Oct 23, 2025 07:36 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
دینی مدارس کے فضلاء کا روزگار: ایک سنجیدہ قومی و دینی مسئلہ کلم اللہ انصاری(نیپال اردو ٹائمز)

دینی مدارس کے فضلاء کا روزگار: ایک سنجیدہ قومی و دینی مسئلہ کلم اللہ انصاری(نیپال اردو ٹائمز)

20 Jun 2025
1 min read

دینی مدارس کے فضلاء کا روزگار: ایک سنجیدہ قومی و دینی مسئلہ 

حافظ کلیم اللّٰہ انصاری مقام ۔بیجناتھپور وارڈ ٥ ضلع۔سپول بہار انڈیا

عید الفطر کی تعطیلات کے فوراً بعد جب دینی مدارس میں نئے تعلیمی سال کی سرگرمیاں بحال ہوتی ہیں، طلبہ و طالبات نئے عزائم و ارادوں کے ساتھ تعلیم کی شاہراہ پر گامزن ہوتے ہیں، لیکن ایک بہت بڑی تعداد ایسے فضلاء کی بھی ہوتی ہے جو حال ہی میں مدارس سے فراغت حاصل کر کے معاشی میدان میں قدم رکھنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ حساس لمحہ ہوتا ہے جب وہ اپنے مستقبل، اپنی معاشی خودکفالت اور دینی تشخص کے ساتھ کسی میدان میں خدمت انجام دینے کے امکانات کو تلاش کرتے ہیں، لیکن اکثر و بیشتر انہیں مایوسی اور تنگ دامانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں دینی مدارس کے فارغین کے لیے روزگار کی منصوبہ بندی کو کوئی قابل توجہ مقام نہیں دیا گیا۔ نہ اسے تعلیمی پالیسی کا حصہ بنایا گیا اور نہ ہی مدارس کے نظام میں اسے شامل کیا گیا۔ اس غفلت کے نتیجے میں مدارس سے فراغت حاصل کرنے والے ہزاروں نوجوان معاشی تنگی، بے سمتی اور احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ایک عظیم علمی ورثہ رکھنے والے، دین و شریعت میں مہارت رکھنے والے افراد محض اپنے معاش کی فکر میں دوسروں کے محتاج بن جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ اس پر توجہ دینے کی آواز تقریباً ایک صدی قبل بھی بلند ہوئی تھی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے 1937ء میں علی گڑھ میں منعقدہ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے موقع پر اپنے خطبۂ صدارت میں اس مسئلہ کو نہایت سنجیدگی سے اٹھایا۔ حضرت مدنیؒ نے واضح کیا کہ عربی و دینی تعلیم کے حاملین کو ان کی علمی خدمات کا مناسب بدلہ نہیں دیا جاتا اور وہ محتاجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ملتِ اسلامیہ کے لیے بھی ایک المیہ ہے۔ آج دینی مدارس سے ہر سال لاکھوں طلبہ فراغت حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک محدود تعداد ہی تدریس، امامت، خطابت اور دعوت و تبلیغ کے شعبوں میں جگہ پاتی ہے۔ خوش حال گھرانوں کے کچھ افراد تو آگے تعلیم حاصل کر کے یا کاروبار میں لگ کر خود کو سنبھال لیتے ہیں، لیکن ایک بڑی تعداد ان طلبہ کی ہوتی ہے جو نہ کسی دنیاوی ہنر کے مالک ہوتے ہیں، نہ ان کے پاس کوئی سرکاری یا نجی ادارے میں نوکری کے لیے مطلوبہ ڈگری موجود ہوتی ہے، اور نہ ہی ان کے لیے کوئی ادارہ راہنمائی یا منصوبہ بندی کرتا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ محرومی، بے چینی اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس کے نصاب اور نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ تعلیمی نظام کو اس طرح سے ترتیب دیا جائے کہ طلبہ کی صلاحیت، ذہانت اور دلچسپی کے مطابق انہیں مختلف درجات اور شعبوں میں تقسیم کیا جائے۔ مثلاً: 1. مولوی کورس: ایسے طلبہ کے لیے جو علمی سطح پر متوسط یا کمزور ہوں۔ انہیں بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ ایسا نصاب دیا جائے جس کی بنیاد پر وہ امامت، خطابت یا تدریس جیسے بنیادی دینی فرائض انجام دے سکیں اور ساتھ ہی کوئی دنیاوی ہنر بھی سیکھیں۔ 2. عالم و فاضل کورس: وہ طلبہ جو علم کے میدان میں شوق و جذبہ اور قابلیت رکھتے ہوں، انہیں اعلیٰ دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیمی اداروں کے مساوی نصاب دیا جائے تاکہ وہ دینی تدریس، تحقیق، فتاویٰ نویسی اور دیگر علمی خدمات انجام دے سکیں۔ 3. تخصص کورس: وہ طلبہ جن میں غیر معمولی علمی استعداد ہو، انہیں حدیث، تفسیر، فقہ، قضا، تحقیق، ابلاغ، دعوت و تبلیغ جیسے شعبوں میں مہارت کے لیے تیار کیا جائے تاکہ وہ ملت کی علمی قیادت کے اہل بن سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مدارس کے نظام میں کمپیوٹر، حساب، ہنر مندی، طب و حکمت، بجلی و الیکٹرانکس، چھوٹے کاروبار، زبان و ابلاغ، اور دیگر فنی مہارتوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی ہنر بھی ان کے ساتھ ہو اور وہ باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔ یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں۔ ماضی میں مدارس میں خطاطی، طب، اور دیگر فنون کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ آج ان کی جگہ جدید کورسز لے سکتے ہیں۔ حکومت سے منظوری لے کر ان نصابات کو کالج یا انٹرمیڈیٹ کے مساوی تسلیم کرایا جا سکتا ہے تاکہ فضلاء سرکاری ملازمت یا نجی شعبے میں بھی خود کو منوا سکیں۔ مدارس کے ذمہ داران، اہل علم اور قوم کے رہنماؤں کو چاہیے کہ اس مسئلہ پر سنجیدہ اور عملی اقدامات کریں۔ صرف نصیحت، تقریر اور دعاؤں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی، نئی سوچ اور عمل کے میدان میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم نے یہ قدم نہ اٹھایا تو کل یہ مایوس اور بے روزگار فضلاء معاشرے کے لیے بوجھ بن جائیں گے، اور ان کا علم، ان کی توانائیاں اور ان کا دینی جوہر ضائع ہو جائے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم حضرت مدنیؒ جیسے اکابر کی فکر کو مشعل راہ بنائیں اور دینی تعلیم کو معاشی خودکفالت کے ساتھ جوڑ کر ملت کے ان قیمتی سرمایوں کو عزت و وقار کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھنے کا موقع فراہم کریں۔ کیونکہ ایک خوددار، باعمل اور باہنر عالم ہی ملت کے لیے حقیقی رہنما ثابت ہو سکتا ہے

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383