حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ اور تصوف
(قاری)خلاق احمد نظامی پرنسپل مدرسہ انوار العلوم گولا بازار گورکھپور موبائل نمبر-9935410277
خطیب البراہین، صوفی باصفا، عالم باعمل، پیر طریقت، رہبر شریعت حضرت علامہ الحاج صوفی نظام الدین مصباحی محدث بستوی رحمۃُ اللہ علیہ کی ذات ایک ایسا روشن ستارہ تھی جس نے علم و معرفت کے افق کو اپنے نور سے منور کیا اور تصوف کے وسیع سمندر میں رہنمائی کا چراغ روشن کیا۔ آپ کی شخصیت عقل و عشق، برہان و عرفان، شریعت و طریقت کے حسین امتزاج کا مظہر تھی۔ آپ کے نزدیک علم صرف کتابوں کا خزانہ نہیں بلکہ دل کی روشنی کا دروازہ ہے، اور تصوف صرف خانقاہی ذکر یا محض روحانی رسومات کا نام نہیں بلکہ دل کی حرارت اور روح کی پاکیزگی کا بلند معیار ہے۔
آپ کی خطابت ایک ایسا جادو تھی جس میں لفظ نہیں بلکہ کیفیت اثر کرتی تھی۔ جب آپ منبر پر تشریف لاتے تو کان تو سنتے ہی تھے، لیکن دل بھی خاموشی کے ساتھ سنتا اور روح اندر سے لرزتی محسوس ہوتی۔ آپ کے منبر سے نکلا ہر لفظ نہ صرف سننے والے کے فہم کو روشن کرتا بلکہ دل کے سنکڑوں گوشوں میں روشنی کی کرن ڈال دیتا، جیسے صحرا کی خشک زمین پر بارش کے موتی۔ آپ کے خطبات میں عقل کی دلیل اور دل کی کشش ایک دوسرے میں رچ بس جاتی تھی، اور سننے والا نہ صرف سمجھتا بلکہ محسوس بھی حضرت خطیب البراہین رحمۃُ اللہ علیہ کے نزدیک تصوف اور شریعت الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ہم نشین ہیں۔ شریعت جسم کی مانند ہے اور طریقت روح کی مانند۔ جسم کے بغیر روح بے جان ہے، اور روح کے بغیر جسم ایک خالی ڈھانچہ۔ اسی فلسفہ نے آپ کے علم و عمل کو ہم کرتا۔ ہر لفظ آپ کے لبوں سے ایک قطرہ
معرفت بن کر نکلتا اور روح کے کنویں میں سکون کے موتی ڈال دیتا۔
آہنگ رکھا اور تصوف کو زندگی کے ہر رنگ میں نافذ کیا۔ آپ فرماتے تھے کہ تصوف کی بنیاد علم ہے، عمل کی دیوار، اخلاص کی چھت اور محبتِ الٰہی کی روشنی۔ یہ چار ستون انسان کی روح کو اللہ کے قرب کی منزل تک لے جاتے ہیں، جیسے مضبوط ستون ایک محل کی عظمت کو قائم رکھتے ہیں۔
آپ کی زندگی میں خدمتِ خلق عبادت کے برابر تھی۔ آپ نے اپنی مثال سے یہ ثابت کیا کہ سچا صوفی وہ ہے جو نہ صرف اپنے نفس کو پاکیزہ کرے بلکہ معاشرے میں انصاف، محبت اور ہمدردی کے بیج بوئے۔ آپ کے نزدیک غریب کا سہارا بننا، مظلوم کے حق میں آواز بلند کرنا، ظالم کے سامنے حق کہنے کا حوصلہ رکھنا اور اپنی ذات کے بجائے امت کی بھلائی میں جینا، تصوف کا حقیقی رنگ ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو دل کی اندھیروں کو مٹاتی اور انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے۔
حضرت خطیب البراہین کی شخصیت ایک ایسی کشتی تھی جو علم کے سمندر سے گزرتی اور عرفان کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوتی۔ آپ کی باتوں میں نہ صرف دلیل کی طاقت تھی بلکہ دل کو چھو لینے والی محبت بھی۔ آپ کے نزدیک برہان کے بغیر تصوف اندھیرا ہے اور عشق کے بغیر علم بے جان۔ اسی لیے آپ کی تعلیمات نے علم و محبت، عقل و عشق، برہان و عرفان کے امتزاج کو ہمہ گیر کر دیا۔ آپ کی روشنی ایک مشعل تھی جو اندھیروں میں رہنمائی دیتی، اور روحانی و فکری سفر کے لیے راستہ دکھاتی۔
آپ کی زندگی ایک زندہ مثال تھی کہ کس طرح انسان علم کے سمندر میں غوطہ لگا کر دل کی کشادگی اور روح کی پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے۔ آپ نے ہمیں یہ سکھایا کہ تصوف صرف ذکر و عبادت تک محدود نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں میں موجود محبتِ الٰہی کی آگ کو بیدار کرنا اور ہر عمل میں اخلاص و انسانیت کا عکس پیدا کرنا ہے۔ آپ کے نزدیک سچا صوفی وہ ہے جو علم میں دلیل رکھے، عمل میں ایمان اور دل میں اللہ کی محبت کی حرارت محسوس کرے۔
آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو علم و عمل کا ہم آہنگ ہونا تھا۔ آپ کا علم صرف کتابوں یا درسگاہوں تک محدود نہیں تھا بلکہ زندگی کے ہر گوشے میں عملی مظاہر میں بھی جھلکتا تھا۔ آپ کی باتوں میں دلیل کے موتی، اعمال میں اخلاص کے موتی اور دل میں محبت کے موتی جھلملاتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ کے شاگرد اور ماننے والے صرف سننے والے نہیں بلکہ دیکھنے والے، محسوس کرنے والے اور دل سے پیروکار تھے۔
آپ کی تعلیمات ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ تصوف اور شریعت ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ شریعت صرف زبانی احکام یا ظاہری قوانین کا
نام نہیں بلکہ انسان کے ہر فعل اور ہر ارادے میں ظاہر ہونا چاہیے۔ طریقت صرف خانقاہ کی چوکھٹ یا مخصوص ذکر کا نام نہیں بلکہ دل کی صفائی، روح کی پاکیزگی اور ہر عمل میں اللہ کی محبت کو جلا دینا ہے۔ اسی لیے حضرت خطیب البراہین نے ہمیشہ شاگردوں کو یہی تعلیم دی کہ علم کی روشنی سے دل کو منور کرو، عمل کی طاقت سے شریعت کی دیوار کھڑی کرو، اخلاص کی چھت سے روح کو محفوظ رکھو اور محبتِ الٰہی کی روشنی سے ہر رشتے اور ہر فعل کو منور کرو۔
آج جب دنیا سطحی رسموں یا خشک فلسفوں میں تصوف کو محدود کرنے لگی ہے، حضرت خطیب البراہین کی روشنی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم اور عشق، برہان اور عرفان کا حسین امتزاج ہی انسان کو مکمل اور خدا کے قریب کر سکتا ہے۔ آپ کی تعلیمات ایک ایسی کشتی کی مانند ہیں جو طوفانی سمندروں میں بھی مستحکم رہتی اور انسان کو منزل کی طرف لے جاتی ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ، ہر قدم، اور ہر عمل ہمارے لیے ایک چراغ ہے جو روحانی اور فکری اندھیروں کو مٹاتا اور دل کی زمین میں ایمان اور معرفت کے بیج بوتا ہے۔
حضرت خطیب البراہین کی شخصیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سچا صوفی وہ ہے جو علم میں دلیل رکھے، عمل میں صداقت اور دل میں اللہ کی محبت کی حرارت محسوس کرے۔ یہی وہ مشعل ہے جو انسان کو نہ صرف اندھیروں سے نکالتی بلکہ روح کو روشنی، دل کو سکون، اور فہم و بصیرت کو وسیع کرتی ہے۔ آپ کی یاد آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے، اور ہر فکری اور روحانی سفر میں رہنمائی کا چراغ ہے۔