حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی( بحیثیت مدرس و معلم )
از قلم : محمد عباس الازہری
خادم التدریس دار العلوم اہل سنت فیض النبی
کپتان گنج بستی یوپی
الحمد للہ الذی رفع قدر العلماء، وشرّفھم بمیراث الأنبیاء، وجعلھم سراجاً منیراً یھتدی بھم الناس فی ظلمات الفتن، والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمدٍ سید المعلمین والمربین، وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین۔
دینِ اسلام کی اصل بنیاد تعلیم و تربیت پر قائم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «إنما بُعثت معلماً» یعنی ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اس فرمانِ نبوی سے واضح ہوتا ہے کہ تعلیم و تدریس محض ایک پیشہ نہیں بلکہ منصبِ نبوت کا فیضان ہے۔ جو اس منصب کو خلوص و للّٰہیت کے ساتھ نبھاتا ہے، وہ دراصل دین کی بقا اور ملت کی فکری و روحانی تربیت کا ضامن ہوتا ہے۔ برصغیر کی علمی و روحانی فضا میں انہی برگزیدہ نفوس میں ایک نمایاں اور درخشاں نام حضرت علامہ الحاج محمد سید احمد انجم عثمانی علیہ الرحمہ کا ہے۔ آپ کی پوری حیاتِ مبارکہ درس و تدریس، تربیت و رہنمائی اور علم و کردار کے حسین امتزاج کی روشن مثال تھی۔
حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی علیہ الرحمہ کو اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا۔ آپ نہ صرف ایک مایہ ناز مفسرِ قرآن تھے بلکہ بحیثیت مدرس آپ کا اندازِ تدریس اپنی مثال آپ تھا۔ آپ کا درس محض کتاب خوانی نہ تھا بلکہ قلوب و اذہان کی تربیت اور ایمان و یقین کی آبیاری کا ذریعہ تھا۔ آپ کے بیان میں سادگی کے ساتھ گہرائی، اور قوتِ استدلال کے ساتھ دل نشینی پائی جاتی تھی۔ مشکل سے مشکل مضامین آپ کی زبانِ مبارک سے ایسا واضح اور سہل ہو جاتے کہ طلبہ نہ صرف سمجھ لیتے بلکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے معمور ہو جاتے۔ آپ کی مجالسِ درس فی الحقیقت نور و برکت کا سرچشمہ تھیں، جہاں بیٹھنے والا محض علم نہیں بلکہ دل کا سکون اور روح کا اطمینان بھی حاصل کرتا۔
بحیثیت معلم آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں وصف یہ تھا کہ آپ طلبہ کو صرف عالم بنانے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے دلوں میں تقویٰ، اخلاص اور خدمتِ دین کا جذبہ پروان چڑھاتے تھے۔ آپ کے نزدیک درس و تدریس کا اصل مقصد شاگردوں کی شخصیت سازی اور انہیں دین کا سچا ترجمان بنانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے تلامذہ آج دنیا کے مختلف گوشوں میں دینِ متین کی خدمت کر رہے ہیں اور اپنے استاذِ مکرم کے فیوض و برکات کو عام کر رہے ہیں۔ آپ کی تربیت کا اثر یہ تھا کہ آپ کے شاگرد علم کے ساتھ ساتھ عمل و کردار کے میدان میں بھی ممتاز دکھائی
دیتے ہیں۔حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی علیہ الرحمہ کی تدریسی خدمات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ایک معلم کی اصل کامیابی صرف نصاب کی تکمیل نہیں بلکہ شاگردوں کے دل و دماغ کو ایسی روشنی دینا ہے جو زندگی بھر ان کی رہنمائی کرے۔ آپ کا ہر درس ایک عملی پیغام ہوتا، جس سے طلبہ کو محض علمی ذخیرہ ہی نہیں ملتا بلکہ زندگی کے نشیب و فراز میں صبر، استقامت اور بصیرت کے ساتھ چلنے کا حوصلہ بھی نصیب ہوتا۔ آپ کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ خلوص و للّٰہیت کی خوشبو سے معمور ہوتا، اور یہی تاثیر آپ کے درس کو غیر معمولی وقعت عطا کرتی تھی۔
آپ کی ذات میں علم کا وقار اور اخلاق کی شیرینی دونوں جمع تھے۔ حلم و بردباری، انکساری و متانت، روحانی جاذبیت اور مربیانہ شفقت آپ کے اوصاف تھے۔ آپ کے قریب بیٹھنے والا نہ صرف استاد کی شفقت کو محسوس کرتا بلکہ ایک مربی کی رہنمائی اور ایک ولی کی دعا کو بھی اپنے دل میں سمو لیتا۔ یہ خصوصیات آپ کو محض ایک معلم نہیں بلکہ ملت کا مربی اور امت کا رہبر بناتی ہیں۔
علم و معرفت کے اس گلستان میں حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی ایک ایسا شجرِ سایہ دار تھے جس کے زیرِ سایہ بے شمار تشنگانِ علم نے اطمینان پایا۔ آپ کا فیضانِ علم اور آپ کی روحانی تربیت طلبہ کے قلوب پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گئی جو رہتی دنیا تک چراغ کی مانند روشنی
دیتے رہیں گے۔ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی علیہ الرحمہ کے علمی و روحانی فیوض کو تا قیامت جاری و ساری رکھے، ان کے شاگردوں اور متوسلین کو ان کے علوم و انوار کا سچا وارث بنائے، ملتِ اسلامیہ کو ایسے ہی اخلاص و بصیرت رکھنے والے معلمین سے نوازے، اور ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللھم انفعنا ببرکاتھم، وامنحنا من علومھم، وألحقنا بالصالحین تحت لواء سید المرسلین ﷺ۔ آمین۔ اسی موقع پر ہم حضرت کے برگزیدہ صاحبزادگانِ گرامی، بالخصوص پیرِ طریقت حضرت علامہ شمیم بھیا صاحب قبلہ اور حافظِ قرآن حضرت علامہ آفتاب عثمانی سمیت جملہ اہلِ خاندان کو ہدیۂ تبریک و مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عظیم والدِ ماجد کی علمی و روحانی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے نہایت خوبصورت سالنامہ "انجم العلماء نمبر" کی صورت میں علمی و ادبی خزینہ امت کے سامنے پیش کیا۔ یہ کاوش یقیناً آپ کے حسنِ عقیدت، علمی ذوق اور دینی محبت کا مظہر ہے اور ایک صدقۂ جاریہ ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے روشنی اور رہنمائی عطا کرتا رہے گا۔ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم کوشش کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اسے اہلِ ایمان کے لیے باعثِ ہدایت و خیر بنائے، اور حضرت کے علمی و روحانی فیضان کو ان کے صاحبزادگان اور شاگردوں کے ذریعے تا قیامت جاری و ساری رکھے آمین