تعلیم و تربیت
عبدالحق علیمی علیگ
استاذ : مدرسہ عربیہ مظہرالعلوم نچلول بازار مہراج گنج
استاذ دار العلوم عربیہ عزیزیہ مظہر العلوم نچلول مہراج گنج
تعلیم سے مراد علم کا حاصل کرنا ہے یعنی کتابوں ،اساتذہ یا معلمین سے جو کچھ سیکھنے کو ملے اسے تعلیم کہتے ہیں۔ اگر انسان خود کو زیور علم سے آراستہ کرنا چاہتا ہے تو اسے کتابوں سے قریب ہونا پڑے گا اور اساتذہ کے روبرو زانوے تلمذ تہ کرنا پڑے گا۔ اب ذرا علم کے بارے میں کچھ سماعت فرمائیں۔ علم کا لغوی معنیٰ جاننے اور سمجھنے کے ہیں اور اصطلاح میں علم اس نور کو کہا جاتا ہے کہ اس کے دائرے میں جو شئی یا چیز آجائے وہ منکشف ہو جائے ۔ علم وہ چیز ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لیکر آتی ہے، علم گمنام انسان کو بھی منظر عام پر لا دیتا ہے، ایک معمولی انسان بھی اگر علم حاصل کر لے تو وہ بڑے بڑوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کا اہل ہو جاتا ہے ۔ علم انسان کا ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے۔ اسے پریشانیوں سے نکالاتا ہے۔ علم صاحب علم کی حفاظت کرتا ہے۔ علم سیکھنا یہ قرآن کی پہلی اور بنیادی تعلیم ہے۔ حدیث رسول ﷺ کی بنیادی تعلیم ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ”سورہ مجادلۃ“ میں ارشاد فرمایا”یرفع اللہ الذین آمنوا منکم والذین اوتو العلم درجت“ اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جنہیں علم دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا” عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت میرے ادنیٰ صحابہ پر (ترمذی)
اب تربیت کے بارے میں کچھ اہم باتیں ملاحظہ فرمائیں:۔
تہذیب و اخلاق سیکھانے اور اس کی تعلیم دینے کو تربیت کہا جاتا ہے۔ تربیت انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ اپنی جگہ اہم اور تسلیم شدہ ہے، انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنانا ،انہیں تہذیب یافتہ بنانا ہی تربیت سے تعبیر ہے۔ تربیت کا اصل مقصد اور غرض عمدہ، پاکیزہ، با اخلاق اور با کردال معاشرہ کی تشکیل اور قیام ہے۔ تربیت کی تعریف یو ں بھی کی جاتی ہے کہ برے اخلاق و عادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق و عادات اور ایک صالح اور پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام تربیت ہے۔ یہ تربیت جو انسان کو زر پرستی اور دنیا پرستی سے نکال کر روحانیت کی طرف لے جاتی ہے۔ مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ
عنہ نے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ایک آدمی اپنے بچے کو ادب سکھا ئے یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک صاع صدقہ کرے۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بہت ضروری امر ہے ۔ ان دونوں کی ضرورت و اہمیت سے کسی طور پر بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم بغیر تربیت کے وہ زہر قاتل ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں۔ تعلیم کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور مناسب تربیت کے بغیر تعلیم کسی کام کا نہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بچے پیدا کرنا۔،ان کو کھلانے پلانے کا کام تو جانور اور پرندے بھی
ضرورت کے تحت کر لیتے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ ا ن کی کردار سازی کی جائے یعنی بچوں کو ایسی تعلیم و تربیت دی جائے کہ وہ دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنیں۔
ان نو نہالوں کی تربیت کی ذمہ داری کس کی ہے؟ تو آپ جان لیں ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کچھ کمی اور زیادی کے ساتھ اساتذہ اور والدین دونوں پر مشترکہ طور پر عاید ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تعلیم و تربیت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں تو کیا یہ لزومیت یکساں ہے نہیں ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ تربیت کو ایک درجہ زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ آج ہمیں بہت سے پڑھے لکھے افراد ملتے ہیں لیکن تربیت کی کمی کہ وجہ سے ان میں ایمانداری ، خلوص اور فرض شناسی نظر نہیں آتی، تعلیم کی کمی کو تربیت پورا کر سکتی ہے مگر تربیت کی کمی کا جو خلا ہے اسے تعلیم ہر گز پورا نہیں کر سکتی ۔اگرتعلیم ذہن کی غذا ہے تو تربیت دل کا نور ہے ۔
بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ہماری قوم کا یہ ایک بڑا المیہ ہے نہ تو تعلیم پر توجہ ہے اور نہ ہی تربیت پر۔ پانی سر سے گزر رہا ہے پھر بھی نہ تو تعلیم پر توجہ ہے اور نہ ہی تربیت پر ۔ وطن عزیز بھارت میں دیگر قوموں کی بنسبت ہماری قوم کافی پیچھے ہے، تعلیم کا شرح تناسب کافی کم ہے جو باعث تشویس ہے اور تربیت کا تو حال یہ ہے ۔نہ بڑے چھوٹے کا لحاظ ، غرور وتکبر سے لبریز ، مسجدوں سے دوری ، شراب ، سگریٹ ، گٹکھا پان مسالہ، دکھاوا اور ریا کاری ،جنس مخالف کے پیچھے اپنے مستقبل کی بربادی یہ ساری چیزیں ہمارے قوم کے نو نہالوں کی پہچان بن چکی ہیں۔ جبکہ اسلام نے ایک مکمل نظام حیات دیا ہے۔ کیا رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو ہم نے فراموش کر دیا ہے۔ کیا ہمارے اسلاف کی روشن زندگیاں ہمارے لئے شمع اور چراغ نہیں ہیں۔
آج اس چیلنجوں سے بھرے دور میں یہ دینی مدارس یہ دینی ادارے جدو جہد کی ایک اعلیٰ مثال پیش کر رہے ہیں ، ہر طرف سے یلغار ہی یلغار ہے لیکن آج بھی یہ ادارے تعلیم و تربیت کا گہوارہ بنے ہوئے ہیں۔ مختلف بلاد و امصار میں قائم یہ ادارے جہاں دینی و دنیاوی تعلیم کے منبع و مرکز ہیں وہیں پر فرزندان توحید کے دلوں میں رشد و ہدایت کے چراغ بھی روشن کر رہے ہیں ۔ یہ ادارے اپنے فرزندوں کو دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں بہترین تربیت بھی عطا کررہے ہیں۔ یہ ادارے اپنے طلبہ کو جہاں ظاہری تربیت سے سر فراز کر رہے ہیں وہیں پر انہیں روحانی تربیت کی روشنی بھی عطا کر تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں خوب خوب ترقی عطا فرمائے۔ اٰمین
مضمون نگار:عبد الحق علیمی علیگ ۔
استاذ دار العلوم عربیہ عزیزیہ مظہر العلوم نچلول مہراج گنج