Oct 23, 2025 07:41 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
مدارس میں تدریسی بحران

مدارس میں تدریسی بحران

25 Jul 2025
1 min read

مدارس میں تدریسی بحران 

از انیس الرحمن حنفی رضوی

 بہرائچ شریف یوپی الھند 

استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول سوار ضلع رامپور یوپی

 یقینا علمی ادارے قوم کی فکری بنیاد ہوتے ہیں اور اس کے روشن مستقبل کی ضمانت۔ دینی مدارس بطور خاص اس حیثیت کے حامل ہیں کہ وہ نہ صرف علومِ دینیہ کی حفاظت کا ذریعہ ہیں بلکہ نسلِ نو کی تربیت اور امت کی فکری رہنمائی کے مراکز بھی۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج دینی مدارس ایک شدید اور خاموش بحران کا شکار ہیں، جو بظاہر تنخواہوں یا نظم و نسق کا مسئلہ دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے اثرات کہیں زیادہ گہرے اور دور رس ہیں۔ تجربہ کار اساتذہ کا فقدان آنے والے برسوں میں ایسے ماہر اساتذہ کا ملنا انتہائی دشوار ہو جائے گا جو علومِ دینیہ پر عبور رکھتے ہوں، تحقیق کے ذوق سے آشنا ہوں اور تدریس کو محض ذریعہ معاش نہیں بلکہ خدمتِ دین سمجھ کر انجام دیتے ہوں۔ بزرگ علماء، جو نصف صدی کی محنت اور سعی سے کندن بنے تھے، ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں، اور ان کے بعد کوئی مضبوط نسل تیار ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اس بحران کی بڑی وجہ تقرری کے نظام میں بے قاعدگی ہے۔ اب تدریسی مناصب قابلیت، مطالعے یا تحقیق کے بجائے اقربا پروری، گروہی وابستگی، یا شخصی تعلقات کی بنیاد پر دیے جا رہے ہیں۔ جو افراد محض کم تنخواہ پر صبر کرتے ہوں، ہر حکم پر سر تسلیم خم کر دیں، وہی قابل قبول سمجھے جاتے ہیں۔ خوددار اور باصلاحیت افراد کو یا تو دیوار سے لگا دیا جاتا ہے یا وہ خود ہی کنارہ کش ہو کر کسی اور راہ کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ اساتذہ جو ذہنوں کی آبیاری کرتے ہیں، خود معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ نہ معقول مشاہرہ، نہ عزت و وقار۔ جس طرح ملک کے بہترین دماغ سائنس، طب اور ٹیکنالوجی میں خدمت کرنے کی بجائے بیرونِ ملک ہجرت کر جاتے ہیں، اسی طرح مدارس کے ذہین اور علم دوست اساتذہ یا تو خود مدرسہ کھول کر انتظامی امور میں الجھ جاتے ہیں یا پھر تدریس کو خیرباد کہہ کر کاروبار کی راہ اپناتے ہیں۔ علم کا چراغ کاروبار کی ہوا میں لرزاں اب یہ معمول بنتا جا رہا ہے کہ کئی مدرسین تدریس کے ساتھ ساتھ تجارت میں مشغول ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مطالعے کے اوقات کم ہو جاتے ہیں، ذہن ہمہ وقت تقسیم شدہ رہتا ہے، اور اسباق محض وقت گزاری بن کر رہ جاتے ہیں۔ تحقیق کا ذوق سرد پڑ جاتا ہے، مطالعے کا شوق دم توڑ دیتا ہے، اور کتب خانہ، جو کبھی محبوب خلوت گاہ ہوتا تھا، اب صرف تقریری مواقع پر یاد آتا ہے۔ موبائل، کتب کا قاتل؟ مزید برآں، نئی نسل کا رجحان کتب بینی کی بجائے موبائل بینی کی طرف ہو گیا ہے۔ کتابیں اب صرف پی ڈی ایف فائلز کی صورت میں موبائل کی سکرین پر رہ گئی ہیں، جس سے وہ یکسوئی، وہ حضوری، اور وہ برکت جاتی رہی جو کتاب اٹھا کر خاموشی سے مطالعہ کرنے میں ملتی تھی۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ مدارس کے منتظمین یعنی مہتممین حضرات کی ترجیحات بھی قابلِ غور ہیں۔ جو مہتمم خود اپنے آپ کو برتر، بالا تر، اور غیر جواب دہ سمجھے گا، وہ کبھی اپنے ادارے میں عدل و مساوات کو پروان نہیں چڑھا سکتا۔ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں عام آدمی کے برابر وظیفہ لینے کا اعلان کر سکتے ہیں تو آج کے مہتمم کے لیے ایسا رویہ اختیار کرنا کیوں مشکل ہے؟ راہ عمل اس صورت حال سے نکلنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے: 1. تقرر کا منصفانہ نظام: تقرریاں صرف قابلیت، دیانت، مطالعے اور تدریسی تجربے کی بنیاد پر ہونی چاہئیں، نہ کہ تعلقات اور خوشامد پر۔ 2. معقول تنخواہ اور عزت: مدرسین کو وہ مقام دیا جائے جو ان کی علمی محنت کا تقاضا ہے۔ معاشی آسودگی کے بغیر ذہنی یکسوئی ممکن نہیں۔ 3. تربیت و تزکیہ: نئے فضلاء کے لیے ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جو ان کی علمی و روحانی تربیت کر سکے تاکہ وہ تدریس کو ایک مقدس فریضہ سمجھیں 4. مہتمم کی خود احتسابی: مہتمم حضرات خود کو مدرسین کے برابر سمجھیں، اور اپنی تنخواہ کا تعین بھی اسی عدل کے ساتھ کریں جس کا درس وہ دوسروں کو دیتے ہیں۔ 5. اگر ان بنیادی مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب درسِ حدیث کے مراکز میں بھی کتابوں کی جگہ صرف خلاصے، حواشی اور شروحات پڑھائی جائیں گی، اور وہ استاد جو کبھی علم کا دریا ہوا کرتا تھا، محض روایت دہندہ بن کر رہ جائے گا۔ اب وقت ہے کہ مدارس کا نظام صرف عمارتوں یا نصاب کی حد تک نہیں، بلکہ وژن، نیت اور طرزِ فکر کی سطح پر بھی ازسرِنو تشکیل دیا جائے۔ اگر آج قدم نہ اٹھایا گیا، تو کل پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383