لوگ کیا کہیں گے؟ ایک فکری و سماجی المیہ
از قلم انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچ شریف استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول سوار ضلع رامپور یوپی
مکرمی ہمارے معاشرے میں ایک ایسا جملہ رائج ہے جس نے نہ صرف افراد کی زندگی کو جکڑ رکھا ہے بلکہ ان کے خوابوں، فیصلوں اور خوشیوں پر بھی پہرے بٹھا دیے ہیں۔ وہ جملہ ہے: "لوگ کیا کہیں گے؟"۔ یہ فقرہ چھوٹا سا ہے لیکن اس کے اثرات بہت وسیع اور گہرے ہیں۔ اسی ایک جملے نے ہمارے نوجوانوں کی جرأتِ فکر کو دبا دیا، ہمارے علماء و ائمہ کی آزادانہ تبلیغ کو محدود کر دیا، اور ہمارے گھروں میں خوف و دباؤ کی فضا قائم کر دی۔حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہتا رہے گا۔ انسان چاہے نیکی کرے یا برائی، ہر حال میں رائے زنی اور تنقید کا نشانہ بنے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی صفت یہ بیان فرمائی ہے:
"وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ"
(سورۂ مائدہ، آیت 54) یعنی وہ ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ پس اصل پیمانہ لوگوں کی رائے نہیں بلکہ اللہ کی رضا ہے۔لوگ کیا کہیں گے؟" کی نفسیاتی اور سماجی بنیادیہ سوچ انسانی فطرت کے اس پہلو سے جڑی ہے کہ انسان فطری طور پر دوسروں کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔ مگر جب یہ رجحان اعتدال سے بڑھ جائے تو ایک نفسیاتی بیماری بن جاتا ہے۔ اس کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:
1. ہم رنگی کا رجحان: لوگ سمجھتے ہیں کہ اکثریت جو کر رہی ہے، وہی درست ہے، لہٰذا وہی اپنانا چاہیے۔
2. بدنامی کا خوف: معاشرتی دباؤ کی وجہ سے افراد اپنے درست فیصلے ترک کر دیتے ہیں۔
3. خاموشی کا چکر: بہت سے لوگ حق جانتے ہیں مگر بولنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں بدنام نہ ہو جائیں۔4. اجتماعی وہم: ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ باقی سب ایک مخصوص رائے رکھتے ہیں، لہٰذا وہ بھی چپ ہو جاتا ہے۔یہ تمام عوامل فرد کی شخصیت کو کمزور، اس کی خود اعتمادی کو مجروح، اور اس کی نیت کو ریاکاری کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔
شرعی نقطۂ نظر
اسلام کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے جواب دہ ہے، نہ کہ لوگوں کے سامنے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ"
(سورۂ مائدہ، آیت 44)
ترجمہ: لوگوں سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو۔
اسی طرح فرمایا:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ"
(سورۂ نساء، آیت 135)
یعنی عدل پر قائم رہو اور اللہ کے لیے گواہی دو خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ"
(صحیح بخاری)
ترجمہ: جب تمہارے اندر حیا باقی نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو۔
یہ تمام نصوص اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ اصل معیار "اللہ کی رضا" ہے، نہ کہ لوگوں کی خوشنودی۔
علماء، فارغین اور ائمہ پر اثرات
یہ جملہ "لوگ کیا کہیں گے؟" خاص طور پر دینی حلقوں میں زیادہ کارفرما نظر آتا ہے۔
1. علمی و تحقیقی میدان: نئے فارغین بعض اوقات حساس موضوعات پر تحقیق یا اظہارِ رائے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں معاشرے یا کمیٹی کو ناگوار نہ گزرے۔2. خطبات و دروس: ائمہ مساجد اپنی تقاریر میں ان مسائل پر گفتگو کرنے سے بچتے ہیں جن پر اصلاح کی ضرورت ہے، صرف اس خوف سے کہ نمازی یا محلہ والے اعتراض نہ کریں۔
3. سماجی فیصلے: شادی بیاہ، تعلیم اور معاشی معاملات میں اکثر لوگ اپنی مرضی کے بجائے محض معاشرتی دباؤ کے تابع ہو جاتے ہیں۔
یہ رویے نہ صرف فرد کی دینی بصیرت کو کمزور کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو بھی جمود کا شکار بنا دیتے ہیں۔
شرعی اصول اور عرف کا توازن
فقہ کا مشہور قاعدہ ہے:
"العرف معتبر ما لم يخالف الشرع"
یعنی عرف معتبر ہے جب تک کہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔
یہاں واضح ہو جاتا ہے کہ عوامی رائے یا
معاشرتی دباؤ شریعت کا معیار نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی عمل شریعت کے موافق ہے تو اسے محض "لوگ کیا کہیں گے" کی بنا پر ترک کرنا درست نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی عرف
عملی نقصانات
شریعت سے متصادم ہو تو اسے اختیار کرنا ناجائز ہے خواہ معاشرے میں وہ کتنا ہی رائج ہو۔
"لوگ کیا کہیں گے" کی سوچ کے چند بڑے نقصانات درج ذیل ہیں:
1. روحانی نقصان: نیت کا اخلاص متاثر ہوتا ہے، ریاکاری اور دکھاوے کا رجحان بڑھتا ہے۔
2. فکری نقصان: علمی آزادی ختم ہو جاتی ہے، سطحی مسائل پر زور بڑھ جاتا ہے، تحقیق و اجتہاد کمزور ہو جاتے ہیں۔
3. سماجی نقصان: اصلاحِ احوال کی کوششیں دم توڑ دیتی ہیں، حق بات دب جاتی ہے۔
4. نفسیاتی نقصان: انسان مسلسل دباؤ اور خوف میں رہتا ہے جس سے ذہنی سکون اور خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔
5. معاشی نقصان: افراد اپنی معاشی آزادی کو کھو کر محض دوسروں کی خوشنودی کے لیے غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔
سیرت اور تاریخ کے نمونے
انبیاء علیہم السلام کی زندگی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کی مخالفت کے باوجود حق پر ڈٹے رہے۔
امام احمد بن حنبلؒ نے "محنۃ القرآن" کے دور میں ظلم سہ لیا مگر حق سے پیچھے نہ ہٹے۔
امام ابو حنیفہؒ نے منصبِ قضا قبول نہ کیا تاکہ دین کی آزادی برقرار رہے۔امام مالکؒ نے فرمایا: "ہر شخص کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جا سکتی ہے سوائے نبی کریم ﷺ کے۔"یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو
اجاگر کرتی ہیں کہ حق گوئی اور استقلال کی قیمت بسا اوقات ملامت اور تکالیف ہوتی ہے مگر یہ راہ ہی اصل کامیابی کی راہ ہے۔ عملی لائحۂ عمل اب سوال یہ ہے کہ اس سوچ سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟ اس کا جواب درج ذیل اقدامات میں پوشیدہ ہے:
فردی سطح پر
1. نیت کو درست کر کے ہر عمل کو اللہ کی رضا کے لیے خالص کیا جائے۔
2. اپنے اصول اور حدود طے کر لیے جائیں کہ کن امور پر سمجھوتہ ممکن نہیں۔
3. علمی اور دعوتی ذمہ داریوں کو حکمت کے ساتھ ادا کیا جائے، مگر حق بات کو ترک نہ کیا جائے۔
4. معاشی خودکفالت کی طرف توجہ دی جائے تاکہ دوسروں کا دباؤ کم ہو۔
5. تنقید کو علمی انداز میں سنا اور پرکھا جائے، اور بلاوجہ کی باتوں کو نظرانداز کیا جائے۔
ادارہ جاتی سطح پر
1. مساجد اور مدارس میں امام و کمیٹی کے درمیان واضح اصول طے ہوں تاکہ بلاوجہ مداخلت نہ ہو۔
2. اصلاح کے معیار مقبولیت نہیں بلکہ مؤثریت ہو۔
3. غیبت، بدگمانی اور بے جا اعتراض کے سدباب کے لیے شفاف نظام بنایا جائے۔
4. ائمہ اور اساتذہ کے لیے تربیتی نشستیں منعقد کی جائیں تاکہ وہ عصرِ حاضر کے مسائل کو حکمت سے حل کر سکیں۔
معاشرتی سطح پر
1. والدین اور سرپرستوں کو یہ شعور دیا جائے کہ فیصلے اللہ کی رضا اور عقلِ سلیم کے مطابق ہونے چاہئیں، نہ کہ صرف معاشرتی دباؤ کے مطابق۔
2. نوجوانوں کو یہ تعلیم دی جائے کہ اصل معیار "اللہ کیا چاہے گا" ہے، "لوگ کیا کہیں گے" نہیں۔
مکرمی "لوگ کیا کہیں گے" دراصل ایک فکری قید ہے جو انسان کو اس کی اصل شخصیت اور مقصودِ حیات سے دور کر دیتی ہے۔ جبکہ قرآن و سنت کی تعلیم یہی ہے کہ مؤمن اپنی زندگی اللہ کی رضا اور اپنی اصولی قدروں کے مطابق گزارے۔ لوگوں کی رائے کبھی ختم نہیں ہوگی، لیکن مؤمن کے لیے اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو۔
تماشائیوں کی پرواہ چھوڑ کر اپنی کہانی کا ہیرو بننا ہی اصل زندگی ہے۔