Oct 23, 2025 07:37 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حیات مبارکہ ایک نظر میں

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حیات مبارکہ ایک نظر میں

14 Aug 2025
1 min read

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حیات مبارکہ ایک نظر میں

تحریر: غیاث الدین احمدعارفؔ مصباحیؔ

خادم التدریس مدرسہ عربیہ سعیدالعلوم یکماڈپو،لکشمی پور،مہراج گنج(یوپی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسمگرامی :پیدائشی نام ’’محمد‘‘اور تاریخی نام’’ المختار‘‘(١٢٧٢ھ)ہے آپ کے جد امجد حضرت علامہ رضا علی خان علیہ الرحمہ نے’’احمد رضا‘‘ نام تجویز فرمایا۔

تاریخ ولادت : ١٠ شوال المکرم ١٢٧٢ھ بمطابق ١٤ جون ١٨٥٦ء بروز ہفتہ بوقت ظہر۔

مقام ولادت:محلہ جسولی ،بریلی شریف،یوپی( انڈیا)۔

القاب: اعلیٰ حضرت ،حجۃ اﷲ فی الارض، فخر السلف، بقیۃ الخلف، شیخ الاسلام و المسلمین، مجدد اعظم، شاہ ملک سخن، امام اہل سنت، عظیم العلم، موئید ملت طاہرہ، مجدد ملت حاضرہ ،محدث بریلوی، فقیہ العصر، سرتاج الفقہا وغیرہ۔

سلسلۂ نسب: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بن حضرت مولانا نقی علی خان بن مولانا رضا علی خان بن مولانا حافظ کاظم علی خان بن مولانا شاہ محمد اعظم خان بن حضرت محمد سعادت یار خان بن حضرت محمد سعید اللہ خان رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین۔ 

تعلیم: ابتدائی تعلیم حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے اور اکثر کتب اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ سے پڑھیں، نیز چند کتب کادرس حضرت مولانا سید ابوالحسین احمد نوری ،مارہروی علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا عبدالعلی رامپوری علیھم الرحمہ سے لیا،بعض علوم حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی،امام شافعیہ شیخ حسین صالح،مفتی حنفیہ شیخ عبد الرحمٰن سراج،مفتی شافعیہ شیخ احمد بن زینی دحلان مکی،قاضی القضاۃ حرم شریف سے حاصل کیے۔یوں تو آپ کے اساتذہ کی فہرست بہت مختصر ہے لیکن اللہ تعالی جلّ شانہٗ نے اپنے فضل سے آپ کا سینہ علوم کا خزینہ بنا دیا تھا اس طرح آپ کثیر علوم وفنون کے ماہر ہو گئے۔

ناظرہ قرآن مجید : آپ نے چار برس کی ننھی عمر میں ناظرہ قرآن مجید مکمل فرمایا۔

پہلا خطاب:چھ سال کی عمر میں ماہ ربیع الاول شریف کی تقریب میں ایک بہت بڑے اجتماع کے سامنے میلاد شریف کے موضوع پر ایک پر مغز اور جامع بیان فرمایا۔

دستار علم وفضل: 

 تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر میں 14 شعبان المعظم 1286ھ،مطابق 19 نومبر 1869ء کو جملہ مروجہ علوم و فنون سے فارغ التصیل ہوئے اور العلماء ورثتہ 

الانبیاء کا تاج آپ کے سر پر رکھا گیا۔

ہدایہ النحو کی عربی شرح : آٹھ سال کی عمر میں آپ نے فن نحو کی مشہور و معروف کتاب ہدایہ النحو کی عربی شرح لکھی۔

پہلا فتویٰ: 14 شعبان المعظم 1286ھ،مطابق 19 نومبر 1869ء کو رضاعت کے متعلق پہلا فتوی لکھا۔

مستقل فتویٰ نویسی کی ابتدا:تقریباً 1293ھ میں فتوی نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔ 1297ھ میں والد گرامی کی وفات کے بعد کلی طور پر فتوی نویسی کے فرائض انجام دینے لگے۔

اعلیٰ حضرت کا لقب : ایک مرتبہ آپ (حضور وارث پاک رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے. وہاں پر بہت سارے لوگ موجود تھے جس میں علماء کرام بھی موجود تھے۔انہیں لوگوں کے ساتھ امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ بھی بیٹھ گئے. امام احمد رضا خان بریلوی کووارث پاک نے دیکھ لیا. امام احمد رضا کو مخاطب کرکے وارث پاک نے ارشاد فرمایا آپ اس جگہ نہیں بلکہ اس تخت پر بیٹھیے، کیونکہ یہ سب لوگ حضرت ہیں اورآپ اعلی حضرت ہیں۔(بحوالہ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف نومبر 2011ص44 حضور اشرفی میاں کچھوچھوی کااجمالی تعارف، ازڈاکٹرمحمداعجازانجم/تجلیات مفتی اعظم ص146)واللہ تعا لیٰ اعلم بالصواب۔

نکاح:  1291ہجری میں جناب شیخ فضل حسین صاحب رامپورکی صاحبزادی ارشاد بیگم(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ہوا۔

اولاد: دو صاحبزادے،حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ محمد حامد رضا خان اور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ شاہ محمد مصطفی رضا خان رحمۃ اللہ علیہم اور پانچ صاحبزادیاں ۔

سفر حج وزیارت:  پہلا سفر حج ذو الحجہ 1294ھ مطابق دسمبر 1877ء میں فرمایا ۔ دوسری بار آپ نے ربیع الاوّل 1324ھ بمطابق اپریل 1906ء کو بارگاہ رسالت میں حاضری دی، ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں رہ کر بارگاہ رسالت کی زیارت فرماتے رہے۔

بیعت و خلافت:  1295ہجری میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ میں مارہرہ شریف گئے اور وہاں حضرت علامہ سید شاہ آل رسول احمدی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپ کے پیرومرشد نے بیعت فرماتے ہی آپ کو تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی۔

علوم و فنون میں مہارت : سید ریاست علی قادری صاحب نے اپنے مقالہ ’’امام احمد رضا کی جدید علوم و فنون پر دسترس ‘‘میں جدید تحقیق و مطالعہ سے ثابت کیا ہے کہ آپ کو ایک سو پانچ علوم و فنون پر مہارت تامہ حاصل تھی۔

تصانیف: تقریباً پچپن علوم وفنون پر ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔

حواشی:  مختلف علوم و فنون کی ڈیڑھ سو کے قریب مشہور کتابوں پر حواشی تحریر فرمائے۔

کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن: مصنف بہار شریعت حضور صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے قرآن مجید کے صحیح اردو ترجمہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عرض کی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ شام میں کاغذ قلم اور دوات لےکر آجایا کریں۔ چناں چہ حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ حاضر ہوجاتے اور جتنا ممکن ہوتا اعلیٰ حضرت بغیر کسی تفسیر و لغت کے فی البدیہہ ترجمہ ارشاد فرماتے جاتے، بعد میں صدرالشریعہ اس ترجمہ کو دیگر تفاسیر سے ملاتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ یہ فی البدیہہ ترجمہ معتبر تفاسیر کے عین مطابق ہے۔

اَلْعَطَایَا النَّبَوِیَّۃ فِی الْفَتَاوی الرّضْوِیَّۃِ: یوں توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک لاکھوں فتوے لکھے، لیکن افسوس! کہ سب کو نَقل نہ کیا جاسکا، جو نَقل کرلیے گئے تھے ان کا نام’’العطایا النبّویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘‘رکھا گیا ۔ فتاویٰ رضویہ (جدید) کی 30 جلدیں ہیں جن کے کُل صفحات: 21656 ، کل سُوالات وجوابات: 6847 اور کل رسائل: 206 ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،ج ۳۰،ص ۱۰، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)۔

الدولة المکیہ :      علم غیب نبوی ﷺ کے اثبات میں رسالہ’’الدولة المکیہ بالمادة الغيبيه‘‘ آپ نے مکہ مکرمہ میں 25 ذوالحجہ 1323 ہجری 1905عیسوی کو صرف آٹھ گھنٹوں میں فصیح و بلیغ عربی میں لکھ کر مستفسرین اور علمائے مکہ معظمہ کو حیرت زدہ کر دیا ۔ اس کتاب کو شریف مکہ نے خود سنا اور علماء حرمین شریفین نے پڑھ کر بے پناہ خراج تحسین پیش کیا اور اپنی تقاریظ جلیلہ اور تقاریر میں کتاب کی افادیت اورفاضل مؤلف کی تعریف وتوصیف کھل کر کی ۔

درج پچپن علوم میں آپ کی تصنیفات: (۱)علم قرآن (۲) علم حدیث (۳) اصولِ حدیث (۴) فقہ حنفی (۵)کتب فقہ مذاہب اربعہ (٦) اصولِ فقہ (۷) جدل مہذب (۸) علم تفسیر (۹) علم العقائد والکلام(۱۰)علم نحو (۱۱) علم صرف (۱۲)علم معانی (۱۳)علم بیان (۱۴) علم بدیع (۱۵) علم منطق (۱۶)علم مناظرہ(۱۷) علم فلسفہ (۱۸) علم تکسیر(۱۹) علم ہیئت(۲۰) علم حساب (۲۱) علم ہندسہ(۲۲)قراءت (۲۳) تجوید (۲۴)تصوف (۲۵)سلوک (۲۶) اخلاق (۲۷) اسماء الرجال (۲۸) سیر (۲۹) تواریخ (۳۰)لغت (۳۱) ادب مع جملہ فنون (۳۲) ارثما طیقی(۳۳) جبر و مقابلہ(۳۴)حساب ستینی(۳۵) لوغارثمات (٣٦)علم التوقیت (۳۷)مناظر و مرایا (۳۸)علم الاکر (۳۹)زیجات (۴۰) مثلث کروی (۴۱)مثلث مسطح (۴۲)ہیأۃ جدیدہ (۴۳) مربعات (۴۴)حصہ جفر (۴۵)حصہ زائچہ (٤٦) نظم عربی(۴۷)نظم فارسی (۴۸)نظم ہندی (۴۹)نثر عربی(۵۰)نثر فارسی (۵۱)نثر ہندی (۵۲)خط نسخ(۵۳)خط نستعلیق (۵۴)تلاوت مع التجوید (۵۵)علم الفرائض۔

فتاویٰ رضویہ کی خصوصیات: فتاویٰ رضویہ کے ابتدائی خطبہ میں 90/ اسمائے ائمہ و کتبِ فقہ کو بطورِ براعتِ اِستہلال استعمال کیا گیا ہے، ۔ کسی مسئلہ کی تحقیق میں پہلے لغوی معنی، اصطلاحی تعریف، تقسیم، پھر بحث سے متعلق قسم کا تعین اور پھر اس کے حکمِ شرعی کا بیان ، اس کے بعد قرآن، حدیث، اجماع، اختلاف کی صورت میں مذاہبِ ائمہ اور آخر میں فقہِ حنفی کے مطابق اقوالِ علما و فقہا ذکر ہے۔ اس میں فقہ کے علاوہ دیگرکثیر علوم جیسے حدیث، تفسیر، علمُ الکلام، سائنس، توقیت، ریاضی، منطق، فلسفہ وغیرہ پر بھی مشتمل ہے۔ اس میں بڑے بڑے سائنسدانوں:دیموقراطیس، بطلمیوس،ابن سینا، نصیر الدین طوسی، کیپلر، ولیم ہرشیل، نیوٹن، گلیلیو، آئن اسٹائن، البرٹ ایف پورٹا کے افکار کا علمی رد کیا گیا ہے(جسے یونیورسٹی آف مشی گن نے تسلیم کیا گیاہے)جب کہ ارشمیدس، خوارزمی، کندی، غزالی، رازی، البیرونی، ابن الہیثم، عمر خیام، جے جے ٹامس کے سائنسی افکار کی تائید کی گئی ہے۔سائل کا سوال جس زبان میں ہے، جواب بھی اسی زبان میں دیا گیا ہے۔اس میں حجم بڑھانے کی نیت سے فتاویٰ کی تکرار نہیں ہے۔ 

نعتیہ شاعری: اردو، فارسی، عربی تین زبانوں میں نعت گوئی و منقبت، قصیدہ نگاری کی ہے۔ آپ کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین جلدوں میں ہے۔

تقویٰ و پرہیز گاری: ابتدائےشعور ہی سے نماز باجماعت اور احکام شریعت پرعمل پیرارہے۔ 

تاریخ وصال : 25 صفر 1340ھ مطابق 1921 کو جمعہ کے دن ہندوستانی وقت کے مطابق 2 بج کر 38منٹ پر داعئ اجل کو لبیک کہا۔

مزار مبارک:آپ کا مزار پرانوار بریلی شریف میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

(نوٹ:درج بالا تحریر سوانح اعلیٰ حضرت،سیرت اعلیٰحضرت ، انوار امام احمد رضا ، ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف ،الاجازات المتینۃ لعلماء بکۃ والمدینۃ، وغیرہ سےتلخیص کرکے لکھی گئی ہے ۔مرتب)

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383