Oct 23, 2025 07:40 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
سالِ نو زندگی میں نیا عہد لے کر آتا ہے: افتخار احمد قادری

سالِ نو زندگی میں نیا عہد لے کر آتا ہے: افتخار احمد قادری

26 Jun 2025
1 min read

سالِ نو زندگی میں نیا عہد لے کر آتا ہے

حافظ افتخاراحمدقادری

انسان معمولات کی یکسانیت سے کبھی کبھی گھبرا اٹھتا ہے اور ایسے ایام کی ضرورت محسوس کرتا ہے جس میں وہ روز مرہ کی مصروفیات سے ہٹ کر کھلے ذہن کے ساتھ اپنا کچھ وقت گزار سکے۔ اسی لئے ہر قوم و ملت میں جشن مسرت منانے کے لئے کچھ ایام مقرر ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں تہوار کہا جاتا ہے۔ ہر قوم کا مزاج تہوار منانے میں الگ ہو سکتا ہے لیکن ایک بات سب میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ ہے ”خوشی منانا”۔ دنیا میں جتنے بھی تہوار منائے جاتے ہیں ان میں مذہبی اعتقادات ضرور شامل ہوتے ہیں۔ خود اسلامی تہوار میں بھی مذہبی عنصر کو بہت اہمیت حاصل ہے البتہ اسلام نے دوسری اقوام کے تہواروں کی طرح اپنے اجتماعی خوشی کے ایام کو کسی اہم تاریخی واقعہ یا موسم کے ساتھ نہیں جوڑا بلکہ حال ہی میں انجام دی جانے والی عبادت کے ساتھ مربوط کر دیا تاکہ اس سے یہ سبق حاصل ہو کہ اصل خوشی منانے کا حق تو ان کاموں پر پہنچتا ہے جو حال ہی میں تم نے انجام دیئے ہیں محض ان کارناموں پر نہیں جو تمہارے آباء واجداد نے انجام دیے تھے۔ 

  تاریخ میں نئے سال کا استقبال مختلف تاریخوں میں ہوتا رہا ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں سترہویں صدی میں جنوری سے شروع ہونے والے کلینڈر کو اختیار کیا گیا گویا جنوری کے پہلے دن کو نئے سال کے طور پر منایا جانے لگا۔ یہودی لوگ مخصوص کھانے پکانے کے ساتھ مذہبی تقریبات منعقد کرتے تھے۔ انیسویں صدی کے شروع کی بات ہے کہ برطانیہ کی رائل نیوی کے جوانوں کا زیادہ حصہ بحری سفروں میں گزرتا، وہ لوگ اپنی بوریت دور کرنے کے لئے جہازوں کے اندر اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرتے رہتے، کبھی ایک دوسرے کی سال گرہ مناتے، کبھی کتوں بلیوں کی سال گرہ کرتے، ویک اینڈ مناتے، ایسٹر اور کرسمس کا اہتمام کرتے انہیں تقریبات کے دوران شیطان نے ایک نیا آئیڈیا ان کے ذہن میں ڈالا کہ نئے سال کی آمد پر بھی خوب تفریح ہونی چاہیے۔ 31 دسمبر کو سب ایک جگہ اکٹھے ہوئے خوب شراب پی، رقص کیا اور ٹھیک بارہ بج کر ایک منٹ پرایک دوسرے کو جام پیش کیا اور نئے سال کی مبارکباد دی، یہ نیو ائیر نائٹ کا آغاز تھا. پھر رفتہ رفتہ اس وقت بتیاں گل کرکے حیا سوز افعال کا ارتکاب کرکے مبارکباد دی جانے لگی، آہستہ 

آہستہ یہ رسم ایک جہاز سے دوسرے جہازوں تک پھر وہاں سے ساحل پر اور پھر پوری دنیا اسبے حیائی اور فحاشی کی رسم میں رنگ گئی اور بڑے بڑے شہروں میں فحاشی اور عریانی سے بھرپور تقریبات کا انعقاد ہونے لگا۔ نیو ائیر کی تقریبات نے پوری دنیا کی ثقافت پر گہرے اثر چھوڑے اس کی فحاشی عریانی اور بے حجابی کے جراثیم آہستہ آہستہ نوجوان نسل کی اخلاقیات کو چاٹنے لگے جس سے بے حیائی آوارگی اور جنسی بے راہ روی عام ہوگئی۔ جو کام جائز اور مباح ہیں اسلام نے ان میں بھی غیروں کے ساتھ مشابہت کو ناجائز قرار دیا تو پھر شرعاً عرفاً اور عقلاً جو رسم ناجائز اور حرام ہو اس میں مشابہت مسلمان کے لئے کیسے درست ہو سکتی ہے؟ حضرت ابن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا‘‘۔(ابوداؤد:4031) کفار کے عقائد و عبادات اور ان کے عادات و اطوار میں مشابہت جو کہ ان کی پہچان ہیں کسی طور پر بھی جائز نہیں اس کا نتیجہ بعض اوقات یہ نکلتا ہے کہ ایمان جیسی عظیم اور لازوال نعمت چھن جاتی ہے۔ 

  اسلامی سال مسلمانوں کی زندگی کے لئے سال بھر کے بعد ایک نیا عہد لے کر آتا ہے۔ گزرے ہوئے سال میں جو افراط و تفریط یا فزو گزاشتیں ہوئیں اور ذخیرہ آخرت بہم پہنچانے میں جو کوتاہی ہوئی نئے سال سے مسلمانوں کو اس کی تلافی کی فکر ہونا چاہئے اور زندگی کے اوقات غنیمت سمجھ کر اپنے امکان و مقدور تک نیکیوں کا سرمایہ جمع کرنا چاہئے۔ 

زندگی کے گزرے ہوئے کارنامے کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہم سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئیں تاکہ آئندہ کے لئے ان سے احتیاط رہے۔ اگر ممکن ہو اور کوئی صورت تلافی کی نظر آئے تو عمل میں لانا چاہئے اور آنے والے سال کا استقبال نیکیوں سے کیا جائے۔ مسلمانوں کو یہی تعلیم دی گئی اور اسلام کا یہی درس ہے کہ اس کے ہر ایک وقت کو الله کی طاعت و عبادت میں مشغول کرے اور نئے عہد میں نیکیاں اس کے ساتھ ہوں۔ اسلام نے وحشت، بے تہذیبی، بدمستی، حیوانیت والے حرکات اور غفلت پیدا کرنے والے افعال و کردار سے اپنے عقیدت کشوں کو روکا اور ہر وقتی تغیر کے ساتھ ان کو یادِ خدا، طاعت و عبادت، خیرات و حسنات کی طرف مشغول کیا۔ مسلمان کے سامنے آخرت کا نقشہ ایسا نصب العین کر دیا کہ وہ کسی حال میں اس سے غافل نہ ہو اور اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ یاد الٰہی سے منور رہے اور بندے کی روحانیت مادی تاریکی سے بے نور نہ ہونے پائے۔ جب بچہ دنیا اور صحن عالم میں قدم رکھتا ہے تو سب سے پہلے اس کے کانوں میں کلماتِ حق پہنچائے جاتے ہیں، توحید و رسالت کی شہادتیں اور عبادت کی دعوت اس نئے مہمان کو آتے ہی دی جاتی ہے اور اس طریق عمل سے مسلمانوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مسلمان کا فرزند اپنی حیات کے ابتدائی انفاس سے الله و رسول کی محبت اور ان کی یاد کے ساتھ دنیا میں لیا گیا ہے اور آغوشِ دایہ و پستان مادر سے آشنا ہونے سے قبل بھی اس کو اس کے دین اور اس کے پروردگار کی یاد دلائی گئی ہے۔ جو کام اتنا اہم ہے جو مقصد اتنا ضروری ہے وہ زندگانی اور دوسرے اوقات میں کس طرح فراموش کیا جاسکے گا؟ اس لئے ضروری ہے کہ اس بچہ کی تربیت یادِ الٰہی کے ساتھ ہو اور قدم قدم پر اس کو دین کے درس دیے جائیں۔ کبھی عقیقہ ہوتا ہے، مولود کی آمد کی خوشی میں شکرِ الٰہی بجا لانے کے لئے قربانی دی جاتی ہے، دوست احباب اور اہل حاجت کو حسبِ حیثیت ضیافتیں دی جاتی ہیں، بسم الله کی تقریب ہوتی ہے الغرض ہر مقام پر توجہ الیٰ الله کی رعایت ملحوظ ہے کہیں بھی لغویات اور لہو و لعب کی طرف دین و شریعت نے مشغول نہیں رکھا۔ اسی طرح زندگی کے آنے والے تمام اوقات کو نیکیوں کے لئے محرک اور یادگار بنایا جاتا ہے حتیٰ کہ دن بھر کام کر کے شب کو بستر پر آئے اور آرام کرنے کی نیت کرے تو وقتِ 

خواب جو راحت اور غفلت کا وقت ہوگا اس کا استقبال بھی روح کو زندہ کرنے والی نعمتوں سے کیا جائے۔ ہر آنے والا وقت اور زمانہ کا ہر ایک اہمیت رکھنے والا انقلاب مسلمانوں کے لئے کا محرک بنایا گیا ہے۔ چاند کو گرہن لگے یا سورج کو مسلمان کو طاعت و یادِ الٰہی عبادتِ الٰہی میں مصروف ہونے اور اپنے پروردگار کی بندگی بجا لانے کا حکم ہے۔ اسی طرح اوقات کے تجدید میں سال نَو اہمیت رکھنے والی چیز ہے۔ اس کا استقبال بھی مسلمان طاعات و عبادات، خیرات و حسنات، و ذکر حق و مقبولان بارگاہِ حق سے کرے۔ اس لئے مسلمانوں کا معمول ہے کہ ان ایام میں روزے رکھتے ہیں بکثرت خیراتیں دیتے ہیں، راہِ خدا میں مال صرف کرتے ہیں۔(محرم کے خیرات و حسنات:236) 

  غور کیا جائے تو نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوا اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیوں کہ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سیل سے دی جاتی ہے جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھل ہی جاتی ہے۔ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں صحت اور فراغت‘‘۔(صحیح بخاری: 6412) الله تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور ان کو کبھی زوال نہیں آنا جبکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ جو رب کائنات ان عظیم نعمتوں سے نوازنے والا ہے وہ ان کو کسی وقت بھی چھین سکتا ہے۔ لہٰذا! انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔ قارئین غور فرمائیں کہ جہاں ہم نے جانا ہے وہاں کے لئے ہم نے امسال کیا کچھ جمع کر کے بھیجا تاکہ ہم الله تعالیٰ کے ہاں اس کا بہتر بدلہ اور اجر و ثواب حاصل کر سکیں۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جو نامہ اعمال کل قیامت کے دن ہمارے ہاتھوں میں تھمایا جائے گا اس میں امسال کیا کچھ درج کرایا؟ کیا ہماری اس سال گناہوں کی تعداد زیادہ ہے یا نیکیوں کی؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ قبر کے جس گہرے اور اندھیرے گڑھے میں ہمیں رکھ کر بند کر دیا جائے گا اسے روشن اور آرام دہ بنانے کے لئے کیا کچھ انتظام کر رکھا ہے؟ یاد رکھیں کہ وہاں مال و دولت، بآل اولاد، دنیاوی عزت و شہرت اور زور و طاقت 

الغرض کسی قسم کے خارجی عوامل کام نہیں آئیں گے بلکہ وہاں صرف اور صرف خالصتاً ہمارا داخلی معاملہ ہوگا۔ لہٰذا! اپنے کیے ہوئے اعمال سے ہی قبر اور آخرت کو منور اور آرام دہ بنانا ہوگا۔ ہر شخص غور و فکر کرے کہ میں نے امسال اپنی موت اور قبر کو کتنا یاد کیا؟ قرآن مجید کا کتنا حصہ تلاوت کیا؟ کیا نماز ادا کرنے کے بعد اپناوقت ذکر و اذکار میں صرف کیا؟ کیا امسال تمام نمازیں مکمل طور پر خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیں؟ کیا امسال الله سے اپنے لئے جنت کا سوال اور جہنم کی آگ سے بچنے کے لئے الله سے پناہ کا خواستگاہ ہوا؟ کیا اپنے نفس کی شرارتوں اور گناہوں سے بچنے کے لئے الله کی بارگاہ میں دعا کی؟ کیا امسال ہر اس کام سے کنارہ کش رہا جس سے الله رب العزت ناراض ہوتا ہے؟ کیا امسال اپنے برے دوستوں سے دور رہنے کے بارے میں کچھ غور و فکر کیا کہ ان سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے یا ان کی اصلاح کیسے کی جائے؟ کیا اپنے دل کو تکبر،حسد، بغض، کینے اور ہر قسم کی منافقت سے پاک رکھا؟ کیا اپنی زبان کو چغلی غیبت اور جھوٹ سے محفوط رکھا؟ ہر شخص یہ سوالات اپنے دل سے پوچھے اور محاسبہ کرے اپنے سفر آخرت کے لیے زیادہ سے زیادہ زادِ راہ جمع کرے۔

  ضرورت اس بات کی ہے کہ سال نو کا آغاز غیر شرعی طریقہ پر کرنے سے گریز کیا جائے۔ اس موقع پر جو خلاف شرع کام انجام دیے جاتے ہیں، فضول اور لایعنی امور اختیار کئے جاتے ہیں جو ناشائستگی اور بد اخلاقی کے مظاہرے ہو تے ہیں، عیسائیوں کے طریقہ کے مطابق جو نیو ائیر کا استقبال کیا جاتا ہے، اپنی تہذیب کا مذاق اڑایا جاتا ہے، شور و شغب اور الله کے غضب کو دعوت دینے والی جو حرکتیں کی جاتی ہیں ان تمام چیزوں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات سے اپنی اولاد کو آگاہ کریں اور اسلامی سال نو کا تعارف اور ماہ و سال کی یہ انقلاب انگیز تبدیلی سے حاصل ہونے پیغامات سے واقف کرائیں ورنہ ہماری آنے والی نسلیں دین کی تعلیمات سے بے بہرہ ہوکر عیسائی تہذیب و کلچر کی دلدادہ بن کر مغربی طریقہ زندگی ہی میں کامیابی تصور کر کے پروان چڑھیں گی۔

          iftikharahmadquadri@gmail.com

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383