Oct 23, 2025 07:37 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
خطیب البراہین کی فقہی بصیرت

خطیب البراہین کی فقہی بصیرت

خطیب البراہین کی فقہی بصیرت 

مولانا غلام سید علی علیمی نظامی: 

استاذ -دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی

انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا خالق و مالک کون ہے؟

یہ دونوں  سوالات جتنے اہم ہیں  اس سے کہیں زیادہ مشکل،ایں  و آں  سے لے کر سقراط و بقراط اور ارسطو  جیسے دماغوں میں  بھی  یہ سوال ابھرتے رہے ہیں ، سب اپنے ظرف یا مطلب کے موافق اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے ،مگر اسے ان دماغوں  کی بدنصیبی ہی کہا جا سکتا ہے کہ آج بھی انسان اپنی حقیقت کی تلاش میں  سرگرداں  ہے۔

کسی نے انسان کو حیوان نا طق کہا تو کسی نے عالم اصغر،اور کسی نے تو اس کو بالکل نے حقیقت کہہ دیا...مٹھی بھر ہڈی اور بس...ایک صاحب نے کہا ہے۔

اک مشت استخواں  پر نہ اتنا غرور کر

قبریں  بھری پڑی ہیں عظام رمیم سے

ہو سکتا ہے کہ یہ تمام باتیں  اپنی اپنی جگہ پر درست بھی ہوں  مگرہمیں  تو اس حقیقت پر یقین ہے کہ جو رب شناسی کے سرمایہ گراں  مایہ سے ہم کنار ہو جائے تو وہ خود شناسی کا مرحلہ بھی طے ہی کر لیتا ہے ، رب شناسی کا راستہ خودرب تعالیٰ نے واضح انداز میں  بیان کر دیا ہے۔فرمان خدا وندی ہے:وَالَّذِینَ جَاھَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِین۔ [العنکبوت۶۹]اور جنہوں  نے ہماری راہ میں  کوشش کی ضرور ہم انہیں  اپنے راستے دکھا دیں  گے اور بیشک اللہ نیکوں  کے ساتھ ہے۔ (کنز الایمان)

تفسیر خزائن العرفان میں  صدر الافاضل علامہ نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ اس آیت کے تحت رقم فرماتے ہیں  کہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے فرمایا کہ معنی یہ ہیں  کہ  جنھوں نے  ہماری راہ میں  کوشش کی ہم انہیں  ثواب کی راہ دیں  گے ۔ حضرت جنید نے فرمایا جو توبہ میں  کوشش کریں گے انہیں  اخلاص کی راہ دیں  گے ۔ حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا جو طلبِ علم میں  کوشش کریں  گے انہیں ہم عمل کی راہ دیں  گے ۔ حضرت سعد بن عبداللہ نے فرمایا جو اقامتِ سنّت میں کوشش کریں  گے ہم انہیں  جنّت کی راہ دکھا دیں  گے ۔ 

انسانوں  کی بھیڑ بھاڑ والی اس دنیا میں  ایسے لوگوں موجود رہے ہیں ، اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے، جن لوگوں  نے قرآن پاک کے ذریعہ بتائے گئے طریقہ پر چل کرحق کی تلاش کر لی ہے ،ان لوگوں  کی پہچان یہ ہے کہ وہ دنیا میں  رہ کر بھی دنیا سے بہت دور رہتے ہیں ، ان کے نزدیک دنیا کی حیثیت تنکا بھر سے زیادہ نہیں  ہوتی،دنیا کی آسائشیں  ان کے قدموں میں  دوڑ دوڑ کر آتی ہیں  مگر کیا مجال کہ اللہ والے اس پر ایک نگاہ غلط انداز بھی ڈال لیں  ۔۔۔ان کا ظاہر باطن یکساں ،ان کی خلوت و جلوت برابر،دل کے صاف ،زبان کےپکے، کردار کے دھنی،قلند صفت ،صائم النہار، شب زندہ دار، خشیت الٰہی،خلوص و للہیت اور آہ و گریہ زاری ان قدسی صفات کا شیوہ ہوتا ہے ،حیات ظاہر ی میں  لوگوں کے دل ان کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں اور بعد وفات بھی ایک جہاں  اکتساب فیوض و برکات کے لیے دوڑا چلا آتا ہے۔

رب تعالیٰ ان نفوس قدسیہ کو اس طرح نواز دیتا ہے کہ وہ افق عالم پر آفتاب وماہتاب بن کر چمکتے ہیں ،اپنے اپنے میدان میں  یکتا و یگانہ نظر آتے ہیں ،کچھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ فضل الٰہی کا بارانِ بے حساب ان کے اوپراتنا ٹوٹ کر برستا ہے کہ ہر ہر زاویہ سے طاق ہو جاتے ہیں ،اہل نظرقدرت الٰہی کا اعتراف کرتے ہوئے چیخ اٹھتے ہیں:لیس علی اللہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحد(اللہ کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں  ہے کہ پورے جہان کو فرد واحد میں  جمع کر دے)

ماضی قریب میں  انھیں  عارفین حق میں پیر طریقت ، خطیب البراہین حضرت علامہ صوفی محمد نظام الدین علیہ الرحمہ (وفات یکم جمادی الاول۱۴۳۴ھ مطابق ۱۴؍مارچ۲۰۱۳ء) کی ذات ستودہ صفات گزری ہے،حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ بلا شبہہ ان لوگوں  میں  سے جنھوں  نے کئی وجہوں  سے دنیا کو متاثر کیا ، آپ کے اندر وہ تمام خوبیاں  موجود تھیں جو ایک عارف باللہ کے اندر موجود ہوتی ہیں ،علاوہ ازیں  آپ علم و فضل کے میدان میں  بھی یکتاے روزگار تھے ،علوم نقلیہ وعقلیہ میں  دستگاہ کامل رکھتے تھے ،بالخصوص حدیث ،تفسیر،فقہ اور فضائل و سیر میں  آپ کی خاص دلچسپی تھی جیسا کہ آپ نے ایک انٹرویو میں  اس کا اظہار فرمایاہے،فرماتے ہیں  کہ :

’’یوں تو درس نظامیہ کے جملہ فنون پڑھنے اورپڑھانے کا شوق شروع ہی سے تھا، لیکن تفسیر،حدیث ،فقہ اور فضائل و سیر سے میری دلچسپی زیادہ تھی‘‘۔(محدث بستوی نمبر،سہ ماہی نوری نکات بستی ص۲۲)   علم حدیث و تفسیر میں  آپ کی وسعت نظر کا اندازہ کرنے کے لیے آپ کے خطبات کا مجموعہ بنام ’’خطبات خطیب البراہین ‘‘ ہی کافی ہے ،اس کے علاوہ آپ کی حدیث دانی پر محب گرامی حضرت مولانا کمال احمد علیمی استاذ دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی نے ایک مبسوط مقالہ تحریر کیا ہے ۔یہاں  آپ کی فقہی بصیرت پر کچھ کہنے کی جسارت کی جا رہی ہے اس اعتراف کے ساتھ کہ جو کچھ بھی بیان ہوگا،حضرت کی عبقری شخصیت اس سے سوا ہے،کیوں کہ جس کے علم و فضل کے اعتراف میں حضرت بحر العلوم علیہ الرحمہ جیسی قدآور علمی شخصیت ’’چلتی پھرتی لائبریری‘‘ کہتی ہوئی نظر آئے ،مجھ جیسا مبتدی ان کے علمی مقام کو کیوں  کر متعین کر سکتا ہے۔

اختلاف فقہا پر نظر اور ان کے ما بین تطبیق:

فقہی گیرائی کا اندازہ کسی مسئلہ میں  فقہا کے مابین پائے جانے والے اختلافات اورپھر ان سب کے درمیان تطبیق پر آگہی سے لگایا جا سکتا ہے ،حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی تصنیفات اور افادات دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی نظر ان دونوں  باتوں  پر بڑی ہی وسیع تھی چنانچہ آپ نے ایک جگہ حاشیہ در مختار کے حوالہ سے روزہ کی تعریف میں فقہا کے اختلاف کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :

روزہ مطلقاًامساک یعنی باز رہنے کو کہتے ہیں اور عرف شرع میں  اس کی مختلف تعریفیں  کی گئی ہیں مثلاً ائمہ حنفیہ فرماتے ہیں  کہ امساک مخصوص یعنی مفطرات ثلٰثہ،کھانے ،پینے اور جماع سے صفت مخصوصہ کے ساتھ باز رہنے کا نام روزہ ہے ، ائمہ شافعیہ فرماتے ہیں کہ علی وجہ المخصوص مفطرات سے باز رہنے کا نام روزہ۔مالکیہ فرماتے ہیں  کہ نیت کے ساتھ پیٹ اور فرج کی شہوتوں  سے پورے دن باز رہنے کا نام روزہ ہے اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ اشیاء مخصوصہ سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔اس اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ نے اس کے درمیان ایسی جامع تطبیق دی کہ آپ کی فقہی بصیرت پر طبیعت مچل جاتی ہے،رقم فرماتے ہیں :’’ان سب کا مفاد یہ ہے کہ مسلمان کا بہ نیت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے ،پینے اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے اور عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے۔‘‘(برکاتِ روزہ ص۲۷) رمضان کے روزوں  کے فرض ہونے سے پہلے عاشورا کا روزہ فرض تھا یا مستحب؟ اس میں  بھی فقہاے کرام کا اختلاف ہے،اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت فرماتے ہیں : ’’رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورا کا روزہ فرض تھا یا مستحب۔ اس کے بارے میں فقہاے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔شارح مسلم علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : واختلف العلما ھل کا ن صوم عاشوراء واجباً قبل ایجاب رمضان ام کا ن الامر بہ ندبا ، وجھان لاصحاب الشافعی،اظھرھما لمیکن واجباً و الثانی کان واجباً و بہ قال ابوحنیفۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  (شرح مسلم ص۳۰)

اور علما نے اختلاف کیا، کیا عاشورا کا روزہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے واجب تھا یا مستحب؟ اس میں  اصحابِ شافعی کے دو قول ہیں  اور ان دونوں میں  مشہور قول فرض ہونے کا ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ واجب تھا اور یہی قول امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے (یعنی رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورا کا روزہ واجب تھا)اس کے بعد فیصلہ فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :لیکن رمضان شریف کے روزے فرض ہونے بعد کسی کے نزدیک بھی عاشورا کا روزہ فرض نہیں  رہا،اب سب کے نزدیک سنت ہے،جیسا کہ شارح مسلم علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

اتفق العلما علی ان صوم یوم عاشوراء الیوم سنۃلیس بواجب۔ (شرح صحیح مسلم شریف ص۳۵۷) 

علما نے عاشورا کے دن کے روزے پر اتفاق کیا کہ اب وہ سنت ہے واجب نہیں  ہے۔

صدر الشریعہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ نے نفل روزوں  کی دو قسمیں بیان فرماتے ہوئے عاشوراء کے دن کے روزے کو نفل مسنون سے شمار فرمایا ۔بہارِ شریعت میں  ہے:

نفل دو ہیں  :۔نفل مسنون اور نفل مستحب جیسے عاشورا یعنی دسویں  محرم کا روزہ اور اس کے ساتھ نویں  کا بھی۔(بہار شریعت حصہ ۵ص۹۹) (برکات روزہ ص۹۱)

تائید فقہ حنفی:حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ فقہ حنفی کی تائید بڑے ہی دل پذیر پیراے میں  کرتے ہیں  چنانچہ تراویح کی رکعتوں  کی تعیین میں فقہا ے کرام باہم مختلف ہیں  ، علامہ عینی فرماتے ہیں :’’قد اختلف العلما فی العدد المستحب فی قیام رمضان علیٰ اقوال کثیرۃ فقیل احد و اربعون و قیل ثمان و ثلاثون و قیل ست و ثلاثون و قیل اربع و ثلاثین و قیل ثمان و عشرون و قیل اربع و عشرون و قیل عشرون و قیل ثلاث عشرۃ وقیل احد عشرۃ رکعۃ‘‘(عمدۃ القاری ملخصاً۹؍۲۰۱مطبع مصطفی البابی الحلبی مصر)

علماے کرام نے تراویح کی رکعتوں  کی مستحب تعداد کے بارے میں  اختلاف کیا ہے،اس سلسلے میں  بہت سارے اقوال وارد ہوئے ہیں ،چنانچہ ایک قول کے مطابق نماز تراویح میں  اکتالیس ایک قول کے مطابق اڑتیس ایک کے مطابق چھتیس ایک کے مطابق چونتیس ایک کے مطابق اٹھائیس ایک کے مطابق چوبیس ایک کے مطابق بیس ایک کے مطابق تیرہ اور ایک قول کے مطابق گیارہ رکعتیں  ہیں ۔

احناف کا مذہب یہ ہے کہ نماز تراویح بیس رکعت ہے،حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ مذہب احناف کی تائید میں  بدائع صنائع کی عبارت  پیش فرماتے ہیں ،جس کا ترجمہ آپ ہی کے الفاظ میں  ملاحظہ فرمائیں :

تراویح کی مقدار دس سلاموں  ،پانچ ترویحوں  کے ساتھ بیس رکعت ہے اور ہر دو سلام کے بعد بیٹھنے کو ترویحہ کہتے ہیں ،یہی عامہ علما کا قول ہے، امام مالک کا ایک قول ہے کہ چھتیس(۳۶)رکعت ہے اور ایک قول یہ کہ چھبیس (۲۶)رکعت ہے، البتہ صحیح عامہ علما کا قول ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں  نے رمضان کے مہینہ میں  صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اکٹھا کیا،چنانچہ وہ روزانہ صحابہ کرام کو بیس رکعت پڑھاتے تھے اور صحابہ کرام میں سے کسی نے انکار نہ کیا۔  (بدائع صنائع ج۱؍ص۲۸۸)

اس کے بعد فرماتے ہیں : علامہ کاسانی کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ بیس رکعت پر صحابہ کرام کا اجماع ہو چکا ہے۔ عمدۃ القاری شرح بخاری جلد پنجم صفحہ۳۵۵ پر ہے: قال ابن عبد البر و ھو قول جمھور العلما و بہ قال الکوفیونو الشافعی و اکثر الفقھاء و ھو الصحیح عن ابی بن کعب من غیر خلاف من الصحابۃ۔ علامہ ابن البر نے فرمایا کہ (بیس رکعت) جمہور علما کا قول ہے علماے کوفہ ،امام شافعی اور اکثر فقہا یہی فرماتے ہیں  اور یہی صحیح ہے اور ابی بن کعب سے منقول ہے اور اس میں صحابہ کرام کا اختلاف نہیں  ہے۔مرقات میں  ہے:

اجمع الصحابۃعلیٰ ان التراویح عشرون رکعۃ۔ (ج؍۲ص۱۷۵)صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے۔

شامی میں  ہے:ھی عشرون رکعۃو ھو قول الجمہور و علیہ عمل الناس شرقاً و غرباً ۔(جلد دوم صفحہ۴۹۵ )تراویح بیس رکعت ہے ،یہی جمہور علما کا قول ہے اور شرق و غرب میں  ساری دنیا کے مسلمانوں  کا اسی پر عمل ہے۔ (برکات روزہ ص۱۰۵ ) 

مذاہب اربعہ کے فقہی احکام پر اطلاع:

حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ نہ صرف یہ کہ مسئلہ کاحل حنفی فقہ کی روشنی میں  پیش کرتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے دعوی کی دلیل چاروں  فقہی مذاہب سے فراہم کرتے ہیں ،چنانچہ داڑھی منڈانے کی حرمت سے متعلق تحریر فرماتے ہیں :

ائمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ ،امام شافعی ،امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا متفقہ قول ہے کہ داڑھی منڈایا حرام ہے ،کسی نے بھی داڑھی منڈانے کی ذرہ برابر گنجائش نہیں رکھی ہے۔(داڑھی کی اہمیت ص۲۳)

اس کے بعد ہر ایک مسلک فقہ کی معتمد کتابوں  سے اس دعوی کو ثابت کیا ہے،چنانچہ فقہ حنفی کے لیے در مختار اور کتاب الاثارسے،فقہ حنبلی کے لیے الفقہ علی المذاہب الاربعۃ سے،فقہ شافعی کے لیے شرح الحباب سے،فقہ مالکیہ کے لیے الابداع فی مضار الابتداع سے عبارتیں نقل کیں ۔ (ملاحظہ ہو داڑھی کی اہمیت ص۲۵)

معتمد فقہی کتابوں  سے کثرت حوالہ:

اس باب میں  حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ اپنی مثال آپ ہیں ،آپ کی تصانیف میں حوالوں  کی کثرت کو دیکھتے ہوئے استاذ گرامی حضرت علامہ فروغ احمد اعظمی صاحب قبلہ رقم طراز ہیں :

(آپ کی تصانیف میں )حوالوں  کی اس قدر بھر مار ہے کہ اگر حوالوں  کے درمیان سے ان کی مختصر دل پذیر شرح اور سادہ جامع تبصرہ نکال دیجئے  تو بس حوالے ہی حوالے ہیں ، اصل عربی عبارات کے ساتھ ان کے اردو ترجمے بھی ہیں ۔اس کی وجہ یہ سمجھ میں  آتی ہے کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ کا یہ نظریہ ہے کہ قرآن و حدیث اور بزرگوں  کی باتوں  میں  جو تاثیر ہوتی ہے وہ ایک داعی و خطیب کی اپنی باتوں  میں  نہیں ہوتی۔(سہ ماہی نوری نکات ،محدث بستوی نمبر ص ۳۸) 

آپ کی تصانیف میں  جہاں  جہاں فقہی مسائل کا ذکر ہوا ہے آپ نے اس کو معتمد کتب فقہ کے حوالوں  سے مزین کیا ہے،اس سے آپ کی علم فقہ میں  دقت نظر کے علاوہ استحضار علمی کا پتہ چلتا ہے،اس ضمن میں  دو ایک مثالیں  پیش کی جارہی ہیں ۔

آپ نے داڑھی کی اہمیت کے زیر عنوان ایک مختصر مگر جامع رسالہ تصنیف فرمایا، اصل رسالہ کے کل صفحات ۲۳ ہیں ،اس رسالہ میں  مندرجہ ذیل فقہی حوالے موجود ہیں :بالجملہ !ان تمام شواہد کے پیش نظر ،یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ نہ صرف یہ کہ ایک عظیم مفسر ،محدث ،خطیب ،مدرس اور مرشد برحق تھے بلکہ ایک ماہر فن فقیہ بھی تھے۔

مولانا غلام سید علی علیمی نظامی: استاذ -دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی

 

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383