*مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی چند حیاتی جھلکیاں*
ـــــــ ـــــــــــ ــــــــ ـــــــ
گورا مکھڑا جلوے جس پر آ آ کر پھر جاتے ہیں ۔
آؤ تم کو بھی ہم صورت ایک ایسی دکھاتے ہیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دنیا کی تاریخ میں کچھ ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جو نہ صرف اپنے وقت کے لیے، بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی ایک روشن چراغ اور ہدایت کا منار بن جاتی ہیں۔ وہ صرف عالم نہیں ہوتے، بلکہ علم کے سمندر، فقط مفتی نہیں، بلکہ فقہ و فتویٰ کے سلطان، وہ صرف عاشقِ رسول ﷺ نہیں، بلکہ ناموسِ رسالت ﷺ کے جاں نثار سپاہی ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک عظیم الشان باوقار اور بے باک شخصیت کا نام ہے: وارث علوم اعلیٰ حضرت آبروے اہل سنت شہزاد اعلیٰ حضرت حضرت علامہ مفتی محمد مصطفیٰ رضا خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ، جو *مفتی اعظم ہند* کے لقب سے مشہور و معروف ہوئے۔
یہ وہ مردِ مجاہد تھے جنہوں نے اپنے قلم سے باطل کے قلعے قمع کردیے، اپنی زبان سے بدعت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا، اور اپنے فتاویٰ سے دین پر لگنے والی ہر فتنہ پرست ضرب کو روک دیا۔حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ 22 ذی الحجہ 1310ھ بروز جمعہ صبح صادق کے وقت بریلی شریف میں پیدا ہوئے ۔
آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ کے چھوٹے فرزندِ ارجمند تھے۔ علم، تقویٰ، عشقِ رسول ﷺ، فہمِ دین، غیرتِ ایمانی، فقہی بصیرت اور باطل شکن جلال، سب آپ کو وراثت میں ملا۔ کم سِنِی میں ہی علومِ دینیہ میں مہارت حاصل کر لی، اور اپنے والد ماجد کے فیض سے سیراب ہو کر فقہ و فتاویٰ کے آسمان پر سورج بن کر چمکے۔
آپ کے فتاویٰ میں دین کی غیرت، شریعت کی روشنی اور عقیدۂ اہلِ سنت کی سختی نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ نے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں فتاویٰ تحریر کیے جن میں توحید و رسالت، طہارت و عبادات، عقائد و اعمال اور فرق باطلہ کی تردید کے جلالی پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جنھیں آپ فتاویٰ مصطفویہ میں پڑھ کر ضرور اپنے ایمان و عقیدہ کو جلا بخش سکتے ہیں
آپ کا فتویٰ صرف تحریر نہیں ہوتا تھا، وہ تو باطل پر عتاب، منافق پر عذاب، اور اہلِ سنت کے لیے نصاب ہوتا تھا۔
آپ نے وہابی، دیوبندی، قادیانی، نیچری، روافض، اور ہر باطل فرقے پر واضح، قطعی اور سخت الفاظ میں فتاویٰ جاری کیے۔ آپ کے نزدیک: *جو رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس پر زبان درازی کرے، وہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو، کافر، مرتد اور واجب القتل ہے*آپ نے فرمایا:"بد عقیدہ لوگوں سے میل جول رکھنا گویا دین سے خیانت ہے"۔
آپ بظاہر سخت گیر، مگر دل میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا ایسا سمندر موجزن تھا کہ آپ کی ہر بات، ہر دعا، ہر فتویٰ اسی عشق کی خوشبو سے معطر ہوتی۔ آپ نے ہمیشہ دین پر سمجھوتہ کرنے والوں کو للکارا، اور فرمایا: *سچائی کی راہ میں دشمنوں کی پرواہ کرنا کمزوری ہے اور کمزوری ایمان کے منافی*۔
آپ نے 13 محرم الحرام 1402ھ کا دن گزار کر شب کو 45 :01 پر اس دارِ فانی کو خیرآباد کہا، مگر آپ کی قبر آج بھی اہلِ حق کے لیے مرکزِ فیضان، اور اہلِ باطل کے لیے شمشیرِ برہنہ ہے۔
آپ کے چند مشاہیر خلفائے کرام میں:
•مفسر اعظم مفتی محمد ابرہیم رضا جیلانی میاں (والد گرامی تاج الشریعہ ) •خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی
•مفتی خلیل احمد خان برکاتی
•مرشدِ گرامی حضور تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان ازہری میاں • حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری وغیرھم رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سر فہرست ہیں۔
المختصر مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ صرف ایک فقیہ نہیں تھے، بلکہ ایک تحریک، ایک مجاہد، ایک عظیم رہنما، اور اہل سنت کے قلعے کے محافظ تھے۔ آج اگر ہم دین کی روشنی میں سانس لے رہے ہیں تو ان جیسی ہستیوں کی قربانی، جرأت اور فکری بلندی کی بدولت۔
ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلیں، دین کے معاملے میں مداہنت نہ کریں، باطل فرقوں سے اعلانِ برأت کریں، اور عشقِ رسول ﷺ کے قافلے میں شامل ہو کر حق کا عَلَم بلند رکھیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
✍🏻 عبد اللطیف رضوی علیمی