Oct 23, 2025 07:39 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
امام احمدرضا رد بدعات ومنكرات

امام احمدرضا رد بدعات ومنكرات

14 Aug 2025
1 min read

امام احمدرضا رد بدعات ومنكرات

از :نور محمد خالد مصباحی ازہری 

مرکزی خازن علما فاؤنڈیشن نیپال

امام احمد رضا قادری نوراللہ مرقدہ کثیر الجہات جامع العلوم اور جامع الصفات شخصیت تھے وہ اپنے عہد کے عظیم مفسر ۔محدث۔ فقیہ متکلم مورخ مصلح تھے اللہ غارت کرے ان وہابیہ دیابنہ کو  جنہوں نے آپ کو قبر پرستی کا موجد بتایا اور  اپ  پر شرک و بدعت اور فروغِ منکرات کا الزام  لگا کر طعن و تشنیع کیا میں نے بحیثیت طالب علم جب  آپ کی تصنیف کردہ کتب و رسائل کا مطالعہ کیا تو مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ آپ شرک و بدعت کے موجد نہیں بلکہ اسکے قلع قمع کرنے والے  تھے 

سجدۂ تعظیمی کی بدعت: 

آپ نے جس ماحول میں انكھیں کھولی  تو اس وقت آپ کی نگاہوں کے سامنے بر صغیر میں ہزاروں خانقاہیں موجود تھیں انھیں  خانقاہوں میں سے ایک مشہور خانقاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دہلوی علیہ الرحمہ کی خانقاہ تھی جس کے گدی نشین حضرت خواجہ حسن نظامی تھے آپ ایک صاحب طرز ادیب اور انشاء پرداز تھے آپ کی ذات ہندو مسلم اتحاد کا سنگم تھی آپ نے سجدۂ تعظیمی کے جواز کا فتویٰ دیا اور ایک کتاب بنام (مرشد کو سجدۂ تعظیم) تصنیف کی فی زماننا آج بھی کچھ خانقاہوں کے گمراہ گدی نشین سجدۂ تعظیمی کے جواز کے قائل ہیں اور اپنے مریدوں اور معتقدوں سے اپنا سجدۂ تعظیمی  بھی کرواتے ہیں خانقاہ سید سراواں آلہ آباد اسکی روشن مثال ہے چنانچہ خواجہ حسن نظامی اپنی کتاب (مرشد کو سجدۂ تعظیم) کے صفحہ نمبر۲ مطبوعہ دہلی۔1341 ہجری پر لکھتے ہیں (اس رسالہ میں تعظیمی سجدہ کے مباح ہونے کے دلائل قرآن مجید ، احادیث و تفاسیر و احوال و حالات علماء و مشائخ عظام سے جمع کی گئی ہیں اور ان سب پر حوالہ قائم کرکے سجدۂ تعظیم کی اباحت ثابت کی گئی ہے) چنانچہ مزید انہوں نے اپنی کتاب میں مختلف نقطه نظر  سے سجدۂ تعظیمی کی اباحت کا قول کیا ہے جسے اس مختصر مضمون میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے چنانچہ مجدد اعظم امام احمد رضامحدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے سجدۂ تعظیمی کی بدعت و خرافات کو ختم کرنے کے لئے قلمی جہاد کیا اور ( الزبدۃ الزکیه لتحریم سجودالتحیه) نامی کتاب میرٹھ سے استفتاء کئے گئے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا چنانچہ اس بدعت کا رد کرتے ہوئے ، حرمت سجدۂ تعظیم ، کے صفحہ نمبر ۱۴ پر ارشاد فرماتے ہیں ، صحابۂ کرام نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سجدۂ تحیت کی اجازت چاہی اس پر ارشاد ہوا کہ کیا تمہیں کفر کا حکم دیں معلوم ہوا کہ سجدۂ تحیت ایسی قبیح چیز ہے جسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے جب خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے سجدۂ تحیت کا یہ حکم ہے پھر اوروں کا کیا ذکر ؟ وللہ الہادی ، آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ مدینہ شریف پہنچ کرگنبد خضریٰ کے سامنے آپ یہ اشعار گنگنا رہے تھے پیش نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار روکئے سر کو روكئے ہاں یہی تو امتحان ہے مگر جب شریعت کی بات آئی  تو سارے عالم کے مرکز عقیدت گنبد خضریٰ کے مکیں کے مزار پر سجدہ کو منع کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں (رہا مزار پر انوار کا سجدہ وہ تو قطعی حرام ہے تو زائر جاہلوں کے فعل سے دھوکہ نہ کھائے بلکہ علالم با عمل کی پیروی کیجئے بحوالہ حرمت سجدۂ تعظیم مصنفہ امام احمد رضا صفحہ ۵۲ )

آج کل ایک اور بدعت زور و شور پر ہے خاص طور پر بر صغیر ميں .جب كوي کار وبار نا چلا تو ملنگوں کے نام پر فرضی مزار بنانا شروع کر دیا اور یہ بدعت اعلی حضرت کے دور میں بھی تھی آپ نے اس کے خلاف فتاوی رضویہ شریف جلد 4ص: 141میں تحرير فرماتے ہیں ۔فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا معآملہ کرنا ناجائز وبدعت ہے۔خواب کی بات خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہو سکتی ؛

۔غير معرف قبر كي زيارت : جس قبر كا یہ بھی حال معلوم نہ ہو کہ یہ مسلمان کی ہے یا کافر کی اس کی زیارت کرنی فاتحہ دینی ہرگز جائز نہیں کہ قبر مسلمان کی زیارت سنت ہے اور فاتحہ مستحب اور قبر كافر كي زيارت حرام ہے۔اور اسے ایصال ثواب كا قصد كفر ....تو جو امر سنت وحرام يا مستحب وكفر میں  متردد ہو وه ضرور ممنوع وحرام ہے۔۔بحوالہ احكام شريعت حصه دوم  ص:234 امام احمد رضا طواف قبر كي بدعت: بلا شبہ غيركعبه معظمه كاطواف تعظيمى نا جائز ہے اور غير خدا كو سجده هماري شريعت مين حرام ہے۔اور بوسہ قبرمیں علماء کو اختلاف ہے اور احوط منع ہے۔خصوصا مزارات طیبہ اولیاء کرام کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی ہے، كم از كم چار ہاتھ فاصلہ سے کھڑا ہو۔یہی ادب پھر تقبیل کیوں کر متصور ہے۔یہ وہ ہے جس کا فتوی عوام کو دیا جاتا ہےاور تحقیق کا مقام دوسرا ہے۔ ( ب) مزار كا طواف جو  محض بنيت تعظيم كيا جاے۔ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص بخانہ کعبہ ہے۔ بحوالہ۔فتاوی رضویہ جلد 4  ص: 8 عورتوں کے لئے زیارت قبور کی بدعت: عورتوں کو زیارت قبور منع ہے حديث ميں ہے لعن الله زاءرات القبور .الله كي لعنت ہو ان عورتوں پر جو قبروں کی زیارت کو جائیں ۔مجاور مردوں کو ہونا چاہئے ۔عورت مجاور بن کر بیٹھے اور انے جا نے والے سےاختلاط کرے یہ سخت بد ہے عورت کو گوشہ نشینی کا   حكم ہے۔نہ یوں مردوں کے ساتھ اختلاط کا۔جس میں بعض اوقات مردوں کے ساتھ اسے تنہائی بھی ہوگی اور یہ حرام ہے۔واللہ تعالی اعلم۔بحواله أحكام شريعت حصه دوم ص:33 مگر سوال اج کے علماء کرام سے ہے کہ آپ لوگ  مسلک اعلي حضرت کا دم بھی بھرتے اور بس بھر بھر کے خواتین کو درگاہون کی زیارت بھی کرواتے ہیں ۔سچ کہا تھا علامہ عبدالستار ہمدانی نے کہ امام احمد رضا ايك مظلوم مفكر كا نام ہے۔انہیں غیرون سے زیادہ  اپنوں نے بد نام کیا مروجہ تعزیہ داری کی بدعت ۔تعزیہ داری کے اغاز کے سلسلے میں یوں سنا گیا ہے کہ سلطان تیمور کے دور میں اس کا اغاز هوا .تعزیہ داری بدعت ۔ حرام و ناجائز ہے ۔ فتاوی رضویہ ۔ایسا عمل جو نواسہ رسول شهزاده گلگون قبا ۔راکب دوش مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مين ادا کی جا رہی ہو۔مگر خلاف شرع امور کی وجہ سے اپنے اس کے بدعت ۔ حرام و ناجائز ہونے کا فتوی دیا ۔فتاوی رضویہ جلد 9ص:186 میں اپ فرماتے ہیں؛ تعزیہ رائجہ مجمع بدعات شنيعہ سئیہ ہے۔اس کا بنانا دیکھنا جائز نہیں اور تعظیم وعقيدت سخت حرام ہے و اشد.بدعات ہے۔اور آگے فرماتے ہیں؛ علم۔ تعزئے ۔مہندی۔انکی منت۔گشت ۔چرھاوا ۔ڈھول ۔تاشے۔مجرے ۔مرثيے۔ماتم۔مصنوعی کربلا کو جانا ۔عورتوں کو تعزیہ دیکھنے کو نکلنا یہ سب باتیں حرام وگناہ و ناجائز ومنع ہے۔فتاوی رضویہ جلد 9 ص: 44  اس طرح فتاوی رضویہ شریف کے صد ہا مقام پر اس بدعت شنیعہ كا.قلع قمع کیا اور امت مسلمہ کو اس سے دور رہنے کی نصیحت کی

مزارات پر چادر چڑھانا امام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا گیا توجواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نا ہوی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے۔ بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اللہ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں بحوالہ احکام شریعت حصہ اول صفحہ نمبر 42

 آپ حضرات سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آج کے دور میں مزارات اولیاء پر ایک نہیں بلکہ ایک ساتھ سیکڑوں چادر  چڑھایے جاتے ہین ۔ اور مجاور ان چادروں کو اتار کر کے مزاروں کے قریب لگی ہوئی چادروں کی دوکان پر اس  کو بیچ لیتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے  کیا یہی مسلک اعلیٰ حضرت ہے عرس میں  رنڈیوں کا ناچ حرام ہے اعلیٰ حضرت کے زمانے میں بلکہ اس سے پہلےبھی  بعض بزرگوں کے اعراس میں جاہل منتظمین رنڈیوں کا ناچ کرواتے اعلیٰ حضرت سے اس کے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ کیسا ہے۔ تو آپ نے فرمایا رنڈیوں کا ناچ بےشک حرام ہے۔ اولیاء کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت  پھیلائی ہے فتاویٰ رضویہ  جلد 29 ص 92۔ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور قرآن خوانی کی  اجرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے۔ قرآن خوانی کے لیے احرت  لینے اور دینے کو نا جائز قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم صفحہ نمبر 318 مطبوعہ  مبارک پور۔)مرد کو چوٹی رکھنا حرام ہے۔ امام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی سے پوچھا گیا۔ کہ مرد کو چوٹی رکھنا جائز ہے یا ناجائز ہے ؟۔ بعض فقیر رکھتے ہیں۔ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ حرام ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ایسے مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت رکھیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کریں (ملفوظات شریف صفحہ 281۔ مطبوعہ  مکتبة المدينة  کراچی) آج بھی ہندوستان میں بعض مداری اور علوی حضرات چوٹیاں رکھتے ہیں  اس طرح کے سیکڑوں بدعتِ  وخرافات سے آپ نے منع فرمایا ۔ بد قسمتی سے آج مزاراتِ اولیاء پر خرافات، منکرات، چرس و بھنگ، ڈھول تماشے، ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں،  بعض لوگ ان خرافات کو امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے۔ امام احمد رضا قدس سره نے ان بدعات وخرافات کا قران وحديث.و اقوال فقہاءو محدثين   سے  رد فرمایا اور چو بدعات حسنه مسلمانوں ميں رائج تھی۔ جسے وہابیہ دیابنہ شرك وبدعت كهتے تھے اپ نے اسے قران وحديث واقوال فقہاء ومحدثين سے مبرہن کیا آور بر صغير کے تمام خانقاہوں کی حفاظت وصيانت کرکے جماعت صوفیاء ومشايخ  پر احسان عظيم فرمايا۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383