Oct 23, 2025 07:38 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
قوموں کے حالات فقط نعروں سے نہیں بدلیں گے :- پروفیسر گوہر صدیقی

قوموں کے حالات فقط نعروں سے نہیں بدلیں گے :- پروفیسر گوہر صدیقی

20 Jun 2025
1 min read

قوموں کے حالات فقط نعروں سے نہیں بدلیں گے :- مفتی محمد رضا قادری مصباحی 

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، از قلم ، شان پریہار ،پروفیسر گوہر صدیقی 

،سابق ضلع پارشد براہی پریہار ضلع سیتا مڑھی بہار 9470038099 --

- قوموں کے حالات فقط شاعرانہ تخیلات ،جذباتی خطابات ،اور چوشیلےنعروں سے نہیں بدلتے ،بلکہ ان کے حالات کو بدلنے کے لیے سنجیدہ ،فکری اور شعوری تحریک کی ضرورت پڑتی ہے جس سے قوم کی زندگی میں انقلاب برپا ہو تاہے،جب قوموں اورحکمرانوں کی ترجیحات بدل جائیں اورعلمی مراکز کی جگہ عیش وعشرت کے محلات تعمیر ہونے لگ جائیں، جب لوگ داخلی اختلافات اور دنیاکی محبت ، میں مشغول ہو کر فرائض منصبی سےغافل ہو جائیں ،اور اپنے کردار کی پاکیزگی ،اور مومنانہ صفات سے دور ہو جائیں تو ان لوگوں کو زوال سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ مزکورہ خیالات کااظہار الجامعتہ الاشرفیہ مبارک پور کے استاذ ،نباض قوم و ملت، مؤرخ نیپال ، مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی محمّد رضا قادری نقشبندی مصباحی ، خلیفہ حضور شیخ العالم و سربراہ اعلی علماء کونسل نیپال نے ،26 ربیع الآخر 1445 ھ کو جامعہ اشرفیہ کے وسیع وعریض میدان میں منعقد جشن یوم حضور مفتی اعظم ہند کے موقع پر فرمایا ،انہوں نے فرزندان اسلام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کبھی آپ نے سوچا کہ آخر امت مسلمہ کے زوال کی وجہ کیا ہے ،اس کے اسباب کیا ہیں ؟ جس قوم نے تقریباًً 1000 سال تک اپنی حکومت ،شان و شوکت کا سکہ دنیا پر قائم رکھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے کیوں کر بکھر گئی اور ان کی سلطنت تباہ کیوں ہو گئی ؟ بغداد کی سر زمین پر ساڑھے پانچ سو سالہ عباسی سلطنت کا خاتمہ کیسے ہوا ؟چھ سو سال تک دنیا کے تین برے اعظموں پر خلافت عثمانیہ کا پرچم لہرانے والی حکومت انگریزوں کے ہاتھوں کیسے تارتار ہوئی؟ ,آج ہمیں ماضی کی تلخ حقیقت سے سبق لیے کر مستقبل کو تابناک کرنے کی ضرورت ہے مفتی موصوف نے کہاکہ قوموں کے حالات فقط شاعرانہ تخیلات ،جزباتی خطابات اور چوشیلے نعروں سے نہیں بدلتے ،بلکہ ان کے حالات بدلنے کے لیے سنجیدہ ،فکری و شعوری اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے قوموں اور حکمرانوں کی ترجیحات بدلنے سے قوم یا تو پستی کے طرف جاتی ہے یا بلندی کی طرف ،جب ہم مسلمانوں کے دور عروج کی تاریخ پڑھتے ہیں تو مسلمانوں کے اوصاف کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے اندر اخلاق وکردار کی پاکیزگی ،مومنانہ صفات،ایمانی وروحانی قوت کس بلند درجہ میں موجود تھی۔ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں توحید کی طاقت سے لبریز ہو کر آگے بڑھتے چلے گئے ، انہوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال پر تاریخی گفتگو کر تے ہوے فرمایا کہ ملک ہندستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ایک اللہ کے نظام کے اگے اپنے نفس کا نظام چلاتے رہےجس کی وجہ سے ڈھائی سو سالہ خورشید اقبال غروب ہوگیا انہوں نے کہاکہ قوموں کی ترجیحات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جب 1167 ء میں انگلینڈ کے اندر آکسفورڈ یونیورسٹی Oxford University کی بنیاد رکھی جارہی تھی ،1209ء میں کیمبرج یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جارہی تھی ٹھیک اسی عہد میں دہلی کے اندر 1193ء میں قطب مینار کی تعمیر جاری تھی ،سن 1636 ء میں امریکہ کے اندر ہارڈ ورڈ یونورسٹی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی ٹھیک اسی زمانے میں 1630ء میں آگرہ میں مشہور زمانہ عجائب تاج محل کی بنیاد رکھی جا رہی تھی جس کی تعمیر میں 20 ہزار مزدور 22 سال تک لگے رہے -جب جاپان میں ٹوکیو یونیورسٹی۔ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو اس سے نوے سال پہلے لکھنؤ میں نواب آصف الدولہ کے ذریعے بھول بھلیا کی تعمیر جاری تھی جس کی تعمیر میں چالیس سال لگ گیے یورپ اور امریکہ علمی مراکز کی تعمیر میں مصروف تھے اور مسلمان پرشکوہ محلات کی تعمیر میں لگے ہوے تھے۔ جب ترجیحات بدل جاءیں تو نتایج میں فرق آنا لازمی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ہر جگہ محکوم اور مغلوب ہو گیے اور دوسری قومیں حاکم اور غالب ہو گییں۔اوریہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ غیر مسلم اقوام بڑی بڑی یونیورسٹیاں بنارہی ہیں،ریسرچ اور تحقیق کے ادارے قایم کر رہی ہیں اور مسلمان برج الخلیفہ ،مکہ کلاک ٹاور،نیوم سٹی اور پرشکوہ محلات کی تعمیر میں مصروف ہیں۔یورپ اور امریکہ کی برتری کا راز یہ ہے کہ وہ ساینس اور ٹکنالوجی میں مسلم دنیا سے بہت آگے چلے گیے۔یہ صورت حال آج بھی بدستور قایم ہے مغرب جب انٹرنیٹ،فیس بک ،گوگل،ٹیلی ویژن ٹیلی فون،موبایل اور دیگر مواصلاتی ذرایع ایجاد کر رہے تھے مسلمان،برج الخلیفہ،مکہ کلاک ٹاور،نیوم سٹی، اونچی اونچی خانقاہیں،سربفلک مقبرے،مزارات اور اونچے اونچے گنبد بنانے میں مشغول تھے ،وہ جدید جنگی اسلحے، بیلسٹک میزائل ،ایٹم بم،ھایڈروجن بم،اینٹی ایر کرافٹ اور ٹینک ایجاد کر رہےتھے تو ہمارے حکمران ،اللہ تعالی کی دی ہوءی پٹرول اور تیل جیسی نعمت اور گیس کے ذخایر کو سونے اور چاندی کے محلات ،سونے اور چاندی کے ہواءی جہاز تیار کرنے میں مصروف تھے۔جب حکمرانوں کی ترجیحات اس قدر بدل جاءیں تو اس قوم کو زوال سے کوءی بچا نہیں سکتا۔آج مدرسے خشک اور بے جان ہو چکے ہیں لیکن خانقاہوں اور مزاروں کے پر شکوہ گنبد قلعہ معلی کا نظارہ پیش کر رہے ہیں۔آج اساتذہ کے لیے کوءی نذرانہ نہیں کوءی تحفے تحایف نہیں جنہوں نے آٹھ دس سال محنت کر کے ایک مہذب انسان بنایا،پیر صاحب نے ایک کلمہ کیا بڑھادیا کہ ساری نذریں اور عقیدت مندیاں پیروں کے لیے ریزرو ہو گییں۔ یہ ہے علم کی ناقدری اور بے توقیری۔ علامہ مفتی موصوف نے علم اور ایجادات پر گفتگو کرتےہوئے فرمایا کہ علم کو فروغ دینے کا جزبہ جو مزہب اسلام کے اندر پایا جاتا ہے وہ کسی قوم میں نہیں پایا جاتا ہےکیونکہ اس علم کو میرے سرکار مدینہ راحت قلب وسینہ نے پرموٹ کیا ،704ء میں سمر قند کے اندر کاغذ سازی کی فیکٹری مسلمانوں نے تیار کی ،روی سے کاغذبنانے کا فن بھی مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا ،مسلمانوں نے طبیات میں ،ریاضیات میں،فلکیات میں ،نباتات میں ، بوٹنی اورجو لوجی میں اتنی ترقی کی ہے کہ ایک ایک فن میں دو دو سو کتابیں لکھیں ، اپنے وقت کے ایک بہت بڑے عالم اورطبیب ابو بکر محمد بن ذکریا نے میڈیکل ساینس پر 200 سے زیادہ کتابیں لکھیں ،اسی زمانے میں ایک بہت بڑے اسکالر ابو علی سینا نے طب پر القانون فی الطب14 جلدوں میں، الشفا 18 جلدوں میں اور الحاصل والمحصول 20جلدوں میں لکھی یہ کتابیں یوروپ کی درسگاہوں میں سترھویں ،اٹھارہویں صدی تک پڑھائی جاتی رہیں ،ابو علی ابن الہیثم جن کو علم بصریات کا موجد کہا جاتا ہے انہوں نے کتاب المناظر لکھی ، الجبرا ،میڈیکل ساءنسسزاور فلکیات پر درجنوں کتابیں لکھیں ، مزید حضرت نے فرمایا کہ جب ارسطو ،بقراط،جالینوس،کا فلسفہ دم توڑ چکا تھا تب وہ مسلمان عرب تھے جنہوں نے یونانی علوم کو عربی تراجم کے ذریعےزندہ کیا ،13ویں صدی تک مسلمان عروج وغلبہ کی حالت میں رہے اور پھر اس کے بعد مسلمانوں کے اوپر زوال کا دور شروع ہوا، 656 ھجری /1258ء وہ سن ہے جب تاتاریوں نے دار السلام بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی، تخت وتاراج کیا اور منگلوستان سے نکل کر ترکستان ،قزاکستان،آزر بیجان ،،روس ،پولینڈ اور ھینگری کے ان تمام علاقوں کو تباہ کرتے ہوئے،خوارزم اور دارالسلطنت بغداد پر دستک دی اخیر میں مفتی موصوف نے کہاکہ میرے بچوں یاد رکھو جو قوم اپنی تہذیب وتمدن اور فرائض منصبی سے غافل ہو کر دوسری چیزوں میں مبتلا ہو جاتی اللہ تعالیٰ انہیں امامت کے مقام سے ہٹا کر اقتدا کے مقام پر لا کھڑا کر دیتا ہے ،،، میں علامہ مفتی محمّد رضا صاحب قبلہ مصباحی کو اس تاریخی ،علمی ،نصیحت آمیز گفتگو پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ،واقعی خطاب اس کو کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ یہ خطاب اس لیے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ کسی عام جلسہ میں یا عام سامعین کے درمیان نہیں ہورہا ہے بلکہ اس دانشگاہ میں ہو رہا ہے جو اھل سنت وجماعت کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ جہاں ایک طرف اسٹیج پر آبروے اھل سنت حضور سربراہ اعلی جامعہ اشرفیہ مبارک پور عزیز ملت تشریف فرما ہیں تو دوسری جانب ،عالم اسلام کے عظیم وعبقری فقیہ محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین رضوی دامت برکاتہم العالیہ اس کو رونق بخش رہے ہیں، وسط میں مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ کے شعبہء ادویات کے پروفیسر ،مہمان خصوصی پروفیسر بدرالدجی خان،صدر شعبہء ادویات مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ جلوہ بار ہیں،جامعہ اشرفیہ کے تمام شاہین صفت اساتذہ اور سامنے سامعین میں جامعہ کے وہ ہونہار طلبہ ہیں جن کی آنکھوں میں علم کی چمک اور سینوں میں قرآن وحدیث کا بحر بیکراں موجود ہے۔ جن کے درمیاں بولنے کے لیے علم ،معلومات اور لفظوں کا قبلہ سب سے پہلے درست کرنا ضروری ہو تا ھے۔ امت مسلمہ کے عروج وزوال کے اسباب اور احیاء نو کی تدبیریں ،، کے حوالے سے موصوف کا خطاب عرصہ دراز تک تاریخ کے صفحات میں یاد رکھا جائے گا ۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383