مادہ پرستی کا بڑھتا قدم
از قلم: محمد آفتاب عالم مصباحی
سیتا مڑھی،استاد دارالعلوم فیض عام اناؤ
اس عالم رنگ وبو میں آئے دن نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں،ہر آنے والا کل ایک دل خراش سانحہ لے کر اپنے دن کا آغاز کر رہا ہے۔پوری دنیا کے حالات ایسے ناگفتہ بہ اور پرآشوب ہو چکے ہیں کہ طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ان سب فتنوں میں ایک اہم اور بنیادی فتنہ پیٹ کا ہے،شکم پروری اور تن زیبائی زندگی کا اہم ترین مقصد و مطلوب بن کر رہ گیا ہے۔ہر شخص کا مطمع نظر یہ ہو گیا ہے کہ لقمہ تر اس کی لذت کام و دہن کا ذریعہ اور سبب بنے۔یہ فتنہ اتنا عالمگیر ہو گیا ہے کہ ہر شعبہ و جماعت کے افراد اس مصیبت میں گرفتار ہیں۔تاجر ہو یا ملازم، اسکول کا ٹیچر ہو یا کالج کا پروفیسر، دینی درسگاہ کا مدرس ہو یا کسی مسجد کا امام، کوئی بھی اس وبا سے مستثنی نہیں۔نتیجتا یہ حاصل ہوا کے آج کی پوری دنیا ساز و سامان اور اسباب و وسائل کی فراوانی کے باوجود حرص و طمع،لوٹ مار اور زر طلبی وشکم پروری کی بھٹی میں جل بھن رہی ہے۔درد و کرب، بے چینی و بے اطمینانی، شرمندگی و رسوائی اور حیرت و پریشانی کا دھواں ہر چار جانب پھیلا ہوا ہے۔اس فتنے جہاں کی اصل و مرجع وہی ہے جس کی پیشن گوئی آج سے 1400 سال پہلے ہمارے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنی زبان اقدس سے ارشاد فرمایاتھا٫٫اخرت کا یقین بے حد کمزور اور اخرت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور قریب قریب ختم ہو چکا ہے،،مادی اسباب و وسائل اور نعمتوں کا تصور اس قدر اپنا سکہ جما لیا ہے کہ روحانی اور قلبی حلاوت و چاشنی مزمل اور بوسیدہ ہو چکی ہے۔اج لوگوں کی بلندی و پستی عزت و ذلت کامیابی و سرخروئی کی پیمائش ٫٫ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم،،کے پیمانے سے نہیں ہوتی بلکہ پیٹ و جیب کے پیمانے سے ہوتی ہے۔مادیت کے اس طوفان نے پہلے ایمان و یقین کو اڑا لے گیا پھر انسانی دوستی آپسی بھائی چارگی اور اخلاقی خوبی و صلاحیت کو مٹیا میل کر دیا۔معاشرت و معاملات میں مضبوط رشتہ اور ہمدردی کی شمع کو بجھا دیا۔اعمال صالحہ کے خوشگوار اور پرکیف ماحول کو پراگندہ اور پلید کر دیا۔بے ہودگی، بے راہ روی، بے رحمی، بے اعتمادی، اور آوارگی کا بازار ہر طرف گرم دکھائی دے رہا ہے۔مادہ پرستی کی آگ اس قدر شعلہ بار ہے کہ آج ایک ملک دوسرے ملک کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔معصوموں اور بے قصوروں کا لہو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔گھر گھر میں آپسی خانہ جنگی کا سایہ فگن ہے،باپ بیٹے سے بیزار اور بیٹا باپ سے دستبرداری کا ثبوت دے رہا ہے۔لوگوں کی سوجھ بوجھ اور خیال و فکر پر جہالت کا پردہ اس قدر پڑا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کا گلا گھونٹنے کے لیے سرگرداں اور بضد ہیں۔قتل و غارت، لوٹ مار اور ناجائز و حرام خوری کا گھٹا ٹوپ بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔کہیں پر غذا کی ناقدری کی جا رہی ہے تو کہیں پر کمی غذا کے باعث لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ہر جانب کثافت کا بول بالا ہے۔مادیت پرستی کے نقصانات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ جن کا شمار مشکل ہو گیا ہے۔ہمارے یہاں ہماریزندگی کا حاصل مطلوب و مقصود روٹی اور پیٹ کا ہے جبکہ ہماری فکر و سوچ ان سے بالاتر ہونی چاہیے۔آج دنیا ہی کو ہم سب کچھ اور اپنا سرمائے اصلی سمجھ بیٹھے ہیں، حالانکہ ہماری حیثیت یہاں ایک مسافر کی ہے اور اسی کے تحت ہمیں اپنی زندگی کو گزارنی چاہیے، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ہر جگہ ہم ہی مر کھپ رہے ہیں۔
الغرض اس پیٹ کے فتنے نے ساری دنیا کو پریشان و اضطراب کر رکھا ہے پوری دنیا کے عقلا اور دانشورانِ ملت اس فتنے کے سامنے حیران و ششدر اور بے بس نظر ارہے ہیں،اس مرض کے مریضوں میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اب ضرورت پڑی کہ اس مرض مہلک کا تدارک اور سد باب کیسے ممکن ہو تو میرے سامنے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان عالی شان موجود ہے جس پر عمل پیرا ہو کر اس بیماری اور وبال جان سے خود کو بتایا جا سکتا ہے۔٫٫واللہ لا الفقر اخشی علیکم ولکن اخشی علیکم ان تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم فتنافسوھا کما تنافسوھافتھلکم کما اھلکتم،، (صحیح بخاری) بخدا مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطعا نہیں بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے جیسا کہ تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی، پھر تم پہلوں کی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو، پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا تمہیں بھی برباد کر ڈالے۔دنیا کی اس زہر قاتل سے بچنے کے لیے حضور نے ایک جامع نسخہ شفا تجویز فرما دیا جس کے دو اجزاء ہیں ،اول اعتقادی دوم عملی۔اعتقادی جز کی حقیقت یہ ہے کہ ہر موقع و محل پر یہ ملحوظ نظر رکھنا ہے کہ ہم تھوڑی مدت کے لیے اس دار فانی میں بطور مہمان ہیں ہر راحت و آرام اور آسائش و زیبائش یہاں کی فانی اور مجازی ہے۔یہاں کے لذایذ و شہوات آخرت کی پیش بہا نعمتوں اور ابد الاباد کی لازوال راحتوں کے مقابلے میں کالعدم اور بے سود ہیں۔عملی نسخہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس فانی دنیا کو عمل کی جگہ اور دارالاسباب تصور کریں،اپنی آخرت خوبصورت اور کامیاب بنانے میں مصروف عمل ہو جائیں،تمام حرام و ناجائز اور مشتبہ چیزوں کو سم قاتل سمجھ کر کلی طور پر کنارہ کش ہو جائے اور یہاں کی رنگینی ورعنائی اور لہو لعب میں انہماک ہونے سے گوشہ نشینی کا راستہ اختیار کریں۔دنیا کی مال و متاع، اسباب و وسائل، زن و فرزند، خویش و اقارب اور قبیلہ و برادری کے سارے قصے زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر صرف بقدر ضرورت ہی اختیار کی جائیں۔یہاں کی عیش و عشرت کے کسی بھی شے کو اپنی حیات کا مقصود اور موضوع نہ گردانے۔ایک باوقار زندگی گزارنے کے لیے پھر سے بھولے ہوئے راستوں پر لوٹ آنا ہوگا، بوسیدہ اوراق کو تر و تازہ کرنا ہوگا،قناعت سے خود کو راضی کرنا ہوگا،اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں صبر و شکر کا مظاہرہ کرنا ہوگا،کامیاب انسان بننے میں جو بھی رکاوٹیں درپیش ہوں ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا،پیٹ اور جیب کی لالچ کو چھوڑ کر کے توکل و قناعت کی سواری پر سوار ہونا پڑے گا،اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی مسرت و شادمانی کی نوید سے ہمیشہ ہرا بھرا رہے تو آج ہی سے مادہ پرستی کی ہوس سے نکل کر کے خدا پرست بن جائے یہی وقت کی پکار ہے