امین شریعت مختصر تعارف
از:عبد الحکیم علیمی خلیل آبادی
علامہ سبطین رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
آپ کا شجرہ نسب کچھ اس طرح ہے.
علامہ سبطین رضا خان بن علامہ حسنین رضا خان بن علامہ حسن رضا خان بن علامہ نقی علی خان بن علامہ رضا علی خان
ولادت اور تعلیم
آپکی پیدائش بریلی شریف کے مشہور عالم محلہ، محلہ سوداگران میں ٢ نومبر ١٩٢٧ کو ہوئی بچپن ناز و نعم کے سایہ میں گزرا ننھی سی عمر میں رسم بسم اللہ خوانی کی تقریب آپ کے ماموں مولانا عبد الھادی خان صاحب کے مکان میں منعقد ہوئی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی حضور مفتی اعظم ہند کے سسر محترم ماہر علم فرائض حضرت علامہ محمد رضا خان صاحب کے ذریعے ہوئی ابتدائی تعلیم کے بعد اعلی تعلیم کے لئے حضور مفتی اعظم ہند کے مدرسہ دارالعلوم مظہر اسلام مسجد بی بی، محلہ بہاری پور بریلی شریف میں داخلہ کرایا گیا جہاں آپ نے جملہ کتب متداولہ کی تعلیم حاصل کی، علم طب کی تعلیم کے لئے رفیق درس مولانا فیضان علی صاحب کے ساتھ علی گڑھ گیے اور اس فن کے لولو و مرجان سے دامن سجایا
اساتذہ کرام
جن اساتذہ سے آپ نے تعلیم حاصل کی وہ آسمان علم و فضل کے ایسے مہ و خورشید تھے کہ جن کی ضیا بار کرنوں نے شرق و غرب کی فضائے بسیط
کو جگمگا رکھا تھا چند کے مبارک اسماء یہ ہیں
استاد گرامی حضرت علامہ حسنین رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (والد بزرگوار)حضرت علامہ امجد علی رحمۃاللہ علیہ (مصنف بہار شریعت)
شیخ المحدثین حضرت علامہ سردار احمد خان صاحب
شمس العلماء علامہ قاضی شمس الدین احمد جونپوری
شیخ الادب علامہ غلام جیلانی صاحب دبیر العلماء حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی صاحب بحر العلوم حضرت مولانا ظہیر الدین زیدی (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)وقار العلم حضرت وقار الدین صاحب حضرت علامہ غلام یاسین صاحب انکے علاوہ حضور مفتی اعظم ہند نے بھی اپنے علمی و روحانی فیوضات سے
نوازا اور خوب نوازا
شادی خانہ آبادی
مفتی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ
مفتی عبد الرشید خان صاحب کی دختر نیک اختر سے شریعت مطہرہ کے احکامات و تجلیات کے سائے میں ہوئی اس نیک بزم میں خاص بات یہ رہی کہ اس میں مفتی اعظم ہند کی موجودگی میں مفتی مالوہ حضرت مفتی رضوان الرحمن صاحب نے پڑھائی آپ کی سات اولادیں ہوئیں جن میں دو شہزادے (حضرت علامہ و مولانا سلمان رضا خان صاحب و نعمان رضا خان صاحب) اور تین شہزادیاں ہیں
بیعت و خلافت
بچپن ہی میں آپ کے والد ماجد نے آپ کو مفتی اعظم ہند کے دامن کرم سے وابستہ کرایا جب کہ حضرت مولانا حسنین رضا خان صاحب خود ایک جید عالم دین حضور اعلیٰ حضرت کے خلیفہ و مرید تھے
درس و تدریس
دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف
مدرسہ اشاعت الاسلام ہلوانی
جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور میں ناظم اعلی مقرر ہوئے اور تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے بحیثیت ناظم اعلی آپ مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے تقریباً دس سال کے تجربہ کے بعد چھتیس گڑھ کے ناہموار دینی فضا سے بے خطر گزرنا آسان نہیں تھا لیکن حضور مفتی اعظم ہند نے گزار کر انوار شریعت سے ظلمت کدہ دہر کو روشن کرنے کا حوصلہ دیا اور اپنے پیچھے گزرنے والوں کے لیے حالات کے ہر ندی نالے کو عبور کرنے کا ہنر بخش دیا انھیں تجلیات قدوم کے سہارے تقریباً نصف صدی تک ہر نشیب و فراز سے متبسم گزرتے رہے اپنے تصور میں حضور مفتی اعظم ہند کا سراپا بسا جما کر کیا گل اور کیا خار، کیا خزاں کیا بہار بس گزرتے رہے پھر تو برکات نوری کی وہ بارش ہوئی کہ چھتیس گڑھ کا شہر ہی نہیں گاؤں گاؤں ضیائے بریلی میں ڈوب گیا میں یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہوں کہ اس وقت پورے چھتیس گڑھ کا ماضی اپنے حال پر مسرور و ساماں ہے
وصال پر ملال
26محرم الحرام 1437 ہجری مطابق 9 نومبر 2015 بروز پیر اس دنیائے فانی سے کوچ فرمائے آپ کی نماز جنازہ قاضی القضاۃ فی الھند حضرت علامہ مفتی اختر رضا خان ازہری علیہ الرحمۃ نے پڑھائی خلق کثیر نے آپ کے جنازہ میں شرکت فرمائی آپ کا مزار پر انوار شہر محبت بریلی شریف میں ہے