Oct 23, 2025 07:38 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
محافظ مسلک امام احمد رضاخان حضرت علامہ مولانا سعید حسن خان

محافظ مسلک امام احمد رضاخان حضرت علامہ مولانا سعید حسن خان

25 Jul 2025
1 min read

محافظ مسلک امام احمد رضاخان حضرت علامہ مولانا سعید حسن خان

از قلم شأن پریہار پروفیسر محمد گوہر صدیقی

سابق ضلع پارشد براہی بلاک پریہار

ضلع سیتامڑھی صوبہ بہار 9470038099

      نہ سڑک نہ بجلی ،مخدوش راستے ،فقط ایک دو بس جو چار پانچ گھنٹوں میں  ، گرتے بچتے بچتے ہچکولے کھاتی ،،، بیلا تھانہ تک

 پہونچتی ،ساءیکل،بیل گاڑی ،ٹاءر گاڑی ، پاؤں پیدل ،جاڑا میں  ٹھٹھور  ٹیٹھور ،کر ،گرمی میں پسینہ سے شرابور ہو کر اور برسات میں بھیگ بھیگ کر دین وملت کی بقا ،ناموس رسالت کی حفاظت ،مسلک اعلیحضرت کی نشرواشاعت ،اور باطل قوتوں کے یلغار کو سیف اہلسنت کی تلوار سے ریزہ ریزہ کر نے والی شخصیت ،چراغ ،مومبتی،اور ٹارچ کے سہارے سیکڑوں نولہانان اسلام کو علم دین کی روشنی سے جگمگا نےاور چمکانے ،ان کے مستقبل کو نکھارنے وسجانے والے استاذ الاساتذہ ،طلیق السان ،فصیح البیان ، خطیب الاسلام حضرت علامہ مولانا محمد سعید حسن خان بستوی مصباحی علیہ رحمہ کی ذات گرامی ہمارے لیے یقینا  باعث صد افتخار تھی_ حضور سعید  ملت ،جو چراغ اسلام بن کر پیدا تو ہوے  مقام بسڈیلہ ضلع بستی ،صوبہ اتر پردیش میں مگر ان کی دینی ملی خدمات تعلیمات کی روشنی سےجگمگایا بہار و ملک نیپال _

       حضرات    حضور سعید ملت کی پیدائش 12فروری 1948ء کو مقام بسذیلہ پوسٹ چای کلاں،ضلع بستی صوبہ اوتر پردیش کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی _آپ کے والد گرامی کا نام خاطر علی اور امی جان کا نام رحم بادی تھا ،ابتدای تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب تدریس الاسلام میں ہوئی ، بسم اللّٰہ خوانی ماسٹر منشی دار صاحب نے کرای، اور شرحِ جامی تک کی تعلیم مولانا عبد الحفیظ اعظمی ،مولانا معین الدین خان بستوی،مولانا اعجاز أحمد خان اعظمی ،مولانا ظہیر حسن اعظمی اور ابو للیث اعظمی سے حاصل کی ـ پھر اس کے بعد سن1963ء دارالعلوم حمیدیہ بھیونڈی چلے گئے جہاں چند کتابیں حضرت مولانا عبد المصطفیٰ اعظمی اور قاری محب الدین گیاوی سےپڑھـی ـسن 1964ء میں پہلی بار دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور پہونچے ،پھر کچھ دنوں کے لئے مدرسہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ بھی گیے ،اورمولانا اعجاز احمد مبارک پوری اور مولانا عبد العزیز 

مبارک پوری سے ہدیہ سعیدیہ ،ہدایہ اولین،کا درس حاصل کیا _ پھر دوبارہ سن1965ء میں دوبارہ دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور (اب الجامعتہ الاشرفیہ) تشریف لے گئے جہاں حضور حافظ ملت،حضرت مولانا حافظ عبد الروف ،حضرت مولانا مظفر حسین ادیبی ،حضرت مولانا عبد المنان

اعظمی مبارک پوری،حضرت مولانا سید حامد اشرف کچھو چھوی ،حضرت حافظ و قاری عبد الحکیم عزیزی علیہ رحمہ ورضوان جیسے استاد سے درس نظامی کی کتابوں کا مطالعہ فرمایا _ سن  1967ء میں اپ کے سر پر علماء کرام و مشائخ اعظام کے ہاتھوں دستار فضیلت کا تاج باندھا گیا _ فراغت کے بعد سن1668 سے 31مارج  1972ء تک آپ اپنے صوبہ کے اضلاع راے بریلی ،گورکھپور،اور پستی  میں تدریسی خدمات انجام دیں-

  واضح ہو کہ مورخہ 23 ، 24 ،25  ربیع الاول 1394 ھجری ،مطابق 18، 19 ،20 مارچ  1974میں سیتا مڑھی ضلع کے مرغیہ چک میں ایک عظیم الشان،تاریخ ساز کانفرنس ہوئی تھی جس کانفرنس میں حضور مفتی اعظم ہند ،حضورحافظ ملت ،حضور سید العلماء وغیرہ جیسی اہم شخصیات تشریف لائے تھے، اور اس جلسہ میں مدرسہ اسلامیہ رضا العلوم کنہواں تھانہ بیلا بلاک پریہار کے سکریٹری مخیر قوم وملت محترم جناب محمد نور الہدیٰ قادری۔ مولانا محمد ادریس مقام محمدا ،بلاک و تھانہ باج پٹی  حافظ محمد ایوب صاحبانِ وغیرہ تشریف لے گئے تھے  اس درمیان آپ لوگوں نے حضور حافظ ملت سےکنہواں کے  حالات کی جانکاری دیتے ہوئیے مدرسہ رضا العلوم لئے ایک باصلاحیت عالم دینے کی درخواست  کی تو آپ نے فرمایا  انشاءاللہ ضرور  ،،،،، پھر حافظ ملت نے اپنی روحانی اولاد کی شکل میں حضرت علامہ مولانا سعید حسن خان بستوی مصباحی کو  مدرسہ رضا العلوم کنہواں ،ضلع سیتامڑھی صوبہ بہار کے لیے بھیجا ،،،،اور آپ 12 اپریل 1975ء کو

      پوری شأن وشوکت ،کے ساتھ مدرسہ رضا العلوم کنہواں تشریف لائے _آپ  کے آنےسے پہلے وہاں مفتی قاری ظہیر حسن ادری ،ضلع موء صوبہ اتر پردیش صدر المدرسین تھے _ ( یہاں پر ایک بات ذہن نشین رہے کہ جہاں مدرسہ رضا العلوم کنہواں قائم ہےاس کی اصل  بنیاد بشکل مکتب    11 محرم 1320 ھجری ،مطابق  20 , اپریل 1902ء بروز اتوار کو حضور پیر طریقت ،سید،شاہ،علامہ خلیل الرحمٰن نوا کھال مغربی بنگال نے  ڈالی تھی، اس کے بعد مظفر پور کے استادعبد العزیز بسنتی نامی مولوی بظاہر میلاد ،قیام ،فاتحہ کے کے امور کو انجام دیتا تھا، مگر اس آڑ میں وہ دیوبندی مسلک کے مشن میں گامزن تھا ،رفتہ رفتہ کنہواں کے ہوش مند حضرات مولوی عبد العزیز بسنتی مظفر پوری کی اس چال کو سمجھ گئے -        حالانکہ اس مولوی کی نشاندہی ولی کامل حضرت شاہ نعمت اللہ عرف خاکی بابا پنڈول بزرگ نے اس وقت دے دی تھی کہ جب کنہواں کے لگ بھگ 50 سے زیادہ لکڑیاں بیچنے والے حضرات حضرت خاکی بابا کی بارگاہ میں پہونچے تھے تو حضرت خاکی بابا نے فرمایا ،،، رے کنہواں والا حرم رونی کا ، تورے گاؤں میں ایک گدھا شیرکی کھال میں کھیت کھا ہو ،،،،،بھگا بھگا۔   تو اس کے بعد گاؤں میں ایک میٹنگ ہوئی پھر کل ہو کر کنہواں کے رءیس وسرغنہ محترم جناب قلب حسیں صاحب اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ گھوڑے 

پر سوار ہو کر پوکھریرا شریف گیے اور سارے حالات سے اس وقت کے جید عالم دین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عظیم الدین فاضلِ بہاری کو روشناس کرایا اور کنہواں چلنے کی درخواست کی ، تب تین روز بعد حضور فاضلِ بہاری گھوڑے پر سوار ہو کر کنہواں تشریف لایے اور چند دنوں کے بعد حضور فاضلِ بہاری نے ہی  اس مکتب کا نام سرکار اعلیحضرت کے اسم گرامی احمد رضا سے منسوب کرتے ہوئے   مدرسہ رضا العلوم کنہواں رکھا اور اس کی آبیاری کی ) 

ا لمختصر  حضور فاضلِ بہاری کے اس مدرسہ کو اپنا خون جگر پلا کر حضور سعید ملت حضرت علامہ مولانا سعید حسن خان بستوی مصباحی نے پروان چڑھایا جس کی جدید تعمیر  1412 ھجری ،مطابق  سن 1990 ء میں  حضور سعید ملت نے کرای ،اور تعلیم کو تعلیم بنا کر جہاں طالبان علوم نبویہ کی علمی پیاس بجھای وہیں قوم وملت کے بہت سے خدمات انجام دیں _یہی وجہ ہے کہ آج  50  فی صد سے زیادہ علماء کرام و حفاظ کرام اسی مدرسہ رضا العلوم ( اب الجامعتہ اسلامیہ رضا ء العلوم کنہواں کے تعلیم یافتہ و فیض یافتہ ہیں _

  حضور سعید ملت    سن 1975 ء سے سن

 2011 ء تک لگاتار 36 سالوں تک الجامعتہ اسلامیہ رضا العلوم کنہواں کی تعلیم وتدریس ،تعمیر و تشکیل ،تبلیغ، و خدمات دین متین کے ساتھ قومی ملی دینی،اتحاد کا پیغام دیتے رہے ،جامعہ کی فلک بوس عمارت ،معین المساجد،آج ان کی عظیم یادگار ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا_

       مدرسہ رضا العلوم کنہواں جو حضور سعید ملت کے آنے کے بعد اب الجامعتہ اسلامیہ رضا العلوم کی حیثیت لے چکا تھا ،  اچانک ماہ اگست 2011 ء میں ایک خاموش انقلاب آیا جس میں بعض صنادید اجہل کی بے جا مداخلت ،چند دشوار کن حالات ،و اندرونی اختلافات کی بنا پر حضور سعید ملت کو واپس اپنی پستی(گھر) جانے پر مجبور ہونا پڑا ،،،،ا

          اللّٰہ اللہ،،، وہ کیسا دن،وہ کیسا منظر رہا ہوگا ، قلم لکھنے سے قاصر ہے _ یقینا وہ 36/35  سالہ مناظر ،نشیب وفراز ،قومی ،علمی،ساماجک،دینی خدمات ، اور جو بچہ آپ کے سامنے پیدا ہوا ہو ،ان کا نکاح، پھر ان کی اولادوں بیٹی ۔۔ بیٹے،پوتی، پوتے ،ناتی نواسی کو پروان چڑھتے دیکھنا، آہ ،،،،،کچھ یادیں کچھ آہیں یہ سارے کشمکش کے حالات یقینا دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو گا ، یہ درد بھری داستان  واقعی جسے صرف احساس کیا جاسکتا ہے بیان نہیں -, گزرے

ہوئے واقعات و لمحات کے کشمکش میں ابھی رخت سفر باندھنا ہی جاہ رہے تھے کہ اسی درمیان  10 ربیع الاول 2011 ء کو دارالعوام رضایے مصطفے بیلا مچپکونی کے چند معززین جس میں محترم  عزت ماب ضلع پارشد 24 صاغر شاہ،مولانا مفتی محمّد انور حسین نظامی مصباحی ،مداح رسول رضاء المصطفی عاشق حبیبی،محمد انوار الحق  وغیرہ صاحبانِ حضرت کے پاس کنہواں پہونچے اور حضور سے دارالعلوم رضایے مصطفی بیلا مچپکونی کی سرپرستی قبول کرنے کی عاجزی وانکساری کر نے لگے _ اتنا سننے کے بعد حضور سعید ملت  کی آنکھوں سے آنسوں کے چند قطرات ٹپک گےء ،موجودہ حضرات نے حضرت کے ہاتھ کو چومتے ہوے کہا ، حضور

آپ کو کسی بھی قِسم کی کبھی کؤی دقت نہ ہو ہوگی ،حضور کا حکم ہم سبوں کی آنکھوں پر رہیگا ، ہم لوگوں کی غرضی قبول فرمائیں ،کچھ دیر کی خموشی کے بعد حضرت نے کہا انشاءاللہ ضرور پھر حضور  بعد 12 ربیع الاول  2011 ء کو دارالعلوم رضاے مصطفی بیلا مچپکونی کی سر زمین پر تشریف لائے جہاں اراکین مدرسہ کے ساتھ ساتھ باشندگان بیلا مچپکونی نے نعرہ تکبیر ورسالت کے ساتھ آپ کا پر زور استقبال کیا _ آپ یہاں تقریباً 11 سال تک اپنی پوری جانفشانی کے ساتھ دین حنیف کی خدمات انجام دیں _آپ 20 ذی الحجہ1444ہجری مطابق 09 جولائی 2023ءچند مریضوں کے دیکھنے کے بعد ،بعد فجر تقریباًً 08 بجے اس دنیاء فانی سے بقا کی طرف تشریف لے گئے _ جنازہ کی نماز شہزادہ حضور شیر نیپال حضرت علامہ مولانا محمد ضیاء المصطفیٰ برکاتی ازہری خانقاہ برکات لہنہ شریف نے پڑھائی ،اور  پھر۔   محافظ مسلک أمام احمد رضا خان ،حضرت علامہ مولانا سعید حسن خان کو دارالعوام رضاے مصطفی بیلا مچپکونی کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا _ جنازہ کی نماز میں لگ بھگ 2/3 لاکھ کے قریب عقیدت مندان حضور سعید ملت موجود تھے ، دارالعلوم کے عزت ماب سکریٹری حضرت علامہ مولانا عبد القادر مصباحی ، راقم الحروف جیسے سیکڑوں لوگ پیش پیش تھے -  حضور سعید ملت سے راقم الحروف کے بڑے گہرے روابط تھے ،اکثر فرماتے گوہر میاں مدرسہ میں پڑھے نہیں مگر گڑھے گیے ہیں،قدرت نے حضور کے دست و زبان میں شفا رکھی تھی ،ہومیوپیتھ پر بڑی اچھی پکڑ تھی -  دعا اور دوا کے واسطے اکثر لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی بلا شبہ تھے محافظ مسلک أمام احمد رضاخان ، حضرت علامہ مولانا  سعید حسن خان - 

پروردگار انہیں غریق رحمت فرمائے اؤر لواحقین کو صبر جمیل 

01 جولائی 2025

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383