانب اہل و عیال سے دوری تو دوسری جانب قربت، تو اس عقدہ کے حل کے لیے حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ نے استاذ محترم کی بارگاہ میں ایک خط ارسال کیا اور مکمل صورتِ حال سے آگاہ کرکے فیصلہ استاذ محترم کے سپرد کردیا کہ "آپ جو حکم فرمائیں سر آنکھوں پر _"
چنانچہ حضور رئیس الاتقیا نے حالات اور آبائی وطن سے قربت کے پیش نظر فرمایا کہ آپ {حضور خطیب البراھین} بریلی شریف نہ آکر دار العلوم اہل سنت تنویر الاسلام امرڈوبھا تشریف لے جائیں تو کچھ اس طرح تنویر الاسلام میں حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ کی آمد و تشریف آوری ہوئی_
استاذ محترم کی اجازت کے بعد آپ نے دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام میں تدریسی خدمات انجام دینے کے لیے رضا مندی ظاہر فرمائی اور ١٤ اپریل ١٩٦٣ء سے باضابطہ طور پر درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کا آغاز فرمادیا اور پھر علامہ سخاوت علی اور حضور خطیب البراھین اور دیگر اساتذہ کرام کی مساعئ جمیلہ سے مدرسہ تنویر الاسلام نے میدان درس و تدریس میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا_اور پھر کچھ عرصہ بعد علامہ سخاوت علی نے اپنے کاروباری مصروفیات کے باعث منصب صدارت سے استعفی دے کر ممبئی چلے گیے، جس کے بعد اراکینِ مدارس نے حضور خطیب البراھین کو منصب صدارت پر متمکن کرنے کی بڑی جد و جہد اور کوشش کی لیکن ابتداءً حضور خطیب البراھین نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کیا مگر جب انھوں نے اراکین مدارس کے پیہم اصرار اور خلوص و للہیت کو دیکھا تو اپنی نفی کو اثبات میں بدل کر منصب صدارت کو قبول فرمالیا_
آپ کے منصب صدارت پر فائز ہوتے ہی مدرسہ تنویر الاسلام کے مقدر کا ستارا بام عروج کو پہنچ گیا_
حضور خطیب البراھین کے زمانۂ صدارت میں مدرسہ تنویر الاسلام نے عروج و ارتقا کے کتنے منازل طے کیے اس کا اندازہ حضرت علامہ ادریس بستوی نائب ناظم اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی تحریر سے لگایا جا سکتا ہے، آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:
حضرت خطیب البراھین علیہ الرحمہ کے دور صدارت میں دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام ملک کی صف اول کی درسگاہ میں شمار کیا جانے لگا، کثیر تعداد میں بیرونی طلبا یہاں نظر آنے
لگے اور جدید درسگاہوں کی تعمیرات کا بھی سلسلہ چل پڑا، آپ کے صدارت کا فیضان واضح طور پر نظر آنے لگا، ایک جدید مسجد دارالعلوم کے گراؤنڈ میں بنام تنویر المساجد تعمیر ہوئی جو اس علاقے میں منفرد المثال ہے، حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام کے عروج و ارتقا کی ساری داستان حضرت خطیب البراھین علیہ الرحمہ کی مرہون منت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کی دعائے نیم شبی اور آہ سحر گاہی نے تنویر الاسلام کو بام عروج تک پہنچا دیا_
(خطیب البراھین ایک منفرد المثال شخصیت بحوالہ جہان خطیب البراھین)
طریقۂ تدریس
حضور خطیب البراھین جہاں گوناگوں صلاحیت و قابلیت کے حامل تھے وہیں آپ میدانِ علم و فضل اور درس و تدریس کے ایسے کوہ گراں اور افہام و تفہیم کے ایسے سکندر اعظم تھے جس کو میں اپنے الفاظ کے بجائے آپ کی بارگاہ کے فیض یافتہ علمائے کرام کے گراں قدر تأثرات کو نقل کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں_
چنانچہ حضرت علامہ محمد ادریس بستوی نائب ناظم اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور یوں تحریر فرماتے ہیں:
حضور خطیب البراھین کا انداز درس نہایت ہی سادہ اور پر اثر ہے، آپ کا معمول ہے کہ جو کتاب بھی پڑھاتے ہیں اس کا پورا حق ادا کردیتے ہیں_
(خطیب البراھین ایک منفرد المثال شخصیت بحوالہ جہان خطیب البراھین)
اور علامہ مقبول احمد سالک مصباحی بانی جامعہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی یوں رقمطراز ہیں کہ:
حضرت کا انداز تدریس بڑا نرالا ہوتا تھا، میرا خیال ہے کہ آپ کا انداز آپ کے استاذ گرامی جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ الحاج عبدالعزیز محدث مبارک پوری بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور سے کافی ملتا جلتا تھا کیونکہ حافظ ملت بھی لمبی چوڑی تقریر کر کے طلباء کا وقت ضائع نہیں کرتے تھے، عموماً حضرت صوفی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ ضروری مقامات پر تشریح کر دیتے، اگر کہیں کوئی اعتراض پیدا ہونے والا ہوتا تو اسے پہلے ہی دفع کر دیتے، طلبا سے عبارت ضرور پڑھواتے، الفاظ و اعراب کی غلطی پر سخت تنبیہ کرتے_
( آئینۂ محدث بستوی بحوالہ جہان خطیب البراھین)
درس بخاری
آپ ٣٠ جون ١٩٨٧ء میں دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام سے ریٹائر ہوگئے لیکن اراکین مدارس اور دیگر ذمہ داران نے آپ کے خلوص و للہیت اور حسن تدبیر و انتظام کو مد نظر رکھتے ہوئے وہاں سے جانے نہ دیا بلکہ آپ سے درخواست کیا کہ آپ شیخ الحدیث کے مقام پر فائز رہ کر درس بخاری دیں جس پر آپ نے رضا مندی کا اظہار فرمایا اور پھر تقریباً ٢١ سال تک الله و رسول عزوجل و ﷺ کی رضا کے لیے بلا معاوضہ درس بخاری سے مستفیض فرماتے رہے_
درس بخاری میں حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ کا طریقۂ کار اور اسلوب تدریس کیا ہوا کرتا تھا اس کو آپ شہزادہ حضور خطیب البراھین حبیب العلماء حضرت علامہ مفتی محمد حبیب الرحمن جید مجدہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں آپ یوں رقمطراز ہیں کہ:
بحمده تعالى آپ ٢١ سال تک بلا معاوضہ فی سبیل اللہ درس بخاری دیتے رہے،آپ کے درس بخاری کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ بلاناغہ نماز فجر پڑھنے کے بعد ہی دورۂ حدیث کے طلبا آپ کے کمرے میں آجایا کرتے، آپ انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ مسلسل
دو گھنٹے "اصح الكتب بعد كتاب الله تعالى الصحيح
للبخاري" کا درس دیتے، دوسری خصوصیت یہ رہی کہ آپ دینی جلسوں میں تشریف لے جاتے، جلسہ ختم ہوتے ہی تنویر الاسلام امرڈوبھا میں آنے کے لیے بے قرار ہو جایا کرتے تاکہ درس بخاری کا ناغہ نہ ہو جائے حتی کہ کبھی آپ اپنے وطن مالوف اگیا گھر کے پروگرام میں بھی تشریف لاتے تو پروگرام ختم ہونے پر ہم لوگ پوری کوشش کرتے کہ اس وقت قیام فرمائیں، صبح تشریف لے جائیں، تو آپ پر زور لہجے میں ارشاد فرماتے کہ درس بخاری کا ناغہ ہو جائے گا_ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ مسلسل و کوشش پیہم سے سال پورا ہونے تک بخاری شریف کی دونوں جلدیں ختم کرا دیا کرتے سبحان اللہ!
(جہان خطیبُ البراھین صفحہ نمبر 34 /35)
حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ اپنے گوناگوں کمالات و امتیازات کی بنا پر جس منصب پر بھی متمکن اور جلوہ بار ہوئے اس کا پورا پورا حق ادا کردیا یہی وجہ تھی کہ جماعت اہل سنت کے ہر طبقہ کے لوگ آپ سے بہت حد متاثر تھے اور آپ کے حلقۂ ارادت میں آنے پر فخر و نازاں کرتے تھے_
تلامذہ
آپ کے علمی کمالات اور غیر معمولی شہرت کی وجہ سے بے شمار طالبان علوم نبویہ نے آپ کی بارگاہ علم و فضل میں زانوئے تلمذ تہہ کر کے اپنی علمی تشنگی اور پیاس کو بجھایا_
حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ کے علمی مقام و مرتبہ کا اندازہ اس سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ جماعت اہل سنت کے ممتاز عالم دین بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان صاحب سابق شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ آپ {حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ} کو چلتی پھرتی لائبریری کہا کرتے تھے_
(آئینۂ محدث بستوی صفحہ ٥٢)
اس جزئیہ سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ آپ کا علمی مقام و مرتبہ اور قوت حافظہ، استحضار عبارات و جزئیات مع حوالہ جات کس
اعلی درجے کا تھا_
حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ کے شاگردوں اور خوشہ چینوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کو شمار کرنا ناممکن ہے البتہ کچھ مشاہیر تلامذہ کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں_
1️⃣ محسن العلماء حضرت علامہ محمد محسن صاحب قبلہ نظامی علیہ الرحمۃ
2️⃣ تنویر العلماء حضرت علامہ مفتی عبد المنان قادری مفتئ اعظم مندسور علیہ الرحمۃ
3️⃣ حضرت علامہ مولانا محمد ادریس بستوی صاحب نائب ناظم اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
4️⃣ حضرت علامہ مولانا محمد تفسیر القادری قیامی صاحب سابق نائب پرنسپل دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
5️⃣ خلیفہ حضور حبیب العلماء و شیخ الاسلام مدنی میاں حضرت علامہ مولانا محمد شفیق نظامی صاحب قبلہ
تصنیفات
آپ نے کردار و رجال سازی کے ساتھ ساتھ ایسی علمی اور فکری دستاویزات بھی چھوڑیے ہیں جو آپ کے قلمی جوہر اور علمی بصیرت کی عکاس ہیں_
جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1️⃣ فضائل تلاوت قرآن مبین
2️⃣ اختیارات امام النبیین
3️⃣ خطبات خطیب البراھین
4️⃣ فضائل مدینہ
5️⃣ کھانے پینے کا اسلامی طریقہ
6️⃣ برکات روزہ
7️⃣ فلسفۂ قربانی
8️⃣ حقوق والدین
برکات مسواک
داڑھی کی اہمیت
احوال الصالحین
حضور خطیب البراھین کی ان کتابوں کو پڑھ کر ایک منصف مزاج آدمی آپ کی قلمی استعداد و صلاحیت کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوجائے گا_
الحاصل یہ کہ حضور خطیب البراھین علیہ الرحمۃ کی پوری زندگی درس و تدریس، اصلاحِ امت اور رجال سازی میں گزری۔ آپ کا تدریسی و تصنیفی انداز، علم و اخلاص، نظم و ضبط اور روحانیت کا حسین امتزاج تھا جس نے نسلوں کو علمی و دینی سرمایہ عطا کیا۔