حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ اور علم و عمل
علم و عمل انسانی زندگی کے دو ستون ہیں، جو ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں۔ علم دل و دماغ کی روشنی ہے اور عمل اس روشنی کا عکس۔ جہاں علم ہو مگر عمل نہ ہو، وہ علم خالی اور بے اثر رہ جاتا ہے؛ اور جہاں صرف عمل ہو مگر علم کی رہنمائی نہ ہو، وہاں عمل اندھا اور غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔ حقیقی کمال اور روحانی ترقی کے لیے دونوں کا امتزاج ضروری ہے، اور یہی فلسفہ حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی زندگی میں جلی صورت میں نظر آتا ہے۔
حضرت خطیب البراہین، صوفی و عالم، رہبر شریعت و پیر طریقت، حضرت علامہ الحاج صوفی نظام الدین مصباحی محدث بستوی رحمۃُ اللہ علیہ، علم و عمل کا ایک زندہ مثال تھے۔ آپ کی ذات میں عقل و عشق، برہان و عرفان، اور نظریہ و عملی زندگی کا حسین امتزاج نمایاں تھا۔ آپ نے علم کو صرف کتابوں یا نصوص تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے دل کی روشنی اور عمل کی توانائی کے ساتھ جوڑ کر ایک کامل اور بامعنی صورت دی۔آپ کے نزدیک علم کی اصل روح صرف معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا اور زندگی میں اس کا عکس پیدا کرنا ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ علم بغیر عمل کے جیسے باغ بغیر پانی کے، زمین بغیر بارش کے، یا چراغ بغیر شمع کے۔ اسی لیے آپ نے اپنی زندگی کو عملی علم کی ایک کتاب بنا دیا، جہاں ہر فعل، ہر عمل اور ہر قول علم کا مظہر اور اخلاق کا آئینہ تھا۔حضرت خطیب البراہین کی زندگی ایک روشن تمثیل
ہے کہ علم اور عمل ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ آپ کے نزدیک شریعت کے احکام اور اصول صرف نظریاتی نہیں بلکہ عملی زندگی میں نافذ ہونے چاہئیں۔ نماز، روزہ، زکات اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ آپ معاشرتی عدل، خدمتِ خلق، اور دوسروں کی بھلائی میں عملی لگن دکھاتے۔ یہ وہ عملی علم تھا جو دل کو پاکیزہ کرتا، معاشرہ کو منظم کرتا، اور روح کو اللہ کے قرب کے لیے تیار کرتا۔
آپ کی شخصیت میں یہ خوبصورتی تھی کہ علم و عمل ایک دوسرے کے ہم آہنگ تھے۔ آپ کا منبر علم کی دلیل سے روشن اور دل کی محبت سے منور ہوتا۔ آپ کے اقوال میں عقل کی روشنی تھی اور اعمال میں روح کی حرارت۔ شاگردوں اور ماننے والوں کے لیے یہ ایک زندہ درس تھا کہ صرف علم حاصل کرنا کافی نہیں، بلکہ اس پر عمل کرنا، دل کو پاکیزہ رکھنا اور ہر عمل میں اخلاص اور محبت پیدا کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
حضرت خطیب البراہین رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات میں علم و عمل کو ایک دوسرے کے مکمل ساتھی کے طور پر پیش کیا۔ آپ فرماتے تھے کہ دل کے علم کی روشنی بغیر عمل کے اندھیری رہ جاتی ہے، اور عمل کے بغیر علم صرف ایک خالی ڈھانچہ ہے۔ اسی فلسفہ نے آپ کے شاگردوں اور پیروکاروں کو یہ سکھایا کہ ہر علم کو اپنی زندگی میں اُتراؤ، ہر نصیحت کو دل میں اتارو، اور ہر حکمِ شریعت کو عملی شکل دو۔ آپ کی زندگی میں خدمتِ خلق، صبر، عدل، اور اخلاص کے رنگ علم کی کرنوں میں جھلکتے تھے۔ یہ وہ عملی تعلیمات تھیں جو نہ صرف انسان کو اخلاقی و روحانی طور پر مضبوط کرتی ہیں بلکہ معاشرے میں انصاف، محبت اور ہمدردی کے بیج بھی بوتی ہیں۔ آپ کے نزدیک علم و عمل ایک دوسرے کے بغیر انسانی کمال اور اللہ کی قربت حاصل نہیں کر سکتے۔
مولانا محمد عباس ازہری مصباحی چیئرمین الازہر ایجوکیشنل سوسائٹی اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن