Oct 23, 2025 07:40 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
عورت اور پردہ۔۔۔۔۔(از قلم : مفتی کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی ہند

عورت اور پردہ۔۔۔۔۔(از قلم : مفتی کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی ہند

16 Jun 2025
1 min read

عورت اور پردہ

از قلم : مفتی کمال احمد علیمی نظامی 

دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی

عورت اور پردہ از قلم : کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی لاریب عورت دستِ قدرت کا حسین شاہ کار ہے، اس کے وجود سے کائنات کا وجود ہے،اسی کے دم قدم سے باغِ ہستی میں بہار اور گلستانِ زیست میں نکھار ہے،اس جہان رنگ وبومیں عورت کا وجود اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے،نیک عورت دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے. عورت کی حیثیت معمارِ کائنات کی ہے، اس خاک دان گیتی پر جتنی اہم شخصیات پیدا ہوئیں سب کا وجود عورت ہی کا رہین منت ہے،ایک عورت ہی اپنی آغوش شفقت میں شخصیتوں کی تعمیر کرتی ہے، نبی ہوں یا رسول،اولیاے کاملین ہوں یا رجال صالحین سب اسی عورت کے ایثار کا صدقہ ہیں. دنیا کی سب سے قیمتی پونجی اسی لئے مذہب اسلام نے عورت کو اس دنیا کی سب سے قیمتی پونجی قرار دیا، ارشاد رسول علیہ السلام ہے: " الدنيا متاع، وخير متاع الدنيا: المراة الصالحة(مسلم، باب خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ، رقم الحدیث :١٥٦٧) مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت کا حسنِ حقیقی اس کی صورت میں نہیں بلکہ اس کی سیرت میں پنہاں ہے،اس کے رنگ وروپ کی تابانیاں کھنکتے زیورات میں نہیں بلکہ اس کے اعلی اخلاق وکردار میں پوشیدہ ہیں،عورت کی عصمت وعفت ہی اس کی حیات مستعار کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے، اس کی شرم وحیا ہی اس کا زیور ہے. ترقی معکوس عریانیت اور اخلاقی قدروں کے انحطاط کے اس دور میں عورت ایک بار پھر اسی مقام پر آکر کھڑی ہوگئی ہے جہاں سے اٹھا کر شریعت محمدیہ نے اسے اوج ثریا پر پہنچایاتھا"آزادی نسواں" اور "میرا جسم میری مرضی" کے کھوکھلے نعروں نے عورت کو ایک بار پھر سے ذلت ورسوائی کے اسی دل دل میں ڈال دیا ہے جہاں ان کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے اور جہاں سے انہیں آزادی نہیں بلکہ ذلت کی موت ہاتھ آتی ہے. یورپ نے عورت کو آزادی کے نام پر ننگاکرکے بیچ چوراہے پر کھڑا کردیا ہے، جہاں وہ شہوت پرستوں کی ہوس زدہ نگاہوں سے مجروح ہوتی ہے اور جنس پرستوں کے لیے تفریح کا سامان بنتی ہے، کارپوریٹ ورلڈ اور بزنس کی تاریک دنیا میں عورت کی حیثیت اڈورٹائزنگ کی چڑیا جیسی ہوچکی ہے، جو بس دکھانے کی چیز بن گئی ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.ترقی یافتہ ممالک میں عورت تفریح کا سامان بن چکی ہے، "یوز اینڈ تھرو" اس کا مقدر بن چکا ہے، ناجائز حمل اور اولاد کی کثرت ہوتی جا رہی ہے، طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے،غلط طریقے اسقاط حمل کا سلسلہ جاری ہے، عورت کے دماغ میں حاکمیت کے تصور نے مردوں پالتو کتوں سے بدتر بنا دیا ہے،سچ کہا تھا کسی نے. وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پے تھے روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں اسی چمک دمک والی دنیا اور عورتوں کی الٹی ترقی کو دیکھ کر اکبر الہ آبادی نے کہا تھا : حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بے گانہ تھی اب ہے شمع انجمن پہلے چراغِ خانہ تھی پردے کا قرآنی تصور عورت کا مقام ومرتبہ اس کے خالق حقیقی سے زیادہ کون جان سکتا ہے،اسی لیے اس کی عظمت واہمیت کیحفاظت کے لیے اس کے کریم رب نے اس کے لیے یہ احکام نازل فرمائے : {وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}ترجمہ: اور آپ مؤمن عورتوں کو کہہ دیں کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے، اوراپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے، یا اپنے والد کے، یا اپنے سسر کے، یا اپنے بیٹوں کے یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یا اپنے بھتیجوں کےیا اپنے بھانجوں کے، یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا غلاموں کے، یا ایسے نوکر چاکرمردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جانب توبہ کرو؛ تاکہ تم نجات پا جاؤ! (النور:٣١) ان آیات میں اللہ نے ایک عورت کی عزت نفس اور اس کی جلالت شان کے پیش نظر اسے پردے کا حکم دیا،اس کا مقصد اصلی یہ ہے کہ عورت پردےمیں رہے گی تو اس کا ناموس محفوظ رہے گا اور اس کی عظمت واہمیت باقی رہے گا، پردے میں قید وبند کا کہیں تصور نہیں،اب اگر کوئی احمق اسے پابندی سمجھے تو یہ اس کی جہالت وحماقت کے سوا کچھ نہیں۔ لائق تقلید پردہ والیاں تاریخ اسلام میں صنف نسواں کی عفت و پاک دامنی اور شرم وحیا کی نظیریں دیکھ کر ایمان کو تازگی ملتی ہے،ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا زندگی میں صرف حج فرض کی ادائیگی کے لئے گھر سے سفر پر نکلیں، اس کے بعد آپ سے حج یا عُمرہ کے لیے کہا تو صاف فرمایا : میں فرض حج کر چکی ہوں ،میرے اللہ نے مجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے، خدا کی قسم! اب میرے بجائے میرا جنازہ ہی گھر سے نکلے گا ۔ راوی فرماتے ہیں ، خدا کی قسم! اس کے بعد زندَگی کے آخِر ی سانس تک آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا گھر سے باہَر نہیں نکلیں. (تفسیرِ درّمنثور ج ۶ ص ۵۹۹) حضرتِ سیدہ اُمِّ خلّاد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا، شہید بیٹے کے بارے میں استفسار کے لیے نِقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضِر ہو ئیں، اِس اہتمام پردہ کو دیکھ کرکسی نے حیرت سے کہا : اِس وقْت بھی آپ نے نِقاب ڈال رکھا ہے ! کہنے لگیں : میں نے بیٹاضَرور کھویا ہے ، حیا نہیں کھوئی ۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج۳ ص۹حدیث ۲۴۸۸) اخبار الاخیار میں ایک نصیحت آموز واقعہ موجود ہے: " سَخْت قَحط سالی ہوئی ، لوگوں کی بَہُت دُعاؤں کے باوجود بارِش نہ ہوئی ۔ حضرت سیِّدُنانظام الدین ابوالمؤید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی امیّ جان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَاکے کپڑے کا ایک دھاگہ ہاتھ میں لے کر عرض کی : یاﷲ عَزَّوَجَلَّ! یہ اُس خاتون کے دامن کا دھاگہ ہے جس پر کبھی کسی نامَحْرَم کی نظر نہ پڑی ، میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! اِسی کے صَدقے رَحمت کی بَرکھا برسا دے ! ابھی دُعا ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ رَحمت کے بادَل گھر گئے اور رِم جِھم رِم جِھم بارِش شُروع ہو گئی ۔ (اخبار الاخیارص۲۹۴) پردہ کس عمر میں واجب ہے ایک لڑکی جب بلوغت کی کو پہنچے تو اس پر پردہ واجب ہوجاتا ہے،فتاوٰی رضویہ میں امام اہل سنت، اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :: ’’نو برس سے کم کی لڑکی کو پردہ کی حاجت نہیں اور جب پندرہ برس کی ہو سب غیر محارم سے پردہ واجب ، اور نو سے پندرہ تک اگر آثارِ بُلوغ ظاہِر ہوں تو واجب ، اور نہ ظاہر ہوں تو مُستحب خصوصاََ بارہ برس کے بعد بَہُت مُؤَکَّدکہ یہ زمانہ قُرب ِبُلوغ وکمالِ اِشتِہاکاہے (ج۲۳ ص ۶۳۹) نامناسب لباس پہننے کا حکم نامناسب لباس پہن کر نامحرموں کے سامنے جانا سخت حرام، فتاوٰی رضویہ میں ہے : ’’جو وضْعِ لباس وطریقۂ پَوشِش اب عورات میں رائج ہے کہ کپڑے باریک جن میں سے بدن چمکتا ہے یا سر کے بالوں یا گلے یا بازو یا کلائی یاپیٹ یا پِنڈلی کا کوئی حصّہ کُھلا ہو یوں توسوا خاص مَحارِم کے جن سے نکاح ہمیشہ کو حرام ہے کسی کے سامنے ہونا سخت حرامِ قَطْعی ہے. ‘‘ (فتاوٰی رضویہ غیرمُخَرَّجہ ج۱۰ ص۱۹۶، فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۲۲ ص ۲۱۷ ) بجنے والے زیورات پہننے کا حکم شریعت میں عورت کو ایسے زیورات پہننے سے منع کیا گیا ہے جن کی جھنکار سے نامحرم اس کی طرف متوجہ ہو،چناں چہ فتاوی رضویہ میں ہے : بجنے والا زیور عورت کے لئے اس حالت میں جائز ہے کہ نامحرموں مَثَلاً خالہ ماموں چچا پھوپھی کے بیٹوں ، جَیٹھ ، دَیور ، بہنوئی کے سامنے نہ آتی ہو نہ اس کے زیور کی جھنکار نا محرم تک پہنچے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے : "وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ تَرجَمۂ کنزالایمان : اور اپنا سنگارظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر ۔ ۔ ۔ اِلخ)(پ ۱۸، النور : ۳۱)اور فرماتا ہے :وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ- تَرجَمہ : زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار(پ۱۸، النور : ۳۱ ) فائدہ : یہ آیتِ کریمہ جس طرح نا محرم کو گہنے کی آواز پہنچنا منع فرماتی ہے یونہی جب آواز نہ پہنچے اس کا پہننا عورَتوں کے لئے جائز بتاتی ہے کہ دھمک کر پاؤں رکھنے کو منع فرمایا یعنی عورَتیں گھر کے اندر چلنے پھرنے میں بھی پاؤں اِس قَدَر آہِستہ رکھیں کہ ان کے زَیور کی جَھنکار نہ سُنی جائے ، مسئلہ : اِسی لئے چاہئے کہ عورَتیں باجے دار جھانجھن نہ پہنیں. حدیث شریف میں ہے : اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس قوم کی دُعا نہیں قَبول فرماتا جن کی عورَتیں جھانجھن پہنتی ہوں. (تَفسیرات اَحمدِیہ ص۵۶۵) تو خاص عورَت کی آواز اور اسکی بے پردَگی کیسی مُوجِبِ غَضَبِ الٰہی ہوگی، پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے ( خزائنُ الْعِرفان ، ص ۵۶۶ ) استاذ اور پیر سے پردہ استاذ اور پیر روحانی باپ کی منزل میں ہوتے ہیں مگر حقیقی باپ نہیں ہوتے، اس لیے ان سے بھی پردہ بہت ضروری ہے، اس معاملے میں حد سے زیادہ غفلت برتی جاتی،فتاوٰی رضویہ میں ہے : ’’جو وضْعِ لباس وطریقۂ پَوشِش اب عورات میں رائج ہے کہ کپڑے باریک جن میں سے بدن چمکتا ہے یا سر کے بالوں یا گلے یا بازو یا کلائی یاپیٹ یا پِنڈلی کا کوئی حصّہ کُھلا ہو یوں توسوا خاص مَحارِم کے جن سے نکاح ہمیشہ کو حرام ہے کسی کے سامنے ہونا سخت حرامِ قَطْعی ہے. ‘‘ (فتاوٰی رضویہ غیرمُخَرَّجہ ج۱۰ ص۱۹۶، فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۲۲ ص ۲۱۷ ) ’’ پردہ کے باب میں پِیر وغَیرِپِیر ہر اجنبی کا حکم یکساں ہے(فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص ۲۰۵ )مزید ارشاد ہے : ’’اگر بدن موٹے اور ڈِھیلے کپڑوں سے ڈھکا ہے ، نہ ایسے باریک کہ بدن یا بالوں کی رنگت چمکے نہ ایسے تنگ کہ بدن کی حالت دِکھائیں اور جانا تنہائی میں نہ ہو اورپِیر جوان نہ ہو غَرَض کوئی فتنہ نہ فی الحال ہو نہ اس کا اندیشہ ہو تو علمِ دین اُمُورِ راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ سیکھنے کے لئے جانے اوربُلانے میں کوئی حَرَج نہیں‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص۲۴۰) پردے کے ساتھ مجلس وعظ میں شرکت وعظ نصیحت سننا کار خیر ہے،سوال یہ ہے کہ کیا عورت بھی مجلس وعظ میں جاسکتی ہے،جب کہ شریعت نے نماز جیسی اہم عبادت کے عورت کو مسجد میں جانے سے منع کیا ہے؟ اس تعلق سے فتاوی رضویہ میں ارشاد ہے : ’’ عورَتیں نَمازِمسجِد سے ممنوع ہیں اور واعِظ یا مِیلاد خواں اگر عالِمِ سنُّی صحیحُ الْعَقِیدہ ہو اور اُوسکا وَعظ وبیان صحیح و مطابِقِ شَرع ہو اور جانے میں پوری اِحتیاط اور کامِل پردہ ہو اور کوئی اِحتِمالِ فِتنہ نہ ہو اور مجلسِ رِجال سے دُور ان کی نِشَسْت ہو تو حَرَج نہیں‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص ۲۳۹) پردے کے ساتھ نوکری کا حکم آج کل مردوں کی طرح عورتیں بھی ملازمت پیشہ ہوچکی ہیں، بہت سارے گھروں میں عورتیں سرکاری دفاتر اور پرائیویٹ آفسوں میں ملازمت کرتی ہیں،عام طور سے ایسی جگہوں پر پردے کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے، جب کہ ایک عورت کو بلا ضرورت بغیر پردے کے گھر باہر نکلنے اجازت نہیں،تو کیا کچھ شرطوں کے ساتھ عورت ملازمت کرسکتی ہے، اس حوالے سے فتاوی رضویہ میں یہ ارشاد موجود ہے :’’ یہاں (جواز ملازمت کے لئے) پانچ شرطیں ہیں (١)کپڑے باریک نہ ہوں جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ سِتْر کا کوئی حصّہ چمکے (٢) کپڑے تنگ وچُست نہ ہوں جو بدن کی ہَیْئات ظاہِرکریں (٣)بالوں یا گلے یا پیٹ یاکلائی یا پنڈلی کا کوئی حصّہ ظاہِر نہ ہوتا ہو(٤) کبھی نامَحْرَمکے ساتھ خَفیف دیر کے لئے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو(٥)اُس کے وہاں رہنے یا باہَر آنے جانے میں کوئی مَظِنَّۂِ فِتنہ نہ ہو، یہ پانچوں شرطیں اگر جَمْع ہیں توحَرَج نہیں اور ان میں ایک بھی کم ہے تو(گھر سے باہر نکل کر نوکری کرنا) حرام‘‘ ۔ (فتاوی رضویہ ج۲۲ ص ۲۴۸) بہر حال عصمت وعفت، شرم وحیااور پردہ ایک خاتون کی سب بڑی پونجی ہے، اس لیے اس پر لازم ہے کہ اپنی اس کمائی کی حفاظت کرے اور کبھی بھی بے پردگی کرکے اپنے رب کو ناراض نہ کرے.

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383