انجم العلما بحیثیت مفسر قرآن
مفتی محمد شمس القمر فیضی
نزول قرآن کے اسباب و علل کچھ بھی ہوں مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ قرآن پوری دنیا کے لیے ہدایت اور اچھی راہ دکھانے کے لیے اترا اور اس کے حقیقی مفہوم کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی جان نہ سکا، البتہ اپ کے وہ صحابہ جو ہمہ وقت حاضر باش ہوتے تھے ان میں سے سب نہیں بعض کو قرآن کا ایسا علم تھا جن کے لیے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چار ادمی سے قران سیکھو حضرت عبداللہ ابن مسعود ابی ابن کعب معاذ ابن جبل سالم مولا ابو حذیفہ ۔
تمام صحابہ کرام قرآن پڑھتے تھے مگر ان میں سے بعض ہی نے قران کی تفسیر کی ہے کیونکہ تفسیر کے لیے جس زبان میں تفسیر ہو اس کا ادب اور زبان و بیان پر کامل عبور ہونا لازم ہوتا ہے، اسی لیے بعض حضرات صحابہ ہی سے تفسیر قرآن مروی ہے، جب کی وہ خود عربی تھے اور زبان بھی عربی تھی اس کے باوجود وہ خود لفظی محاورات و استعملاات کنایات، دلالات اور تاویلات سے بخوبی واقف تھے پھر بھی بعض موقع ایسے ائے ہیں کہ صحابہ کو اس کی مراد صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کرنا پڑا، جیسے
لم یپبثوا ایمانھم بظلم
اور ایسے ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ نے الحساب البسیر کے بارے میں دریافت کیا اور ایسے ہی قصے عادی ہیں جن لوگوں نے خیط الابیض والاسواد کے بارے میں معلوم کیا تھا ، اس کے علاؤہ بہت ساری نظیریں ہیں کہ صحابہ ان کے معانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کرتے تھے ، اس سے صاف ظاہر ہے جو عربی ہے اس کے لیے قرآن کی تفسیر کرنا کتنا دشوار ہے ، تفسیر نگاری کے لیے مفسر کو جن علوم کا جامع ہونا ضروری ہے ان میں سب سے پہلے یہ ہے کہ قران پاک کا مکمل مطالعہ ہو اور احادیث مبارکہ کا استحضار ہو، آثار صحابہ پر گہری نظر ہو، معرفت اسباب نزول قرآن ہو، لغات و محاورات عربی پر دستگاہ ہو، ایات ناسخہ منسوخہ کا علم ہو، محکم و متشابہ، مکی و مدنی کی بخوبی معرفت ہو، اسلام کے عقائد اور اصول دین کی بصیرت ہو، فقہ اصول فقہ معانی و بیان، علم ادب نحو اور صرف سے مکمل ممارست ہو ان تمام علوم کا جو جامعہ ہواسے تفسیر قران کا حق ہے اسی کو مفسر قران کہا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی نور اللہ مرقدہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براوں شریف نے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل قران کی تفسیر کی ہے ۔جو ماہناہ فیض الرسول میں شائع ہو کر امت مسلمہ کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ بنتی ہیں، مفسر قران علامہ انجم عثمانی رحمہ اللہ مرقدہ کی تفسیر سے عیاں ہے کہ ان میں وہ تمام اوصاف جمع ہیں جو صرف کسی معتمد و جامع تفسیر کا ہی حصہ ہو سکتا ہے، اور کیوں نہ ہو علامہ انجم عثمانی نور اللہ مرقدہ علمی میدان کے ہمہ جہت شہسوار تھے، علم حدیث،اصول حدیث،تفسیر و اصول تفسیر قرض غرض یہ کہ ہر فن مولا تھے،
ایک مفسر کے لیے جن علوم و فنون کا جامع ہونا چاہیے وہ ساری چیزیں علامہ موصوف علیہ رحمہ کی تفسیر میں جابجا نمایاں ہیں
علامہ موصف علیہ رحمہ کبھی قرآن کی تفسیر قران سے کرتے کبھی حدیث شریف سے کرتے اور کبھی اثار صحابہ سے تفسیر کرتے اور قران کی تفسیر دیگر کتب سماویہ سے کرتے اور کبھی اسباب نزول سے کرتے ہیں، علامہ کے اسلوب تفسیر میں ایک خوبی یہ تھی کہ مفردات قرآن کی اولا تشریح فرماتے اور مفاہیم قرآن کو مثالوں سے واضح کرتے اور مطالب قرآن کو دلائل و شواہد سے مبرہن فرماتے مکی و مدنی آیات کی نشادہی فرماتے، ناسخ و منسوخ وضاحت کرتے، قران پاک کی امثال وغیرہ کی نفیس توضیح کرتے، متعارض آیات میں تدبیر کا کامل مادہ تھا،اور بسااوقات قرآن و حدیث متعارض ہوں تو بہترین تطبیق فرماتے اقوال مفسرین میں ترجیح و تطبیق دیتے آیات سے حسن استنباط کا ملکہ تھا، اردو تفسیر میں نہایت فصیح زبان استعمال فرماتے تھے اور ترجمہ تفسیر سے حسن ارتباط بھی پیش فرماتے تھے۔
نبی اخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء اور ان کی امتوں کے واقعات اور قصص کو نہایت اسان لفظوں میں بیان فرماتے اس کے علاوہ عام معلومات کا خزانہ اپ کی تفسیر ہوا کرتی تھی۔
علامہ موصوف علیہ الرحمہ کا ہمیشہ نظریہ ہوا کرتا تھا کہ دین معارف اور حقیقی و یقینی علوم سی قوم کو روشناس کرائیں
اور حقیقت ہے کہ معارف دینیہ علوم یقینی قران ہی ہے اس کی شان سب سے بلند و بالا ہے اس کے دلائل سب سےمضبوط ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے بھی اس میں خوب خامہ فرسائیاں کی ہیں اور جس قدر ہوسکا انتھک کوششوں و کاوشوں کے ساتھ خوب تحقیق فرمائی اور ان حضرات نے اس میں بہت سے علوم وضع کیے ۔
اس کے اصول و فروع مقرر کیا اور اس میں جہاں تک شاخیں نکل سکتی تھیں
ان کو بیان کیا اور ان کے لیے کتاب مدون فرمائی خدام علوم قرانیہ میں سے بعض وہ تھے جنہوں نے اس میں موجودپوشیدہ دلائل عقلیہ اور شواہد اصلیہ کی جستجو فرمائی کیونکہ قران سرچشمہ علم و حکمت ہے، جنہوں نے حروف قرآنیہ کے لغات کو اپنا مقصد بنایا تاکہ ہر لفظ فا اور عین کلمہ محفوظ ہو جائے اور انجان لوگوں کے دستبردار سے بچا رہے تو انہوں نے اس کا نام علم اللغت رکھا ،پھر وہ طبقہ جو الفاظ کے معانی ماضی و مضارع یعنی زمانہ ماضی و حال اورمستقبل کی حیثیت سے مستعمل ہوتے ہیں اس پر غور کیا تو انہوں نے اس کا نام علم الصرف رکھا اور جنہوں نے الفاظ قرانیہ میں معرب و مبنی کی نشادہی پر غور کیا اور آیت کریمہ میں مختلف کلمات کے احوال بیان کیے تو انہوں نے اس کا نام علم النحو رکھا اور جنہوں نے قران پاک میں دلائل عقلیہ اور شواہد اصلیت تلاش کیا اور اللہ رب العزت کی وحدانیت اور صفات کمالیہ پر دلالت کرنے والی آیتوں اور علتوں سے استنباط کیا اسے علم کلام سے موسوم کیا گیا ،اور جنہوں نے کلمات کے خطابات کے معانی و مفاہیم میں غور کیا اور الفاظ کے عموم و خصوص اقتضا جیسے اقسام کی بحثوں پر بنیاد رکھی تو اس کا نام علم الاصول رکھا ،اور جنہوں نے قران کریم کی آیت میں فکر و نظر کے ذریعے یہ بتائیں کہ کون سی چیزیں حلال ہیں اور کون سی حرام تو انہوں نے اس کا نام علم ا لفقہ رکھا، جس کی نظر میں الفاظ قران سے جو مقاصد ممکن ہیں ان تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی اس کے معنی و مفہوم کی چھان بین کیا انہوں نے اس کا نام علم تفسیر رکھا ا،ن کے علامہ بہت سارے علوم و فنون کے دریا قرآن ہی سے بہہ نکلے ہیں جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے ،کیونکہ یہ کتاب الہٰی ایسا ناپیدا کنار سمندر ہے جس کے اندر چھپے موتی انسانی گنتی میں نہیں آسکتے۔
علامہ قاضی ابوبکر عربی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی کتاب قانون التاویل میں فرماتے ہیں قران کریم کے علوم پچاس،چار سو،سات ہزار اور ستر ہزار ہیں ،اور اس طرح کے قرآن پاک کے ہر کلمہ میں کم از کم چار علوم ہیں کیونکہ ہر کلمہ ایک ظاہر اور ایک باطن ایک حد اور ایک انتہا ہے،اور یہ علوم اور ہر کلمہ میں چار اعتبار مطلق کلمہ کے اعتبار سے ہیں ،کلمہ کی ترکیب یا ان کے درمیان روابط کے اعتبار سے ہیں، اس طرح ان گنت ولا تعداد علوم کا خزانہ قرآن پاک میں ہے جنہیں اللہ رب العزت کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
اس لیے علم پاک کی تفسیر کو اعلی علوم کہا گیا ہے اور دو صحابہ سے لے کر آج تک اس بحر ناپید دا کنار کی غواص ہو رہی ہیں علم تفسیر کی انہیں غوطہ خوروں میں سے حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی نور اللہ مرقدہ بھی تھے ، جن کی تفسیر کا انداز نرالا ہے، سردست تو یہ چاہیے کہ ان کی تفسیر کی کچھ جھلکیاں پیش کی جاتی مگر بروقت نہ مجھے وقت ہے اور صفحات کی طوالت فراخ دل ہے، مولائے کریم حضور انجم العلماء کی قبر پر رحمت انوار کی بارشیں فرمائے آمین