Oct 23, 2025 07:40 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
خلیل اللہ کی قربانی : محمد فیضان اشرف علیمی مصباحی نیپال اردو ٹائمز

خلیل اللہ کی قربانی : محمد فیضان اشرف علیمی مصباحی نیپال اردو ٹائمز

20 Jun 2025
1 min read

خلیل اللہ کی قربانی

از محمد فیضان اشرف علیمی مصباحی متعلم الجامعۃ الاشرفیہ مبارک

 اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے محبوب بندوں کو آزمائشوں میں ڈالتارہا ہے، بالخصوص انبیائے کرام طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرے ہیں ۔ ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کئی باراور مشکل ترین آزمائشوں سے دوچار ہوئے اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ ہر مرتبہ کامیاب و کامران رہے۔ خالق کائنات نے اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ئے کرام دنیا میں بھیجے ،جن کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر امام الانبیا حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا ۔ان میں حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو دوسرے انبیا پر کئی جہتوں سے ایک خاص قسم کی بزرگی اور عظمت و رفعت حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کا ذکر کثرت سے فرمایا ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ (پ۷ ، الانعام : ۷۵) ترجمہ کنز العرفان: اور اسی طرح ہم ابراہیم کوآسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت دکھاتے ہیں اوراس لئے کہ وہ عَیْنُ الْیَقِیْن والوں میں سے ہوجائے۔ اور مسلمانوں کوان کی زندگی اور قربانیوں سے سبق لینے کی تلقین فرمائی ہےتاکہ مسلمان ان کے نقش قدم کو اپنا کر اپنی دنیا اورآخرت سنوار سکےلہٰذا آئیے ان کی زندگی کے چندگوشوں کا مطالعہ کرکے ہم اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں ۔ نام ونسب: آپ کا نام ابراہیم ، لقب خلیل اللہ اور کنیت ابوالضیفان (بہت بڑے مہمان نواز) ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا جاتا ہے:ابراہیم بن تارخ بن ناخور بن ساروع بن رعو ابن تاتع بن عابر بن شالح بن ارفخشند بن سام بن نوح۔ تفسیر حقانی ایک روایت کے مطابق آپ طوفان نوح کے۱۷۰۹؍ سال بعد پیدا ہوئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً۲۳۰۰؍ سال قبل شہر بابل کے قریب قصبہ کونی میں آپ کی ولادت ہوئی۔ (تفسیر عزیزی)۔ تفسیر خزائن العرفان کے مطابق آپ امواز کے علاقے مقام سوس میں پیدا ہوئے۔ از :نعیمی آپ کے والد اور چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ اور والدہ کا نام’امیلہ‘ تھا۔ آزر آپ کے چچا کا نام ہے جو کافر تھا اور حالت کفر ہی میں فوت ہوا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسی قوم اور ایسے علاقے میں آنکھیں کھولیں تھیں جہاں کفروبت پرستی اور شرک کا دور دورہ تھا لیکن ان تمام خرافات اور واہیات کے باوجود آپ جادۂ حق سے وابستہ رہے اور حکمت کے ساتھ بندگان خدا کو دین حق اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے۔ حضرت ابراہیم کو کفار کی دھمکی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے چچا اور قوم کو اسلام کی دعوت دی اور بت پرستی ترک کرنے کو کہا تو جواب میں آپ کو دھمکیاں دی گئیں اور آپ کی قوم بت پرستی وشرک پر مصر رہی اور ان باتوں کو ماننے سے انکار کردیا جو آپ کہا کرتے تھے۔ قرآن حکیم گواہی دیتا ہے (۱) رب قدیر نے ارشاد فرمایا اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْـا (سورۃ المریم آیت42) ترجمہ کنزالعرفان: جب اپنے باپ سے فرمایا: اے میرے باپ! تم کیوں ایسے کی عبادت کررہے ہو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ (۲) ’’آپ کی قوم سے کوئی جواب نہ بن آیا بجز اس کے کہ انہوں نے کہا کہ اسے قتل کرڈالو یا اسے جلادو۔‘‘ سورۃ العنکبوت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائشیں پہلا امتحان: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پہلا امتحان اس وقت لیا جب انہیں آگ میں پھینکا گیا۔ آپ علیہ السلام اس آزمائش میں پورے اترے اور جان کی پروا نہ کرتے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے دعوت حق سے پیچھے نہ ہٹے لیکن آپ کی آزمائشوں کا سلسلہ یہیں بند نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کئی اور امتحان لئے۔ دوسرا امتحان: اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور چہیتے واکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حرم کی ویران وبیابان سرزمین پر چھوڑ آؤ۔ اس وقت دور دور تک مکہ میں کوئی آبادی نہ تھی۔ ایسی اجاڑ جگہ اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر واپس آجانا جبکہ وہاں نہ کوئی انسان تھا اور نہ ہی دانہ پانی کا نام ونشان، حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا ان دنوں حضرت اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں ،اپنے شیر خوار بچے اور بیوی کو ایسی جگہ چھوڑ آنا سخت ترین امتحان تھا۔ اس امتحان کا مقصد جہاں اپنے محبوب بندے کی آزمائش کرنی تھی، وہاں دوسری طرف کعبہ شریف کی تعمیر اور مکہ مکرمہ کو آباد کرنا بھی مقصود تھا۔ غرض یہ کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی رہیں مشکیزہ کا پانی اور کھجوریں ختم ہوگئیں یہا ں تک کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا بھوکی پیاسی ہوگئیں جس کے سبب دودھ بننا بھی ختم ہوگیا اور آپ کے ساتھ ساتھ بچہ بھی بھوک وپیاس سے بلک اٹھا۔ بچے کی تڑپ اور پیاس آپ سے دیکھی نہ گئی۔ اس بے قراری کے عالم میں دوڑ کر قریب کی پہاڑی صفا پر چڑھیں کہ شاید کہیں پانی نظر آجائے یا کوئی انسان ہی نظر آجائے جو اُن کی مدد کرسکے لیکن وہاں کچھ نظر نہ آیا تو اُتر کر دوڑتی ہوئی مروہ کی پہاڑی پر چڑھیں کہ گوہر مقصود نظر آجائے مگر یہاں بھی کوئی نظر نہ آیا۔ اسی بے قراری، تڑپ اور پریشانی میں آپ نے صفا ومروہ کے سات چکر لگائے۔جب آپ بالکل تھک گئیں اور پانی ملنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی پیاس سے سخت مضطر تھے، آپ علیہ السلام نے ایڑی زمین پر پٹخنا شروع کردیا تب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا معجزہ ظہور میں آیا۔ جہاں آپ علیہ السلام ایڑی ماررہے تھے، اللہ تعالیٰ نے وہاں سے پانی کا ایک چشمہ جاری فرمادیا۔ جب حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے اس منظر کو دیکھا تو مارے خوشی کے پانی سے کہنے لگیں زم زم یعنی رک جا رک جا۔ جب بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے پانی پیا تو آپ کا دودھ جاری ہوگیا۔ اس وقت ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے آپ سے کہا کہ ’’اس بات سے خوف نہ کرو کہ تم ضائع ہوجاؤگی بے شک یہاں بیت اللہ ہے اس کی تعمیر یہ بچہ(حضرت اسماعیل علیہ السلام) اور اس کے والد (حضرت ابرہیم علیہ السلام)کریں گے ۔بے شک اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ تیسرا امتحان: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تیسری آزمائش جو انتہائی عظیم الشان ہے اوروہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دین حق کی خاطر ہجرت کی اور اپنے رب سے ایک نیک اولاد کی دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرماتے ہوئے ایک بردبار وحلیم بیٹا عطا فرمایالیکن جب حضرت اسماعیل علیہ السلام چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا صبر وحلم اور بردباری واضح کرنا مقصود ہوا، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے 7؍ذی الحجہ کی رات خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ آپ علیہ السلام صبح تفکر وتردد میں مبتلا رہے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے یا فقط خواب و خیال تو نہیں ، 8تاریخ کا دن گزر جانے پر رات پھر خواب دیکھا۔ صبح یقین کرلیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے۔ اس کے بعد آنے والی رات کو پھر خواب دیکھنے پر صبح اس پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اسی لئے ۱۰؍ ذی الحجہ کو یوم النحر (ذبح کا دن ) کہا جاتا ہے ۔ آپ علیہ السلام نے اس خواب کا ذکر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور اتنی بڑی آزمائش کا بردباری اور خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرنے کیلئے خود کو پیش کردیا۔یہاں چونکہ مطلوب ومقصود حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی نہیں تھی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش مقصود تھی، اسلئے جب انہوں نے حضرت اسماعیل کے حلقوم پر چھری رکھی اور اسے چلانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل امین کے ساتھ جنت سے ایک دنبہ بھیجا جسے آپ نے حضرت اسماعیل کی جگہ لٹا دیا اور حضرت اسماعیل کو اس مقام سے ہٹا لیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو قربان ہونے سے بچا لیا لیکن جانور کی قربانی کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے صبح قیامت تک کیلئے قربانی کے عمل کو جاری فرمادیا ہے جو ہمیں جد الانبیا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور ان کی قربانیوں اور آزمائشوں کی یاد دلاتی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی قربانی، اخلاص، صبر اور توکل جیسی صفات اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے. ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے اور ہمارے ایمان کو مضبوطی اور ہماری زندگیوں کو اطاعتِ الٰہی سے بھر دے۔ آمین یا رب العالمین۔

 از محمد فیضان اشرف علیمی مصباحی متعلم الجامعۃ الاشرفیہ مبارک

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383