Oct 23, 2025 04:44 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی تاریخ

بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی تاریخ

16 Oct 2025
1 min read

بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی تاریخ

ادیب شہیر علامہ نور محمد خالد مصباحی ازہری

+977 981-11905

حضرت ابراہيم عليہ السلام اللہ۔ کے خلیل اور برگزیدہ نبی تھے ۔آپ  كی ولادت آج سے تقریبا 4000 برس قبل  موجودہ عراق کے شہر ناصریہ کے قریب مقام  ار(Ur)میں ہوئی تھی،  آپ بچپن ہی سے اہل ار  کو توحيدکی دعوت دیتے رہے۔آپ کا پورا خاندان بت پرست تھا ۔مگر آپ دعوت توحيد سے پیچھے نہ ہٹے قصص النبياء ميں آپ کی لمبی داستاں موجود ہے ۔اس دور کے بابل کے بادشاہ نمرود  سے آپ کا تو حيد پر مناظره ہوا بادشاه كو مناظرہ میں شكشت فاش ہوئی تو اس کا بدلہ۔لینے کے لئے  آپ کو ایسی  آگ   میں ڈالنے کا عزم مصمم کر لیا جس کے شعلہ آسمان سے باتیں کر رہے تھے ۔مگر قل يا نار كوني بردا وسلاما  علي ابراهيم  کی برکت سے آپ نار نمرود سے صحيح وسالم باہر تشريف لائے ۔آپ کا اتنا عظیم الشان معجزہ دیکھ کر بھی کوئی آپ پر ایمان نہ لایا تو آپ اپنے محبين کے ساتھ ار سے ہجرت کرکے کنعان تشریف لائے اور اسی جگہ کو ا اپنی دعوت  توحید کا مرکز بنایا ،کنعان کا اطلاق اس دور میں موجودہ فلسطین ،اسرائیل اور اردن کے خطوں پر بولا جاتا تھا ۔آپ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے نام سے ایک سورہ سوره ابراهيم موسوم ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام   کے دو نوں  بیویوں سے دو صاحبزادے پیدا ہوئے ،پہلے حضرت اسماعيل علیہ السلام  بادشاه مصر كی هبہ کردہ کنیز  حضرت هاجره کے بطن  مبارک سے پیدا ہوئے  ،ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شجره نسب  حضرت اسماعيل علبه السلام سے جاکر مل جاتا ہے۔

 قرآن مجید کی متعدد سورتوں میں حضرت هاجره اور حضرت إسماعيل  کے حالات زندگی کا ذكر ملتا ہے۔فلسطین سے حضرت اسماعيل علبه السلام وحضرت هاجره كي ہجرت  مکہ کے بے آب وگیاہ چٹیل میدان میں آپ دونوں کا بود وباش خانہ کعبہ کی تعمیر نو، ذبح اسماعیل کا واقعہ عربوں کی اکثريت انہیں کی  اولاد ہے،دوسرے  صاحبزادے حضرت اسحاق عليه السلام ہیں جو بني إسرائيل کے تمام انبیاء  بشمول  حضرت يعقوب .يوسف، موسی، هارون ،داؤد،سليمان ،دانيال، يحي،زكريا،  عیسی علیھم السلام حضرت يعقوب عليه السلام کے نسل پاک سے ہ،یں حضرت يعقوب عليه السلام كا لقب اسرائیل پڑ نے کی وجہ تسمیہ  اسرائیل یہ عبرانی زبان کے دو لفظ اسرااور ايل کا مجموعہ  ہے۔جس کے معنی عبداللہ ۔اللہ کے بندہ ہے  ۔آپ کا شجرہ نسب  یعقوب بن اسحاق بن إبراهيم عليهم السلام ہے۔

حضرت يعقوب عليه السلام كے کل12 بیٹوں سے  بنی اسرائیل کے 12 قبیلے  وجود ميں آئے جنہیں بنی اسرائیل کہا جاتا ہے ۔ حضرت يعقوب علیہ السلام  كي زوجہ اول لیاہ بنت لیان سے 10  بیٹے پیدا ہوئے  اور دوسری بیوی راحيل بنت ليان سے  حضرت يوسف اور بنامين آج سے تقریبا 3800  برس قبل فلسطين  ميں پیدا ہوئے ۔جب آپ کی عمر مبارك 13 سال بعض روايتوں کے مطابق 17 سال کی ہوئی تو آپ نے خواب دیکھا جس کی 

تفصیل واذ قال يوسف لابيه الي اخره ميں موجود ہے۔تمام بھائیوں نے  حسد.سے آپ کو کنویں میں ڈال دیا مگر بقول شاعر

 نور حق شمع الہٰي كو بجھا سکتا ہے کون 

جس کا حامي ہو خدا ا اس کو مٹا سکتا ہے کون 

کچھ مسافروں نے آپ کو کنویں سے باہر نکال کر  بازار مصر میں بیچ ڈالا،  عزیر مصر کی بیوی نے آپ کو مہنگے داموں میں خرید لی اور پال پوش کر جوان کیا قران پاک  میں حضرت يوسف عليه السلام اور عزيز مصر كي بيوي كی ايك  لمبي داستان  موجود  ہے۔

آپ اپنی خداداد صلاحيت كي بنا پر مصر کے بہت بڑے حاکم بنے ۔اسی بنا پر  اس دور میں بہت سے اسرائیلی فلسطین چھوڑ کر مصر میں آکر   مصر میں آباد ہو گئے ۔اسرائیلیوں کی آبادی بڑھتی گئی مصر میں انکا سینکڑوں برس اقتدار رہا ، بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے  ہر دور میں بہت سے احسانات  فرمائے چنانچہ انہی احسانات كا ذكر  كرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے

 ’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دُنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی ۔‘‘ (البقرہ:۴۷)

اسی بنا پر بنی اسرائیل  قومی برتری کے جھوٹے اور جاہلانہ احساس میں  مبتلا ہوگئے  اور یہ نعرہ لگانے لگے نحن ابناء الله واحباءوه ان کے اس رویہ کو دیکھ کر    مصریوں میں بھی  قوم پرستی کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے بھی ابناء فراعنه كا نعره لگانا شروع کر دیا اور آپس میں خانہ جنگی ہو گئی ،آخر قبطی غالب ہوئے اور اسرائیلی مغلوب ہو گئے قبطیوں نے  اسرائیلیوں کو مصر کے اقتدار سے محروم  کر دیا ، اسرائیلی تہذیب  وتمدن اور اسرائیلی قوم کو دنیا سے مٹانے کے لئے سازشیں ہونے لگیں ان کے  نوزائیدہ بچوں کو ایک قانون کے تحت قتل کیا جانے لگا اور لڑکیوں کو قبطیوں کی خدمت کے لئے باقی رکھا جانے لگا، قرآن فرماتا ہے

’’وہ تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی ۔‘‘ (البقرہ:۴۹)

اُن سے زبردستی بیگاری لی جاتی تھی  اور اُن کو سرعام رسوا کیا  جاتا تھا ۔ یہ مجبور قوم  ذلت و نکبت کے دن گزار رہی تھی اور یوں لگتا تھا کہ گویا یہ قوم رسوائی اور غلامی کی زندگی پر قانع ہو چکی ہے اور ذلت و رسوائی  اُس کا مقدر بن چکی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو سنا اور اُن کی ہدایت اور را ہبری کیلئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو 1393 قبل مسيح حضرت عمران عليه السلام كے یہاں مبعوث کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مسلسل جد و جہد کے ذریعہ حالات کو سدھارنے کی کوشش کی مگر فرعون کو ان اصلاحی کوششوں کے پیچھے اپنا تخت ِ اقتدار ڈگمگاتا ہوا نظر آنے لگا اور وہ ان اصلاحی کوششوں کو نا کام کرنے پر تل گیا۔ آخر کار اس کے سوا اور کوئی چارۂ کا رنہ رہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائيل كو ليكر مصر سے فلسسطین لوٹ جائیں، چنانچہ موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے لیکر فلسطین کے لئے روانہ ہو گئے ،فرعون اور اس کے لشکریوں نے موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کا  تعاقب کیا ۔موسی علیہ السلام نے دریائے نیل جو پانی سے بھرا ہوا تھا اس پر  اپنی لاٹھی ماری تو دریا  میں راستہ بن گیا  حضرت  موسی علیہ السلام اور انکی قوم  دریا کو پار کر کے میدان تیہ  ميں آگئی فرعون اور انکی لشکریوں  کو اللہ پاک نے دریائے نيل  میں ڈبو دیا چنانچہ آج بھی مصر کے میوزیم میں موسی علیہ السلام کے دور کے فرعون رمسیس ثاني کی لاش  بطور عبرت کے رکھی ہوئی ہے، ميدان  تيه ميں موسي عليه السلام اور ان كي قوم پر اللہ تعالی نے  بادلوں سے سایہ فرمایا اور انکے  لئےآسمان سے من وسلوی نازل فرمایا ،مگر یہ اتنی سرکش قوم  تھی کہ اللہ تعالی کے ان تمام  إحسانات كو بھول کر سامری جادو گر کے چکر میں پھنس کر بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب موسی علیہ السلام کوہ طور پر اللہ سے ہم کلام ہونے اور توریت کو لینے تشریف لے گئے، آپ اپنے جانے سے قبل اپنے بھائی حضرت هارون عليہ السلام کو اپنا جانشین بنا گئے۔چنانچہ اس نافرمانی کے بدلے اللہ تعالی نے میدان تیہ میں ان پر عذاب مسلط کر دیا اور چالیس سال تک میدان تیہ میں بھتکتے رہے۔ایک مرتبہ موسی علیہ السلام نے ان سے کہا کہ فلسطین جو ہماری ارض موعود ہے اس پر جالوت نامی مشرک بادشاہ کی حكومت ہے، چلو ان سے جہاد کریں تو بنی اسرائیلیوں نے جواب دیا اے موسی علیہ السلام تم جاؤ اور تمہارا خدا  جائے اور مشركوں سےجہاد کرے  اس طرح کی سینکڑوں بے وفائیاں  اور بد عہدیاں ان کی فطرت ثانيه بن چکی تھیں ۔یوم السبت کو شکار کرنے سے باز نہ آئے تو اللہ تعالی نے اس نافرمانی کے بدلے انہیں بندر بنا دیا  حضرت يعقوب عليه السلام سے لیکر حضرت  موسی علیہ السلام تک انكا دور عروج وزوال چلتا رہا مگر کمینہ پنی بے حيائی بد عہدی    میں بنی اسرائیل  کی اکثریت مبتلا  رہی۔

حضرت موسي السلام كے وصال کے بعد  ان کے زوال کا دور شروع ہو ا جس کا ذکر پندرہویں پارہ کے سورہ اسراء ميں اس طور پر  کیا گیا ہے : فاذا جاء وعد اولهما بعثنا عليكم عبادا لنا اولي باس شديد فجاسوا خلل الديار وكان وعدا مفعولا سوره بني إسرائيل ايت ٥ 

ترجمہ ۔آخر کار جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا تو اے بنی اسرائیل ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر رہنا تھا۔

اس آیت کو سمجھنے کے لئے اس کا پس منظر سمجھنا بھی ضروری ہے ۔حضرت موسي عليه السلام ّکے وصال کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں آکر دوبارہ آباد ہوئے تو اس وقت فلسطین میں مختلف قومیں آباد  تھیں جنکےنام یہ ہیں ۔حتي.اموري.كنعاني.فرزي.حوي .يبوسي .فلستي جنہیں آج فلسطینی کہا جاتا ہے ۔یہ قومیں شرك وبت پرستی میں مبتلا  تھیں ، بچوں کی قربانی کا ان میں  عام رواج تھا ۔ان کے معابد زنا کاری کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ عورتوں کو دیوداسیاں بنا کر عبادت گاہوں میں رکھنا اور ان سے بدکاریاں کرنا۔عبادت کے اجزا میں داخل تھا ۔اس طرح کی بہت سی بد اخلاقیاں ان میں داخل ہو چکی تھیں ، توریت میں حضرت موسي عليه السلام کے ذریعہ انہیں جو 10 ہدایتين  دی گئیں تھیں  اس میں صاف لکھا تھا کہ تم ان قوموں کو راہ راست پر لا نے کی کوشش کر نا جو فلسطین میں آباد ہو چکی ہیں ۔مگر وہ اس ہدایت کو بھول گئے چنانچہ ان پر مشرك قوميں مسلط کر دی گئیں جیسے آج ہم لوگوں پر بے جے پی کی مودی  یوگی کو  مسلط کر دیا گیا ہے  ۔

چنانچہ اسی افرا تفری کو دیکھ کر حضرت سموئيل نے 1020 قبل مسیح میں حضرت طالوت عليه السلام كو انكا بادشاه بناديا ..اس كي

تفصيل سوره البقره ركوع 32  میں موجود ہے ۔ حضرت طالوت عليه السلام كے قائم کردہ ریاست کے تین فرما روا ہوئے ۔حضرت طالوت علیہ السلام سن 1020تا 1004قبل مسيح.حضرت داود علیہ السلام سن 1004تا 965قبل مسیح.حضرت سليمان عليه السلام سن  965 تا 926 قبل مسيح. يه سب اللہ کے نبی بھی تھے اور اپنے وقت کے فرمانروا بھی تھے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خلافت الہیہ کو قائم کرنے کے لیے علماء کو میدان میں آنا چاہیئے ،نا کہ یہ کہتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ لینا چاہیے کہ سیاست سے  پیروں اور سجادہ نشینوں کو  مطلب نہیں  ،لائق مبارکباد ہیں بریلی شریف کے خانوادے کے امام العاشقین علامہ ومولانا توقير رضا صاحب قبلہ جو حكومت وقت كي انكھوں میں آنکھیں ڈال کر حتي الامكان تحفظ ناموس رسالت پر پہرہ دے هو ئے  ہیں ۔حضرت سليمان عليه السلام جن کا قران پاک میں متعدد بار ذكر   ہوا ہے ۔تخت بلقیس کا واقعہ، چوٹیوں کا آپ کی آواز کو سننا، ہوا میں آپ کے تخت کا اڑنا ۔جنات کا آپ کے تابع ہونا وغیرہ، آپ کے وصال کے بعد بنی اسرائیل شدید اختلافات کے شکار ہو ئے، اور انہوں نے فلسطین کو کئی ریاستوں میں بانٹ دیا ،شمالي فلسطين پر سامريه کو دارالسلطنت بناکر ایک شخص نے  حكومت قايم كي اور جنوبي فلسطين پر یروشلم کو دارالسلطنت بناکر دوسرے نے سلطنت یہودیہ قائم کی اتنے نبی اور رسول ان میں تشریف لانے کے باوجود  یہ بنی اسرائیل سدھرنے والے نہ تھے شرک وبت پرستی میں مبتلا ہو گئے۔

اس زمانے میں بنی اسرائیل میں بہت سے  نبی مبعوت ہوتے رہے حضرت الياس عليه السلام. حضرت اليسع عليه السلام. مگر بنی اسرائیل تنزلی کی طرف ہی جا رہی تھے وہی حال آج  21اکیسویں صدی کے مسلمانوں کی ہے، آخر نویں صدی قبل مسیح میں اشوري فاتحين نے فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔اور لاکھوں بنی اسرائیل کو تہ  وتيغ كر کے انہیں دوسرے  ملکوں اور خطوں میں تتر بتر کر دیا اور یہودیوں کی دوسری ریاست ریاست یہودیہ میں بھی بہت سے نبی مبعوث ہوتے رہے مثلا حضرت يرمياه.وحضرت يسعياه عليهماالسلام مگر یہ سرکش قوم اپنے حركات رزيله سے باز نہ آئی ۔آخر سن598قبل مسيح ميں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے فلسطین  پر حملہ کرکے  اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس وقت كے یہودی بادشاہ کو قیدی بنا کر موجودہ عراق میں واقع بابل لے گیا۔مگر یہودی اپنی پرانی خصلت بد عہدی ۔وعدہ شكني .ريشه دواني ہی میں مشغول رہے۔ نبي حضرت يرمياه علبه السلام  نے انہیں بہت سمجھایا کہ بخت نصر کے خلاف ریشہ دوائیوں سے باز آجاو مگر وہ نہ مانے آخر 587  قبل مسيح مين بخت نصر نے دوبارہ  حمله کر کے لاکھوں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا یہ انکا پہلا فساد تھا، جسکی ان کو سزا ملی جس کا ذکر  قرآن كي اس آيت ميںہے ۔فاذا جاء وعد الاخرة ليسوءا وجوهكم وليدخلو االمسجد كما دخلوه اول مرة وليتبروا ما علوا تتبيرا ..پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمھارے چہرے بگاڑ دین اور مسجد ( یعنی بیت المقدس ) اس طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن( بخت نصر )وعیرہ گھسے تھے۔اور جس چیز پر انکا ہاتھ پڑے اسے تباہ کر کے رکھ دیں ۔

اس دوسرے یہودیوں کے فساد اور اسکی سزا کا تاریخی پس منظر ۔یہودی آپس میں خونریزی کرتے فتنہ و فساد پھیلاتے، آخر اس فتنہ و فساد کے نتیجے میں آپس میں حسد ورقابت بڑھنے لگی ۔بالآخر ا ن یہودیوں نے رومی فاتح پومپئی کو ،سن 63 قبل مسیح میں فلسطین آنے کی دعوت دی چنانچہ وہ اسی سن میں فلسطین آیا اور بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور اپنا ایک نائب بناکر روم واپس چلا گیا ۔لیکن اس کے جانے کے بعد ایک ہوشیار یہودی ہیرود نے سن 40 قبل مسيح دوباره فلسطين پر قبضہ کر لیا ۔اور سن 4 قبل مسیح تک 36 برس تک حكومت كي.اس كے دور میں رومی تہذیب و تمدن کا یہودیوں پر غلبہ ہوا جیسے مغربی تہذیب کا مسلمانوں پر غلبہ ہے۔ہیرود کے مرنے کے بعد اس کی ریاست تین حصوں ميں بٹ گئی۔اور اس کے تینون بیٹے حكومت كرتے رہے مگر عیسوی سن ،6 میں  قيصر روم اگستس نے ان سب کو معزول کر کے اپنے گورنر کو فلسطین کا حاكم بنا دیا اور سن  41 عیسوی تک یہ معاملہ چلتا رہا، اسی دور میں حضرت عيسي  عليه السلام جو خود بني إسرائيل  سے تھے اسرائیلیوں کی اصلاح کی کوشش میں لگے ہوئے تھے مگر یہودیوں کے مذهبي رہنماؤں نے اس اصلاح کی مخالفت کی اور اس وقت كے رومی گورنر پونتس پیلاطس سے انکو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی اور صلیب پر لٹکوا دیا، مگر اللہ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا اور عیسی علیہ السلام کے ہمشکل دوسرے یہودی کو صلیب پرلٹکادیا ۔ہیرود کے مرنے کے بعد اس کے دوسرے بیٹے  هيرود اينتي پاس نے فلسطین کے شمالی علاقے گلیل اور شرق اردن پر حكومت كي. یہی وہ کمینہ بادشاہ تھا جس نے ایک رقاصہ کے کہنے پر حضرت يحي عليه السلام كا سر قلم كر دیا  اس كا تيسرا بيٹا فلپ دریائے حرمون سے یرموک تک کا بادشاہ ہوا اسلامی تاریخ میں جنگ یرموک اسی مقام پر لڑی گئی ۔یہ فلپ سب سے بڑا ظالم بادشاہ تھا ۔بالآخر 41 عيسوي ميں روميوں نے ہیرود اعظم کے پوتے ہیرود اگرپا کو پھر سے پورے فلسطین کا گور نر بنا دیا اس کے دور حاكميت میں حضرت عيسي عليه  السلام کے حواريوں ہر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے گئے بس انکا جرم یہ تھا کہ وہ یہودیوں کی اصلاح کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔اس دور میں عام یہودیوں کي حالت يه تھی کہ قرآن فرماتا ہے : یقتلون النبيين بغير حق  انہوں نے حضرت زكريا عليه السلام پر آرا چلا کر شہید کر دیا ۔مگر قوم کی اکتریت نے  اس حركت رزيله کی مذمت نہ کی ۔ویشترون بايتي ثمنا قليلا. تھوڑی سی مال ومتاع بطور رشوت لیکر احكام الهيه کو بدل دیتے اپنی سرشت كي وجه سے 64 عيسوي ميں یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کردی ہیرود اگرپا ثاني اور رومي بادشاه پروکیوریتر فلورس نے اس بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔بالآخر سن 70 عيسوي ميں تائتس( titus)نے ایک لشکر جرار کے ساتھ یروشلم پر حملہ کرکے اسے فتح كر ليا، ایک لاکھ 34 ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا 67 ہزار کو گرفتار کر کے علام بنا لیا گیا ۔ہزاروں یہودی ملک بدر کر دیا گیا ۔ان کی حسين وجميل لڑکیاں رومی فاتحين کے ماتحت كر دي گئیں ۔یروشلم کے شہر اور ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیا اور پھر دو ہزار برس تک فلسطین سے یہودیوں کا اثر و رسوخ اور اقتدار ایسا ختم ہوا کہ دوبارہ واپس نہ ہوا یہ وہ دوسری سزا تھی جو انہیں دی گئی ۔وہ ’’ضربت عليهم الذلة والمسكنة وباؤا بغضب من الله‘‘ کے مستحق هوئے۔یہ تھی بنی اسرائیل کی مختصر تاریخ ۔ان شاءالله ائندہ ہفتہ قیام اسرائیل اور اس کی عہد شكني پر گفتگو کروں گا ۔۔۔

+977 981-1190536

 

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383