Oct 23, 2025 07:50 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
ہجری سال کا تاریخی پس منظر: ازمحمد رمضان امجدی

ہجری سال کا تاریخی پس منظر: ازمحمد رمضان امجدی

26 Jun 2025
1 min read

*ہجری سال کا تاریخی پس منظر*

 از۔ محمد رمضان امجدی ڈائریکٹر تنظیم المکاتب والمساجد ضلع مہراج گنج 

اسلام ایک کامل دین ہے جواپنے ماننے والوں کوصرف مخصوص عقائد ونظریات ہی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ دین اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں دینی اور دنیوی امور کے لیے ایک باضابطہ دستور ہے۔ اسلام جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتا ہے وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ہمارے لیے اصول متعین کیے ہوے ہے۔ مذہب اسلام ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے کہ اس کے پیروکاروں کو اپنے کسی بھی معاملے میں دوسری تہذیب کی طرف تانکنے جھانکنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ اسلام نے ہمیں جہاں سب کچھ عطا کیا ہے وہیں تقویم/ کیلینڈرکے معاملے میں بھی اپنا مہینہ اور سال مقرر کرکے دوسری تقویم کے احتیاج سے آزاد کردیا، اسلام دین فطرت ہونے کے ناطے اپنے اس طرز کو زندگی کے ہر شعبے میں بر قرار رکھاہے، دنوں کے حساب کتاب میں بھی اسی طرز عمل کے تحت اللہ تعالیٰ نے طویل المدت حساب کتاب کےلیے چاند کو معیار قرار دیا ہے، اسلامی کیلنڈر (ہجری) کے افتتاح سے قبل عرب میں مختلف واقعات سے سال کے افتتاح واختتام کو معیار بنایا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے عربوں میں مختلف کیلنڈر رائج تھے اور ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم الحرام سے ہی ہوتی تھی۔ ہجری سن کا آغاز 17 ہجری میں سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا۔ ضرورت اس طرح پیش آئی کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ جنہیں سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے یمن کا گورنر مقرر کیا تھا، ان کے پاس سیدنا عمرفاروق کے فرامین آتے رہتے تھے مگر ان پر تاریخ درج نہیں ہوتی تھی، جس کی وجہ سے بعض اوقات سخت مشکلات پیش آجاتی تھیں، یا درست وقت کا علم نہیں ہوتا تھا، چنانچہ انہوں نے سیدنا عمر فاروق اعظم کی توجہ تاریخ کی طرف مبذول کرائی اور کہا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط جاری کیے جاتے ہیں لیکن ان خطوط میں تاریخ نہیں لکھی جاتی۔ جب کہ تاریخ لکھنے سے فائدہ یہ ہو گا کہ آپ نے حکم کس دن جاری کیا۔ اور کب پہنچا اور کب اس پر عمل ہوا۔ ان تمام باتوں کو سمجھنا تاریخ لکھنے پر منحصر ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بہت مناسب سمجھا اور فوراً اکابر صحابہ کرام کا اجلاس بلایا۔ اس میں مشورہ دینے والے صحابہ کرام کی طرف سے چار قسم کی رائے سامنے آئی۔ اول۔پہلےاکابرصحابہ کی ایک جماعت کی رائے تھی کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔ دوم ۔ دوسری جماعت اس رائے کی حامل تھی کہ اسلامی سال نبوت کے سال سے شروع ہونا چاہیے۔ سوم۔ تیسری جماعت کی رائے تھی کہ ہجرت سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے۔ چہارم۔ چوتھی جماعت کی یہ رائے تھی کہ اسلامی سال کا آغاز حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے ہونا چاہیے۔ ان چاروں قسم کی رائے سامنے آنے کے بعد ان پر باضابطہ بحث ہوئی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ سنایا کہ ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کی ابتدا کرنے میں اختلاف سامنے آ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن کے ساتھ ساتھ آپ کی بعثت کا دن قطعی طور پر اس وقت متعین نہیں بلکہ اس میں اختلاف ہے۔اور وصال سے شروع کرنا بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ وصال کا سال اسلام اور مسلمانوں کے لیے دکھ اور صدمے کا سال ہے۔ اس لیے اسلامی سال کا آغاز ہجرت سے کرنا مناسب ہو گا۔ اس میں چار خوبیاں ہیں۔ اول: حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہجرت نے حق اور باطل کے درمیان واضح فرق کیا۔ دوم: یہی وہ سال ہے جس میں اسلام نے عزت اور طاقت حاصل کی۔ سوم: یہی وہ سال ہے جس میں حضورﷺ اور مسلمانوں نے اللہ کی عبادت امن و سکون کے ساتھ بغیر کسی خوف کے شروع کی۔ چہارم: مسجد نبوی کی بنیاد اسی سال رکھی گئی۔ ان تمام خوبیوں کی بنا پر پر تمام صحابہ کرام کا اتفاق اور اجماع اس بات پر ہوا کہ اسلامی سال کا آغاز ہجرت کے سال ہی سے ہو لہذا اسلامی سال کی ابتداء ہجرت سے ہوئی ۔ ہجری سال کے کیلنڈر کا افتتاح اگرچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا تھا، مگر تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام اور ان کی ترتیب نہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے، بلکہ عرصہ دراز سے چلی آرہی تھی اور ان بارہ مہینوں میں سے حرمت والے چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب) کی تحدید بھی زمانہ قدیم سے چلی آرہی تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشادفرماتا ہے: بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ (سورة التوبہ 36)

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383