مفسر قرآن استاذالعلماء حضرت علامہ الحاج سیداحمد انجم عثمانی علیہ الرحمہ – ایک نابغۂ روزگار شخصیت*
مفتی پیر شاکرالقادری فیضی
بانی دارالعلوم فیضان تاج الشریعہ اودے پور راجستھان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
برصغیر کی علمی و روحانی تاریخ میں چند ایسے رجالِ کار پیدا ہوئے جن کی علمی لیاقت، فکری بصیرت اور روحانی عظمت صدیوں تک نسلوں کو فیض پہنچاتی رہے گی ۔ انہیں آسمانِ علم و عرفان کے درخشاں ستاروں میں ایک تابندہ نام مفسر قرآن انجم العلماء استاذی الکریم پیر طریقت حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی محمد سید احمد انجم عثمانی علیہ الرحمہ کا ہے۔ آپ نہ صرف ایک مفسرِ قرآن اور اعلیٰ خطیب تھے، بلکہ ایک ایسے پیرِ طریقت اور استاذالعلماء جن کے فیض یافتہ ہزاروں علماء دنیا بھر میں دین متین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
*علمی عظمت اور مفسرِ قرآن کی شان*
انجم العلماء حضرت انجم عثمانی علیہ الرحمہ نے عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ قرآن و سنت کی خدمت میں بسر کیا۔ آپ کی تفسیرِ قرآن میں جہاں زبان کی شستگی اور بیان کی روانی ملتی ہے، وہیں معانی کی گہرائی اور اسرارِ قرآنی کی حکیمانہ تشریح بھی نظر آتی ہے۔ آپ کے درسِ قرآن میں علم و عرفان کے جواہر بکھرتے، قلوب نورِ ایمان سے منور ہوتے اور قارئین و سامعین قرآن فہمی کی ایک نئی دنیا میں داخل ہو جاتے ۔
*خطابت کا انداز*
آپ کی خطابت صرف الفاظ کا بہاؤ نہیں تھی بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ایک روحانی تاثیر کا سرچشمہ تھی۔ منبر پر جب آپ قرآن و حدیث کے دلنشین استدلال اور ادبی حسن کے ساتھ خطاب فرماتے تو سننے والا دل و جان سے ہمہ تن گوش ہو جاتا۔ آپ کے خطابات میں علمی استدلال، ادبی شان، روحانی جذب اور اصلاحی پیغام کا حسین امتزاج ہوتا۔
*استاذالعلماء کی حیثیت*
حضرت علیہ الرحمہ نے اپنی تدریسی زندگی میں ہزاروں علماء فضلاء حکماء تیار کیے، جو آج دنیا کے مختلف خطوں میں دینِ متین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی شاگرد سازی کی خصوصیت یہ تھی کہ ہر طالبِ علم کی فکری تربیت اور علمی بنیاد مضبوط کرتے، تاکہ وہ خود بھی چراغِ ہدایت بن سکے۔
*پیرِ طریقت*
علم وادب کے ساتھ ساتھ آپ طریقت و روحانیت کے بھی عظیم پیشوا تھے۔ آپ کا تعلق سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ سہروردیہ نقشببدیہ برکاتیہ رضویہ مصطفویہ ابوالعلائیہ یارعلویہ کے مشائخ عظام سے مضبوط تھا اور آپ نے اپنے مریدین کو نہ صرف ظاہری علم کی روشنی عطا کی بلکہ باطنی سکون اور قربِ الٰہی عزوجل، عشق رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ذوق بھی بخشا۔
*عظمت کا اعتراف*
انجم العلماء حضرت علامہ انجم عثمانی علیہ الرحمہ کی علمی و روحانی خدمات تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔ آپ کا فیض زندگیوں کو بدلتا رہا اور آپ کی یاد آج بھی قلوب کو گرما دیتی ہے۔ یقیناً آپ کی ذات برصغیر کی دینی و علمی تاریخ میں ایک مینارِہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپ نے اپنے نانا جان شیخ المشائخ سرکار شعیب الاولیاء علیہ الرحمہ کے زیر سایہ رہ کر ملک وبیرون کی عظیم مرکزی درسگاہ دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براوں شریف میں از ابتدا تا انتہا تعلیم حاصل کی اور اسی شہرہ آفاق درسگاہ سے فارغ ہوکر تدریسی خدمات کیلئے منتخب کئے گئے آپ نے بخوبی مدرس سے لیکر صدرالمدرسین تک تاعمر اسی ادارہ میں رہ کر درس قرآن ، حدیث، اصول حدیث ، فقہ ، اصول فقہ ، علم کلام ، نحو ، صرف ، منطق و فلسفہ وغیرہ دیتے رہے ۔جہان عملیات و تعویذات میں بھی آپ اعلی مقام پر فائز تھے ، ان گنت افراد کو اس راہ میں آپ کی ذات سے فیض کے چشمے جاری ملے ۔ اور مرقد اطہر سے صبح قیامت تک جاری رہیں گے ۔ ہر بگلہوا قاضی میں آپ کا عرس سراپا قدس نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منانا جاتا ہے۔ جس علمائے کرام مشائخ عظام کی نورانی تقاریر اور شعراء کے کلام اور لنگر عام سے فیوض و برکات صاحب عرس علیہ الرحمہ کے جاری ہوتے ہیں ۔
اللہ عزوجل اپنے حبیب رسول اعظم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل آپ کے مراتب کو مزید بلندیاں نصیب فرمائے۔
از قلم : خلیفہ تاج الشریعہ و خلیفہ بغداد مقدسہ و خلیفہ انجم العلماء استاذ العاملین مفتی پیر شاکرالقادری فیضی بانی دارالعلوم فیضان تاج الشریعہ اودے پور راجستھان