حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ اور تحفظِ عقائد اہل سنت
مرتضی حسین نظامی آتش بستوی
بانی و مہتمم دارالعلوم فیضان مصطفیٰ گلشن چوک بلجیت نگر نگر نئی دہلی
ومقام و پوسٹ اوجھا گنج بستیعقیدہ دراصل ایمان کا ستون ہے، روحِ دین ہے، اور وہ بنیاد ہے جس پر شریعت و طریقت دونوں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر عقیدہ سلامت رہے تو عبادت میں لذت، عمل میں اخلاص، اور دل میں نور پیدا ہوتا ہے، لیکن اگر عقیدہ میں لغزش آ جائے تو انسان کے تمام اعمال اپنی تاثیر کھو بیٹھتے ہیں۔ اسی لیے اہلِ حق نے ہر دور میں سب سے زیادہ توجہ ایمان اور عقائد کے تحفظ پر دی۔ یہ وہی مقدس فریضہ ہے جسے انبیا و مرسلین علیہم السلام نے اپنی بعثت کا محور بنایا، اور جسے اولیا و علما نے اپنی زندگیاں قربان کر کے محفوظ رکھا۔ انہی برگزیدہ ہستیوں میں ایک روشن نام حضرت علامہ صوفی نظام الدین مصباحی محدث بستوی رحمۃُ اللہ علیہ، المعروف بہ “خطیب البراہین ” کا ہے، جنہوں نے علم و عمل، فکر و عرفان، اور شریعت و طریقت کے حسین امتزاج کے ساتھ عقائدِ اہلِ سنت کی حفاظت و ترویج کا بے مثال کردار ادا کیا۔
حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی ذات علم کی گہرائی، ایمان کی حرارت، اور عشقِ رسول ﷺ کی روشنی کا حسین سنگم تھی۔ آپ نے اپنی علمی و روحانی زندگی کا محور ہمیشہ تحفظِ عقیدہ بنایا۔ آپ کا ایمان تھا کہ عقیدہ وہ چراغ ہے جو دل میں روشن ہو تو انسان کی پوری زندگی نور بن جاتی ہے، اور اگر وہ چراغ بجھ جائے تو عبادت و طاعت سب اندھیروں میں گم ہو جاتی ہیں۔ آپ علمِ عقیدہ کو محض علمی بحث یا مناظرے کا میدان نہیں بلکہ دل کی طہارت اور باطن کی روشنی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ “عقیدہ وہ ایمان ہے جو صرف زبان سے نہیں بلکہ دل کی گہرائی سے مانا جائے، جس پر شک کا سایہ نہ پڑے، اور جو انسان کی زندگی کا رخ بدل دے۔”
آپ نے عقائد کے تحفظ کا جو اسلوب اپنایا وہ علم و محبت کا حسین امتزاج تھا۔ آپ نے کبھی شدت یا سختی سے نہیں بلکہ علم و دلیل اور شفقت و بصیرت سے دلوں کو قائل کیا۔ جب کبھی کوئی گمراہ فرقے کا شخص یا شبہات میں گرفتار نوجوان آپ کے پاس آتا، تو آپ اسے بحث کے میدان میں نہیں گھسیٹتے بلکہ محبت سے بات کرتے، دلائل سے سمجھاتے، اور اس کے ذہن و قلب کو علم و عرفان کے نور سے روشن کر دیتے۔ یہی وہ اخلاقی توازن اور علمی وقار تھا جس نے آپ کو صرف ایک خطیب نہیں بلکہ خطیب البراہین بنا دیا — یعنی وہ خطیب جس کی باتیں خود دلیل بن جائیں اور جس کے الفاظ سے ایمان تازہ ہو جائے۔حضرت خطیب البراہین رحمہ اللہ کے دور میں دین و عقیدہ پر کئی فکری طوفان اٹھے۔ کہیں جدیدیت کے نام پر اسلام کی تعبیر بدلنے کی کوشش ہوئی، کہیں
صوفیت کی روح کو مغالطوں میں الجھایا گیا، اور کہیں ایمان و عقیدہ کو محض منطق و فلسفے کی نذر کر دیا گیا۔ لیکن آپ نے ہر فتنے کے سامنے علم و حلم کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ نے واضح فرمایا کہ اہلِ سنت کا عقیدہ وہی ہے جو قرآن و سنت اور اسلافِ صالحین کے فہم سے ماخوذ ہے، اور جو رسولِ اکرم ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین و اولیائے کاملین کے طریق پر قائم ہے۔ آپ نے منبروں اور درس گاہوں سے وہ صدائے حق بلند کی جس نے سینکڑوں دلوں کو عقیدے کی روشنی سے منور کیا اور ان کے ایمان کو استقامت بخشی۔
آپ کے ہاں علمِ عقیدہ محض نظری بحث نہیں بلکہ عملی شعور تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ “عقیدہ اگر صرف کتابوں میں بند ہو جائے تو زندہ نہیں رہتا، اس کا حقیقی وجود اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب انسان کا کردار اس کی تصدیق کرے۔” یہی وجہ تھی کہ آپ کی پوری زندگی ایک زندہ عقیدے کی عملی تفسیر تھی۔ آپ کے قول و فعل، گفتار و کردار، اور علم و اخلاق میں عقیدہ اہلِ سنت کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔ آپ نے نہ صرف عقائد کی تعلیم دی بلکہ ان کو اخلاق و عمل کے سانچے میں ڈھالا، تاکہ ایمان صرف زبان کا اقرار نہ رہے بلکہ دل و کردار کی حقیقت بن جائے۔ آپ کا ایک نمایاں وصف یہ تھا کہ آپ نے علم و عشق کو کبھی جدا نہ ہونے دیا۔ آپ کے نزدیک جس علم میں عشق نہ ہو وہ خشک ہے، اور جس عشق میں علم نہ ہو وہ بے راہ۔ آپ فرماتے تھے کہ “اہلِ سنت کا راستہ علم و عشق کا ملاپ ہے، جہاں عقل رہنمائی کرتی ہے اور عشق یقین عطا کرتا ہے۔” یہی وہ نظری توازن تھا جو آپ کے عقائدی بیانیے کو سختی سے محفوظ اور روحانیت سے معطر رکھتا تھا۔
حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ نے اپنی تقریروں، تحریروں اور تعلیمات کے ذریعے نہ صرف اہلِ سنت کے بنیادی عقائد جیسے توحید، ختمِ نبوت، رسالت، شفاعت، اولیاء کی کرامات اور عشقِ رسول ﷺ کو دلائل کے ساتھ مضبوط کیا بلکہ ان پر پیدا ہونے والے تمام جدید و قدیم اعتراضات کا مدلل جواب دیا۔ آپ کا انداز ہمیشہ تحقیقی بھی ہوتا اور روحانی بھی۔ آپ کا ہر بیان گویا ایک درسِ عقیدہ ہوتا جس میں عقل کی روشنی بھی ہوتی اور دل کی حرارت بھی۔ آپ نے نسلِ نو کو یہ سبق دیا کہ عقیدہ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ زندگی کی بنیاد ہے، جو انسان کو باطنی سکون ، فکری وضاحت اور روحانی بلندی عطا کرتی ہے۔
آپ کا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے عقائد کی حفاظت کو خانقاہی ماحول تک محدود نہ رکھا بلکہ اسے عوامی شعور کا حصہ بنایا۔ آپ نے مساجد و مدارس میں، جلسوں و محافل میں، اور ہر پلیٹ فارم پر اہلِ سنت کے عقیدے کی روشنی پھیلائی۔ آپ نے شاگردوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ خود اپنے وقت کے عقائدی مجاہد بن گئے۔ آج بھی آپ کے تربیت یافتہ علما اور مریدین علم و عقیدہ کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں، اور آپ کی فکر کو زمانے میں دوام بخش رہے ہیں۔
حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی حیاتِ مبارکہ اہلِ ایمان کے لیے یہ واضح پیغام رکھتی ہے کہ عقیدہ اسلام کی جان ہے، اور اس کے تحفظ کے لیے علم، عمل، اخلاص، اور محبت کے ہتھیار
ضروری ہیں۔ آپ نے اپنے کردار سے ثابت کیا کہ دل کی طہارت، زبان کی صداقت، اور عقل کی بصیرت کے بغیر عقیدہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ آپ نے علم کے ذریعے عقل کو مطمئن کیا، عشق کے ذریعے دل کو روشن کیا، اور عمل کے ذریعے عقیدہ کو زندگی میں اتارا۔ یہی وہ کامل توازن تھا جس نے آپ کو اپنے عہد کا محافظِ عقیدہ بنا دیا۔
آپ کے بعد بھی آپ کی تعلیمات زندہ ہیں، آپ کا پیغام گونج رہا ہے، اور آپ کی دعائیں اہلِ سنت کے ایمان کو مضبوطی عطا کر رہی ہیں۔ آپ نے جو
چراغ جلایا، وہ صرف ایک زمانے کے لیے نہیں بلکہ ہر اس دل کے لیے ہے جو ایمان کی سچائی اور عشقِ رسول ﷺ کی حرارت سے منور ہونا چاہتا ہے۔(مولانا) مرتضی حسین نظامی آتش بستوی بانی و مہتمم دارالعلوم فیضان مصطفیٰ گلشن چوک بلجیت نگر نگر نئی دہلی
ومقام و پوسٹ اوجھا گنج بستی