Oct 23, 2025 01:59 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
ذکر حضور خطیب البراہین

ذکر حضور خطیب البراہین

ذکر حضور خطیب البراہین

انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچ 

استاد و ناظم تعلیمات 

جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول سوار ضلع رامپور یوپی

ذکرِ صالحین وہ مقدس آئینہ ہے جس میں بندۂ مومن اپنے کردار و اعمال کا عکس دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: فَاذْكُرُوْنِیْ اَذْكُرْكُمْ — “تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا چرچا کروں گا۔” یہ وعدۂ ربانی اس حقیقت پر شاہد ہے کہ ذکرِ الٰہی کے ساتھ ذکرِ اولیاء بھی رحمت و برکت کا وسیلہ ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ لَمْ یَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْكُرِ اللّٰہَ — “جس نے لوگوں کا شکر ادا نہ کیا، اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔” اسی مفہوم کو حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے یوں بیان فرمایا: إِنَّ الرَّحْمَةَ تَنْزِلُ عِنْدَ ذِكْرِ الصَّالِحِينَ — “جب صالحین کا ذکر کیا جاتا ہے تو رحمتِ الٰہی نازل ہوتی ہے۔” پس صالحین کے تذکرے سے دلوں کو تسکین اور روحوں کو طہارت نصیب ہوتی ہے۔ انہی پاکیزہ نفوس میں ایک روشن نام حضرت علامہ محمد نظام الدین المعروف بہ صوفی صاحب خطیب البراہین علیہ الرحمہ کا ہے، جن کی زندگی علم، عمل، تقویٰ، اخلاص اور خدمتِ دین کا حسین امتزاج تھی۔

اُتر پردیش کے معروف گاؤں اگیا (پوسٹ دودھارا، ضلع سنت کبیر نگر – خلیل آباد) کی بابرکت زمین 21؍ رجب المرجب 1346ھ کو اس وقت جگمگا اٹھی جب ایک نورانی وجود نے اس خاکی دنیا میں آنکھ کھولی۔ والدین نے محبت سے نام رکھا محمد نظام الدین۔ بچپن ہی سے آپ کے مزاج میں سنجیدگی، شرافت اور دین سے گہری وابستگی نمایاں تھی۔ کھیل کود، لغومشاغل اور فضول باتوں سے ہمیشہ اجتناب فرمایا، گویا آپ کی فطرت بچپن سے ہی زہد و تقویٰ کی آئینہ دار تھی۔

ابتدائی تعلیم مقامی مکتب سے حاصل کی۔ بعد ازاں دارالعلوم تدریس الاسلام، بسڈیلا (بستی) سے باقاعدہ تعلیمی سفر شروع ہوا۔ علم کی تشنگی نے آپ کو آگے بڑھنے پر آمادہ کیا تو مدرسہ اسلامیہ اندکوٹ، میرٹھ تشریف لے گئے، جہاں حضرت علامہ حاجی مبین الدین محدث امروہوی اور امام النحو حضرت علامہ غلام جیلانی میرٹھی علیہما الرحمہ سے علم و تربیت کا فیض حاصل کیا۔ تعلیم کے اعلیٰ مدارج کے لیے آپ نے الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کا رخ کیا۔ وہاں حضور حافظِ ملت حضرت شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ کی روحانی و علمی صحبت نصیب ہوئی۔ اشرفیہ کے اساتذۂ کرام نے آپ کی ذکاوت، اخلاق اور تبحر علمی کو سراہا۔ آخرکار حضور حافظِ ملت اور دیگر اکابر علماء کی دستِ مبارک سے آپ کو دستارِ فضیلت عطا کی گئی۔

تعلیم کے دوران آپ کی غیر معمولی روحانیت اور عبادت گزاری نے اساتذہ و طلبہ سب کو متأثر کیا۔ آپ دارالاقامہ میں راتوں کو عبادت کرتے، فجر سے قبل وضوکی حالت میں پائے جاتے۔ دارالاقامہ کے نگران حضرت مولانا احمد علی مبارکپوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: “میں جب فجر کے لیے طلبہ کو بیدار کرنے جاتا تو مولانا نظام الدین کو ہمیشہ وضو کرتے یا وضو سے فارغ پاتا۔” یہی اخلاص و پرہیزگاری دیکھ کر ساتھی طلبہ نے آپ کو "صوفی صاحب" کے لقب سے پکارنا شروع کیا۔ ابتدا میں آپ نے اس لقب سے احتراز کیا، مگر جب حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سے شکایت کی تو انہوں نے فرمایا: “جی ہاں، ہم بھی آپ کو صوفی صاحب کہتے ہیں، اور آپ ہیں اس کے سچے مصداق۔” یوں یہ لقب آپ کی شناخت بن گیا۔ اور سچ ہے: ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے مثال قوتِ بیان عطا فرمائی تھی۔ آپ نے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں وعظ و تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کی تقریر کا خاصہ یہ تھا کہ ہر بات

دلیل و حوالہ کے ساتھ فرماتے — قرآن کی آیت کا نمبر، پارہ، رکوع، حدیث کا باب، صفحہ اور ماخذ بیان کرتے۔ آپ کے بیان میں نہ لفاظی تھی نہ تصنع؛ بلکہ سادہ، مدلل اور دلنشین انداز تھا۔ یہی امتیاز دیکھ کر علماء و خطباء نے آپ کو "خطیبُ البراہین" کا لقب دیا — یعنی “دلائل و براہین کے ساتھ خطبہ دینے والا مقرر۔” آپ کی خطابت نے عوام ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے علماء کو بھی متاثر کیا۔ خود حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ ایک جلسے میں آپ کی تقریر سن کر مسرور ہوئے 

اور دعا دیتے ہوئے فرمایا: “اللہ تمہارے علم و بیان میں برکت عطا فرمائے۔” یہی آپ کے کمالِ علم و اخلاص کی گواہی تھی۔

علم کی شمع آپ نے اپنی پوری حیات میں 

روشن رکھی۔ کل چھپن سال آپ نے درس و تدریس کی خدمت انجام دی۔ آپ نے ذیل کے اداروں میں تدریسی فرائض انجام دیے: (1) دارالعلوم اہلِ سنت فیض الاسلام، مہنداول (بستی) (2) دارالعلوم اہلِ سنت شاہ عالم، احمد آباد (گجرات) (3) دارالعلوم اہلِ سنت فضل رحمانیہ، پچپیڑوا (گونڈہ) (4) دارالعلوم اہلِ سنت تنویر الاسلام، امرڈوبھا (بکھرہ خلیل آباد)۔ آخری مذکورہ ادارے میں آپ پینتالیس برس تک شیخ الحدیث رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اکیس سال تک بغیر کسی معاوضے کے بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔ یہ آپ کے اخلاص اور علم دوستی کی روشن دلیل ہے۔

قرآن مجید فرماتا ہے: إِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ — “اللہ سے تو اس کے بندوں میں صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔” حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی زندگی اس آیت کی عملی تفسیر تھی۔ آپ کا ہر قول و فعل خوفِ خداوندی سے معمور تھا۔ ایک  مرتبہ سرکاری معائنہ کے لیے ایک خاتون انسپکٹر دارالعلوم میں آئیں۔ لوگوں نے گزارش کی کہ حضرت ان سے ملاقات کر لیں تو ادارے کو فائدہ ہوگا۔ آپ نے نہایت جلال سے فرمایا: “دین دے کر دنیا لینا سب سے بڑا خسارہ ہے، میں ایسا خسارہ کبھی قبول نہیں کر سکتا۔” یہ آپ کی غیرتِ ایمانی اور استقامت کا مظہر تھا۔زمانۂ طالب علمی میں ایک بار آپ مٹر کی کھیت میں گئے اور چند پھلیاں توڑ لیں۔ قریب سے گزرتے شخص نے کہا: “یہ کھیت آپ کا نہیں، تجمل حسین صاحب کا ہے۔” یہ سنتے ہی خوفِ الٰہی سے لرز گئے، فوراً گھر واپس آئے، مالکِ کھیت سے معذرت کی اور مٹر واپس کر دی۔ مالک نے بچے کی یہ خشیت دیکھ کر کہا: “یہ بچہ عام نہیں، اللہ کا خاص بندہ ہے۔” ایک روز آپ نے بکھرہ کے درزی سے فرمایا کہ آستین میں زِپ لگاؤ۔ درزی نے اپنی کترن سے سفید کپڑا لگا دیا۔ آپ نے دیکھتے ہی فرمایا: “دوسرے کا کپڑا بلا اجازت میرے لیے جائز نہیں، اسے فوراً نکال دو۔” پھر اپنا کپڑا خرید کر لگوایا۔ یہ وہ باریک بینی اور تقویٰ تھا جو صرف اولیاء کاملین کے نصیب میں ہوتا ہے۔

اولیاءِ کرام کی دو بنیادی صفات قرآن نے واضح کیں: ایمان اور تقویٰ۔ حضرت صوفی  صاحب علیہ الرحمہ کی پوری حیات ان دونوں اوصاف سے مزین تھی۔ علم کے وارث، سنت کے پابند، خلقِ خدا کے خیرخواہ اور نفس کے مجاہد تھے۔ لوگوں نے آپ کو زندگی ہی میں “زِندہ ولی” کے لقب سے یاد کیا۔ جیسا کہ امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ نے فرمایا:

تیرے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا

وہ کیا مہک سکے حور سراغ لے کے چلے

یکم جمادی الاخرہ 1434ھ بروز جمعرات صبح آٹھ بجے وہ ساعت آئی جب یہ چراغِ علم و عرفان اپنے ربِّ کریم سے جا ملا۔ (إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)۔ ۲ جمادی الاولی کو بعد نماز جمعہ، ان کے جانشین محترم صاحبزادے حضرت علامہ حاجی الشاہ محمد حبیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپ کو آپ کے وطنِ اگیا میں سپردِ خاک کیا گیا۔ آج بھی آپ کا مزار اہلِ محبت کے لیے زیارت و فیض کا مرکز ہے۔

حضرت علامہ محمد نظام الدین صوفی صاحب خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی حیاتِ طیبہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم اگر تقویٰ سے خالی ہو تو وہ روشنی نہیں رہتا، عمل اگر اخلاص کے بغیر ہو تو اس میں برکت نہیں، اور خدمتِ دین اگر دنیا کے مفاد کے لیے ہو تو وہ عبادت نہیں، تجارت بن جاتی ہے۔ آپ کی زندگی قرآن و سنت کے عملی مظاہر سے بھری تھی۔ آپ نے دکھا دیا کہ علم کے ساتھ عمل، تقویٰ کے ساتھ خشیت، اور تبلیغ کے ساتھ اخلاص ہی حقیقی کامیابی کا راز ہیں۔ اللہ رب العزت آپ کے درجات بلند فرمائے، ہمیں آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،.

 

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383