نیپال اردو ٹائمز شعیب الاولیا نمبر کا رسم اجرا
سدھارتھنگر یوپی
بیورو رپورٹ
(ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے،
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا)
(مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے،
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے)
یہ دو اشعار میں چیف ایڈیٹر حضرت علامہ عبدالجبار علیمی صاحب کی خدمت میں نذر کررہا ہوں، اور علماء کونسل نیپال کی جانب سے آپ کی محنت، خلوص، اور بےلوث خدمات کو سلامِ محبت پیش کررہا ہوں۔ علماء کونسل نیپال کے زیرِ اہتمام شعیب الاولیاء نمبر شائع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔؟
اولًا- علماء کونسل نیپال کے مرکزی اراکین کے اكثراساتدہ کا علمی و روحاني تعلق دارالعلوم فیض الرسول سے ہے، تنظيم کے مرکزی صدر قاید ملت حضرت علامہ سيد غلام حسين مظہري صاحب فاضل فيض الرسول حضور شير نيبال صوفي محمد صديق صاحب قبلہ کے شاگرد خاص ہیں یونہی علماء کونسل کے جنرل سیکریٹری محب گرامی حضرت علامہ مشتاق احمد بركاتي صاحب و مشير أعلٰیٰ حضرت علامہ سجاد احمد قادري صاحب يہ دونون فاضل فيض الرسول حضرت علامہ محبوب علي صديقي صاحب قبلہ سوني بر گدوا کے شاگرد خاص ہیں ۔خود راقم کی ابتدائ تعلیم مدرسہ فیض الرسول پڑرہا میں مرید خاص حضور خليفه صاحب قبله رحمه الله براوں شريف منشي حبيب الله صاحب قبله ساكن برگداسے ہوئی ہے۔ علما کونسل روپندیہی کے انچارج علامہ اکبر علی فیضی صاحب کی فراغت فیض الرسول سے ہے،اور کس کس کا نام لوں بس اتنا کہہونگا حضور شعيب الاولياء كي شان ميں.
(ہم ہوئے کہ میر ہوے
سب تیرے زلفوں کے اسیر ہوے)
لہذا من لم يشكر الناس لم يشكر الله پر عمل کرتے ہوئے تمام ارکان و ممبران علماء كونسل نيبال نے شعيب الاولياء نمبر شايع کرنے کا ارادہ کیا۔
ثانیًا-انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے جلدی متاثر ہوتا ہے۔ حضور شعیب الاولیاء علیہ الرحمہ ہمارے علاقے کے عظیم صوفی بزرگ ہین، اور ان کی زندگی ہمارے لیے نمونۂ عمل ہے۔ اسی لیے ان کی حیاتِ مبارکہ کے گوشوں کو اجاگر کرنا اور ان پر عمل کی دعوت دینا اس نمبر کی بنیادی غرض ہے۔ اب سنیے کہ اس نمبر کو شائع کرنے میں چیف ایڈیٹر صاحب قبلہ کو کن کن مشکلات کا سامنا ہوا، اسے آپ حضرات کے گوش گزار کررہا ہوں۔ چیف ایڈیٹر کی آب بیتی نور محمد خالدمصباحی برکاتی کی زبانی کی زبانی واقعہ کچھ یوں ہے ۔جب حضور شعیب الاولیا نمبر کی بات آئی تو ایڈیٹر صاحب نے علامہ اکبر علی فیضی اور امیرالقلم علامہ غیاث الدین احمد عارف مصاحب صاحبان سے رابطہ کیا اور اپنا ارادہ ظاہر کیا ، جس پر صاحبین نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ،اب شعیب الاولیا نمبر کے لیے مضامین کی ذمہ داری علامہ
اکبر علی فیضی اور حضرت مصباحی صاحب کو دے دی گئی ، یہاں یہ بات واضح رہے کہ ایڈیٹر صاحب کے استاذ گرامی وقار صاحب قرطاس و قلم حضرت علامہ شمیم احمد نوری مصباحی سدھارتھنگری نے اس شمارے میں اپنا پورا وقت صرف کیا اور ہر محاذ پر ایڈیٹر صاحب کو مشورہ دیتے رہے،خیر مضامین اور مواد جمع ہونے لگے ،دوسری جانب اس کی طباعت کے اخراجات کی بات آئی تو کسی عنوان پر مجھ سے ایڈیٹر صاحب گفتگو فرما رہے تھے اسی درمیان اس کا ذکر کیا کہ اب مجھے شعیب الاولیا نمبر کے لیے پیسے کا انتظام کرنا ہے اس پر میں نے کہا آپ پریشان نہ ہوں یہ حق مجھے دے دیں خیر میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے یہ توفیق بخشی ،اب اخبار کا کام ایڈیٹر صاحب نے شروع کیا اور فائل مکمل کردی۔
حسبِ معمول، جہاں وہ اخبار کی طباعت کروایا کرتے تھے، وہاں منگل 19 محرم الحرام کو اشاعت کے لیے مواد دےدیا مگر اُس پریس والے نے تاخیر کر دی اور جمعرات 21 محرم الحرام کو موبائل میں ایک میسج بھیجا کہ طباعت کا کام 23 محرم الحرام کو ہو ہی ہوگا۔ چیف ایڈیٹر صاحب نے جمعرات کو نیپالی وقت کے مطابق دن 1 بجے یہ پیغام دیکھا، تو بےساختہ دل سے نکلا، خدایا! اب کیا ہوگا؟ کیونکہ 22 محرم الحرام کو رسمِ اجرا ہے اب توتمام تر آرزوؤں اور تمناؤں پر پانی پھرنے جاے گا۔ مگر بقولِ شاعر:
غلامِ غوثِ اعظم رنجیدہ نمیماند،
شب ماند ولکن شبِ دیگر نمیماند۔
ایڈیٹر صاحب نے فرمایا: میرے ایک عزیز دوست سراقہ صاحب سے اسی رات انٹرنیٹ کے فوائد پر بحث ہوئی تهي ميں نے موقع عنیمت جانا ، اسی وقت گوگل پر پریس مالکان کا نمبر تلاش کرنا شروع کر دیا۔
خیر، لکھنؤ کے کچھ پریس والوں کا نمبر ملا۔ قطر کے وقت کے مطابق 5 بجے اور ہندوستانی وقت 7:30 شام کو ان مین سے کچھ سے رابطہ کیا، مگر سب کا ایک ہی جواب تھا، ادیتر صاحب ! آج21 محرم کو کام ممکن نہیں ایڈیٹر صاحب نے منت سماجتکی، فرمایا یہ عزت و وقار کا مسئلہ ہے، کل 22 محرم جمعہ کو رسمِ اجرا ہے بالآخر، لکھنؤ کے ایک پریس والے نے دوگنا خرچ کی شرط پر جمعرات رات 11 بجے تک چھاپ کر دینے کی ہان بھر لی۔ یوں شعیب الاولیاء نمبر کی طباعت کا مرحلہ مکمل ہوا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ اخبار لکھنؤ سے نیپال کیسے پہنچے اور نیبال سے براون شریف کیسے پہونچے؟ وقت قلیل، کام کثیر!خیر، رات ہی کو 12 بجے پریس والے نے اخبار لکھنؤ سے گورکھپور کے لئے روانہ کر دیا۔ مگر ایڈیٹر صاحب پوری رات بےچین اور مضطرب رہے،اور علامہ اکبر فیضی صاحب جو نہایت ہی ذمہ دار عالم دین ہیں ان کے سپرد کردیا دل سے بس یہی دعا نکلتی رہی، یا اللہ! اخبار براون شریف جمعہ کی شام تك پہنچے گا یا نہیں پہنچےگا ؟اللہ کا فضل ہوا، اور حضور شعیب الاولیاء علیہ الرحمہ کی خاص نظرِ کرم ہوئی۔ اخبارصبح سویرے سنولی بس پارک پہنچ گیا۔ مگر اس اخبار کے انتظار میں ایک عاشقِ شعیب الاولیاء، محمد اکبر علی فیضی صاحب، ساری رات سنولی بس اڈے پر جاگ کر کھڑے رہے۔ جیسے ہی انہیں اخبار نظر آیا، خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ! ایڈیٹر صاحب کے بقول، پورا دن مولانا اکبر علی فیضی صاحب کی فوج (یعنی طلباء) نے اخبار کو فولڈنگ کیا۔ اور شام 5 بجے عاشقانِ شعیب الاولیاء کا یہ نورانی قافلہ، امیرالقلم، مولانا غیاث الدین عارف مصباحی صاحب قبلہ کی قیادت میں براون شریف کے لئے روانہ ہو گیا۔
رات 12 بجے، حضور مفکرِ اسلام، پیرِ طریقت، رہبرِ راہِ شریعت، علامہ عبدالقادر علوی دامت برکاتهم القدسیہ کے دستِ مبارک سے اس کا رسمِ اجرا عمل میں آیا یوں یہ گلدستۂ محبت آپ حضرات کی نگاہوں کی زینت بنا۔ اسی لیے میں نے مضمون کی ابتدا میں چیف ایڈیٹر کی شان میں عرض کیا تھا
،۔ہزارون سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
۔بڑی مشکل سےہو تا ہے چمن میں دیدور پیدا
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے،
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔
کتبہ: نور محمد خالد مصباحی برکاتی، تولہوا، نیپال۔