حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ سیرتِ مصطفی ﷺ کے آئینے میں
بلال احمد بلالی نظامی علیمی
مقیم سعودی عرب بیشا دمام
اللہ ربّ العزت نے انسانیت کی ہدایت کے لیے جو مقدس ترین چراغ روشن فرمایا، وہ نبیِ آخرالزماں حضورسرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایک ایسا بحرِ ناپیدا کنار ہے جس کی گہرائیوں سے ہر دور کے علماء، صلحاء، اور عشاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اپنے ظرف کے مطابق روشنی حاصل کرتے آئے ہیں۔ ہر وہ شخصیت جو سیرتِ نبوی ﷺ کے رنگ میں رنگی جائے، دراصل اسی نورِ محمدی ﷺ کی جھلک ہے۔
انہی منور نفوس قدسیہ میں سے ایک درخشاں ستارہ حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ ہیں جن کی زندگی علم و عمل، گفتار و کردار، اور اخلاص و ایثار کا ایسا حسین امتزاج ہے جو سیرتِ مصطفی ﷺ کی جیتی جاگتی تفسیر نظر آتا ہے۔رسولِ اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ تمام جہات سے کامل ہے۔ قرآنِ مجید نے فرمایا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
"یقیناً تمہارے لیے رسولِ اللہ میں بہترین نمونہ موجود ہے۔" (الأحزاب: 21)
آپ ﷺ کی سیرت کا ہر پہلو عبادت، اخلاق، دعوت، قیادت، اور معاشرت انسانیت کے لیے ایک ابدی ضابطہ ہے۔ یہی سیرت اُن تمام اہلِ دل کا سرمایۂ حیات ہے جنہوں نے اپنے قول و عمل سے امت کو سنتِ نبوی ﷺ کی طرف متوجہ کیا۔
خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ کا لقب ہی ان کے علمی مقام کی ترجمانی کرتا ہے۔ اُن کی خطابت صرف زورِ بیان نہیں، بلکہ علم و حکمت کا دریا ہے۔ جس طرح نبیِ کریم ﷺ نے اپنے خطبات میں ایمان، اخلاق، عدل اور بندگی کے جامع اصول بیان فرمائے، ویسے ہی حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ نے اپنے مواعظ و بیانات میں علم و عرفان کے جواہر بکھیرے
اُن کے خطبات میں قرآن کی روشنی، حدیث کی خوشبو، اور سلفِ صالحین کے افکار کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ وہ محض مقرر نہیں، بلکہ دین کے ترجمان تھے جن کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ دلوں میں اترتے اور روحوں کو جھنجھوڑ دیتے
رسولِ اکرم ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ کے بارے میں حضرت (صحیح مسلم) یہی قرآنی اخلاق حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ کی زندگی میں نمایاں نظر آتا ہے۔ اُن کی گفتگو میں نرمی، رویّے میں حلم، اور تعلقات میں شفقت پائی جاتی تھی۔ اُنہوں نے کبھی کسی پر طنز نہیں کیا، بلکہ محبت سے اصلاح کی اُن کے لبوں پر ہمیشہ تبسم رہتا، جو حضور ﷺ کے سنتی انداز کی یاد دلاتا ہے۔وہ اہلِ علم کے لیے عزت، عوام کے لیے شفقت، اور مخالف کے لیے بھی ادب کا پہلو رکھتے گویا اُن کی ہر ادا میں "خُلقِ محمدی" کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی
نبیِ رحمت ﷺ کی دعوت کا بنیادی اسلوب حکمت، موعظہِ حسنہ، اور حسنِ اخلاق پر قائم تھا
اُدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ
"آپ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔"(النحل: 125)
حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ نے اسی اسلوب کو اپنی دعوت کا محور بنایا۔ اُن کے خطبات میں نہ شدت تھی، نہ تعصب، بلکہ محبت، توازن، اور فہمِ دین کی روشنی تھی۔ اُنہوں نے منبر و محراب سے امت کو ایک ہونے، سنت کو اپنانے، اور رسولِ کریم ﷺ کی محبت کو اپنی زندگی کا مرکز بنانے کی دعوت دی۔
اُن کے خطبات میں زبان کی چاشنی، دل کی سچائی، اور علم کی گہرائی یکجا ہوتی یہی وجہ ہے کہ سامع صرف سنتا نہیں، بلکہ بدل جاتا تھا۔
سیرتِ مصطفی ﷺ کا سب سے روشن پہلو عشق ہے، اور حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ کے وجود کا سب سے نمایاں رنگ بھی یہی تھا۔ اُن کی مجالس میں جب ذکرِ مصطفی ﷺ ہوتا، فضا معطر ہو جاتی۔ اُن کے الفاظ میں وہ لرزش ہوتی جو عاشقِ صادق کے دل سے نکلتی ہے۔
وہ عشقِ رسول ﷺ کو محض نعرے یا جذباتی کیفیت نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے اتباعِ سنت اور اطاعتِ رسول ﷺ کا نام دیتے تھے۔ اُن کے نزدیک محبتِ رسول ﷺ کا حقیقی مفہوم یہ تھا کہ انسان اپنی خواہش کو شریعت کے تابع کر دے۔یہی وہ جذبہ تھا جو اُن کی خطابت کو تاثیر بخشتا، اور اُن کے سننے والے حضور ﷺ کی محبت میں سرشار ہو جاتے۔نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:
خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ
"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔" (بخاری) حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ نے اپنے علم کو عمل کے زیور سے آراستہ کیا۔ وہ صرف بولنے والے نہیں، بلکہ کردار کے مبلغ تھے۔ اُن کی زندگی کا ہر گوشہ دعوت، تعلیم، اور اصلاح سے معمور تھا۔اُنہوں نے نوجوان نسل کو دین سے جوڑنے، مساجد کو علم و کردار کے مراکز بنانے، اور سیرتِ مصطفی ﷺ کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کی دعوت دی۔حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ کی مجلس میں بیٹھنا گویا سیرت کا زندہ درس سننے کے مترادف تھا۔ اُن کے اندازِ بیان میں نہ صرف علم کی گہرائی بلکہ روحانیت کی روشنی ہوتی۔ وہ سامع کے دل کو پہلے نرم کرتے، پھر اس میں عشقِ رسول ﷺ کا بیج بوتے، اور آخر میں عمل کی دعوت دیتے۔
یہی نبوی طرزِ دعوت ہے جو محض الفاظ نہیں، بلکہ دلوں کا انقلاب ہوتا ہے۔آج جب امت فکری انتشار اور اخلاقی زوال کا شکار ہے، حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ کا پیغام ازحد اہمیت رکھتا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ نجات کا راستہ نہ مغرب کی تقلید میں ہے، نہ مادیت کی دوڑ میں، بلکہ صرف اور صرف سیرتِ مصطفی ﷺ کی پیروی میں ہے۔
اُن کی زندگی ایک صدا ہے کہ:
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے دلوں کو سکون ملے، تمہارے گھروں میں رحمت نازل ہو، اور تمہارے اعمال میں برکت آئے تو اپنے محبوب ﷺ کی سنت کو زندہ کرو۔
یوں حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ کی پوری حیات سیرتِ مصطفی ﷺ کی تفسیر و تشریح ہے۔ اُنہوں نے علم میں روشنی، عمل میں اخلاص، اخلاق میں نرمی، اور دعوت میں محبت کا وہ امتزاج پیش کیا جو ہر دور کے داعی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ان کی ذات ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ:سیرت کو پڑھنا کافی نہیں، اسے جینا بھی ضروری ہے
اور سچ یہی ہے کہ حضور خطیبُ البراہین علیہ الرحمہ نے سیرتِ مصطفی ﷺ کو اپنی زندگی میں اس طرح مجسم کیا کہ اُنہیں دیکھ کر لوگ حضور ﷺ کے اخلاق و کردار کی جھلک محسوس کرتے تھے۔
خلاصۂ کلام
وہ خطیب نہیں، ترجمانِ رسالت تھے،وہ واعظ نہیں، سیرت کے آئینے میں حقیقت تھے ان کی ہر بات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور جھلکتا، ان کا ہر قدم سنت کی گواہی دیتا تھا
بلال احمد بلالی نظامی علیمی مہراجگنجوی
مقیم سعودی عرب بیشا دمام