حضور خطیب البراہین :روحانیت و علم کا سنگم
عقیدت کیش ـ قاری نثار احمد نظامی
پرنسپل دارالعلوم قطبیہ اہل سنت روشن العلوم امرڈوبھاسنت کبیر نگر
ہر زمانہ اپنے دامن میں کچھ ایسے نفوسِ قدسیہ لیے آتا ہے جو اپنی پاکیزہ حیات اور فیضانِ روحانی سے زمانوں کو منور کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو محض مدرسے یا مسجد کے منبر تک محدود نہیں رہتے بلکہ قلوب و ارواح کے معمار بن کر، اخلاق و کردار کے سنگ تراش بن کر، اور دین و ملت کے محافظ بن کر نمودار ہوتے ہیں۔ انہی نفوسِ قدسیہ میں سے ایک درخشندہ نام ہے — حضرتِ خطیب البراہین، صوفی باصفا، عالمِ ربانی، رہبرِ شریعت و پیرِ طریقت، حضرت علامہ الحاج صوفی نظام الدین مصباحی محدثِ بستوی رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ۔
آپ کی حیاتِ مبارکہ گویا علم و عمل، زہد و تقویٰ، خدمتِ دین اور عشقِ رسول ﷺ کا حسین امتزاج تھی۔ آپ کی ذات اپنے عہد میں ایک مدرسہ، ایک خانقاہ، ایک مکتبِ سلوک، اور ایک انجمنِ اخلاق تھی۔ آپ کے کردار کا ہر پہلو گویا قرآنِ مجید کی عملی تفسیر اور سیرتِ مصطفوی ﷺ کا مظہر تھا۔ آپ کے قدم جہاں پڑتے، زمین پر نور پھیل جاتا، اور زمانہ آپ کی مثال میں روشن ہوتا۔ آپ کا ہر عمل ایک روشنی کی کرن تھا جو اندھیروں میں کھوئے ہوئے دلوں کو راہِ ہدایت دکھاتا۔
حضرتِ خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی علمی عظمت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ کا علم کتابوں کے
اوراق تک محدود نہ تھا، بلکہ دلوں کی دھڑکنوں میں رچا بسا ہوا علم تھا — ایسا علم جو سینوں کو منور کر دے، زبانوں کو صدق کے ساتھ گویا کرے،
اور کردار کو قرآن کا آئینہ بنا دے۔ درس و تدریس میں آپ کی زبان گویا برکت کا دریا تھی۔ شاگرد جب آپ کے سامنے بیٹھتے تو محسوس کرتے کہ جیسے ان پر علم کی بارش ہو رہی ہے، اور روح پر ایک نورانی چادر سی تن گئی ہے۔آپ کا درس محض الفاظ کا بہاؤ نہیں، بلکہ حقائق و معارف کی بارش ہوتا تھا۔ علم کی مجلس میں بیٹھنے والا ہر شخص کسی نہ کسی سطح پر خود کو بدلتا محسوس کرتا — کوئی فکر بدلتا، کوئی دل، کوئی نگاہ، کوئی رہِ حیات۔ آپ کی گفتگو میں وہ اثر تھا جو گہرے کنویں میں ڈالی گئی روشنی کی کرن کی طرح دل کے تاریک گوشوں تک پہنچ جاتی، اور عقل و دل دونوں کو روشنی سے منور کر دیتی۔اگر کسی نے طریقت و معرفت کو مجسم صورت میں دیکھنا ہو تو حضرتِ خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی خانقاہ کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ وہاں علم کے ساتھ عشق کی گرمی بھی تھی، عقل کے ساتھ دل کی نرمی بھی، اور ظاہر کے ساتھ باطن کی طہارت بھی۔ آپ کی نگاہ میں تاثیر تھی، آپ کی دعا میں تسکین تھی، اور آپ کی صحبت میں سکون۔ آپ نے تصوف کو محض رقص و وجد نہیں بنایا، بلکہ تزکیۂ نفس، ریاضتِ باطن، اور اتباعِ سنت کا آئینہ قرار دیا۔ آپ کی خانقاہ غفلت کے اندھیروں میں بھٹکتے انسانوں کے لیے روشنی کا مینار تھی — جہاں سے بندگی کے چراغ جلتے اور اصلاحِ باطن کی خوشبو پھیلتی۔ جو آپ کے در سے فیض یاب ہوتا، وہ نہ صرف اپنی زبان و ظاہر میں بلکہ اپنے دل و ضمیر میں بھی انقلاب محسوس کرتا، اور ہر لفظ آپ کی محبت و حکمت کی دھار کا پیکر بن کر نکلتا۔
حضرتِ خطیب البراہین علیہ الرحمہ ان خوش نصیب اولیاء میں سے تھے جنہوں نے شریعت و طریقت کے درمیان کوئی خلیج نہ رہنے دی۔ آپ فرماتے تھے:“شریعت کے بغیر طریقت، دریا کے بغیر کشتی کے مانند ہے، جو بہک جائے گی، بچ نہ پائے گی۔” آپ کی مجالس میں علم و عمل، ظاہر و باطن، شریعت وحقیقت کے حسین سنگم کا منظر ہوتا۔ آپ نہ صرف ظاہری عبادات کے پابند تھے بلکہ باطنی خشوع و خضوع کے بھی پیکر تھے۔ آپ کے چہرے پر نورِ اخلاص، کلام میں تاثیر، اور طرزِ حیات میں سیرتِ مصطفی ﷺ کی جھلک نمایاں تھی۔ آپ کے ہر قدم، ہر اندازِ گفتگو، اور ہر مسکراہٹ میں اخلاق و رحمت کا درس پوشیدہ تھا۔
حضرتِ خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی قیادت کسی کرسی یا منصب کی محتاج نہیں تھی۔ آپ کے پیچھے چلنے والے دل کی لگن سے چلتے تھے، کیونکہ آپ کا جاہ و جلال محبت و اخلاص سے بنا ہوا تھا۔ آپ نے علماء و مشائخ کے مابین اتحاد و اخوت کو اپنا مشن بنایا، اور معاشرے میں دینی توازن و فکری اعتدال کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ آپ کے شاگرد، مرید اور عقیدت مند آج بھی اس فیضانِ قیادت کے امین ہیں، جو اخلاص، تحمل، حلم اور ایثار کی بنیاد پر استوار ہے۔ آپ نے خدمتِ دین کو شہرت کے لیے نہیں، بلکہ امت کی اصلاح اور رب کی رضا کے لیے اپنا شعار بنایا۔
حضرت کی شخصیت میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں تھی، وہ اخلاقِ نبوی ﷺ کی جھلک تھی۔
آپ نرم خو، بردبار، اور صبر و قناعت کے پیکر تھے۔ کبھی کسی کے عیب پر نگاہ نہ ڈالی، کبھی کسی کے زخم پر نمک نہ چھڑکا۔ جو آپ کے قریب آتا، اپنی اصلاح کے ساتھ واپس لوٹتا۔ آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دلوں میں اتر جاتے، کیونکہ وہ دل کی گہرائیوں سے نکلتے تھے۔ آپ کی زندگی قرآنِ مجید کے اس فرمانِ مبارک کی عملی تفسیر تھی:"وَإِنَّکَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ"اگرچہ حضرتِ خطیب البراہین علیہ الرحمہ اس ظاہری دنیا سے پردہ فرما گئے، مگر آپ کا فیضان آج بھی جاری و ساری ہے۔ آپ کے مرید، شاگرد، معتقدین اور چاہنے والے آج بھی آپ کی یاد سے اپنی روح کو تروتازہ کرتے ہیں۔ آپ کی تعلیمات ایک مشعلِ راہ ہیں جو نسلِ نو کو بتاتی ہیں کہ دین صرف مسجد کی چہار دیواری میں نہیں، بلکہ کردار، خدمت، محبت، اور امن میں جلوہ گر ہے۔
حضرتِ خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی حیاتِ طیبہ محض ایک شخص کی داستان نہیں، بلکہ ایک عہدِ ایمان و عرفان کی روداد ہے۔ آپ نے بتایا کہ علم اگر تقویٰ سے جُڑ جائے تو نور بن جاتا ہے، اور عشق اگر شریعت میں ڈھل جائے تو حقیقت کا دریا بہا دیتا ہے۔ ایسے مردانِ حق کے وجود سے زمین کو برکت، وقت کو معنی، اور انسان کو مقصد ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، آپ کے مزارِ انور کو مرکزِ انوار بنائے، اور ہمیں بھی آپ کے فیضانِ علم و عرفان سے حصہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
عقیدت کیش ـ قاری نثار احمد نظامی
پرنسپل دارالعلوم قطبیہ اہل سنت روشن العلوم
امرڈوبھاسنت کبیر نگر
خصوصی پیش کش : نیپال اردو ٹائمز