Oct 23, 2025 04:26 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیتِ خاتم النبیین

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیتِ خاتم النبیین

29 Aug 2025
1 min read

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیتِ خاتم النبیین

 از قلم : محمد سرفراز احمد قادری

 امجدی ساکن : لہوریا شریف ضلع سیتامڑھی بہار

 سب سے اوّل سب سے آخر اِبتداء ہو انتہا ہو

 تھے وسیلے سب نبی، تم اصل ِمقصودِ ہدیٰ ہو

 سب تمہاری ہی خبر تھے تم مؤخر مبتدا ہو

 قرب ِحق کی منزلیں تھے تم سفر کا منتہٰی ہو

 ہم اپنے اطراف و اکناف میں جب نظر کرتے ہیں تو ہر پیکر وجود کی تین حالتیں ہماری نگاہوں کے سامنے رونما ہوتی ہیں ابتداء ، ارتقاء ، اختتام خواں وہ انسان ہو یا حیوانات، نباتات، جمادات ہو ہر شئی انہیں تین حالتوں پر محصور نظر آئیں گی، انسان پیدا ہوتا پھر جوان ہوتا ہے پھر مرجاتا ہے چاند پہلے ہلال کی شکل میں طلوع ہوتا ہے پھر بڑھتے بڑھتے مہہ کامل بن جاتا ہے اور پھر نظروں سے دور ہوجاتا ہے غرض کہ دنیا کی ہر شئی ابتداء ارتقاء اور اختتام کے مرحلوں سے گزرتی نظر آرہی ہے اور ایک دن ایسا بھی رونما ہوگا کہ پوری کائنات اختتام کی منزل میں جاپہنچے گی تو پھر یہ کیسے محال ہے کہ ایک بار نبوت آگئی تو کسی کی ذات پر سلسلۂ نبوت کا اختتام نہیں ہوگا۔

 اسی مفہوم کو صاحب لولاک حضور احمدِ مجتبیٰ علیہ الصلاۃ والتسلیم نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے واضح فرما دیا "اَنَا والسَّاعَةُ كَهَاتَينِ" میری دو انگلیوں کے درمیان میں جس طرح کوئی فاصلہ نہیں اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی نہیں میری نبوت بالکل آخری نبوت ہے۔ 

چنانچہ اللہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ ۔ ( الحزاب 33 آیت44)

 ترجمہ کنز الایمان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔

 تفسیر: خاتم النبیین کی تفسیر کرتے ہوئے صدر الافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: 

آخر الانبیاء کہ نبوت آپ پر ختم ہو گئی آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتی کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگر چہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد شریعت محمدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر عمل کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے حضور اقدس سید عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے نص قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیث جو حد تواتر تک پہنچتی ہیں ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اقدس رحمت عالم پہلی یہ پچھلے نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور اقدس سید عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر خارج از اسلام ہے ۔ ( خزائن العرفان ) 

حضور اقدس خاتم النبیین آخر المرسل حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ علیہ الصلاۃ و التسلیم آخری نبی و رسول ہیں اس بات پر ساری دنیا کے مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ سید المرسلین شفیع المذنبین کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا عقلاً،شرعاً، عادتاً محال و ناممکن ہے۔ اور اسی طرح قرآن مقدس کی ایک سو سے زائد مقامات پر امام المرسلین شفیع المذنبین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا اشارتاً کنایۃً ثابت ہے

 آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا خصوصی فیضان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ہمیشہ جاری و ساری تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام صحابہ کرام آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عطا کردہ فرمودات و اعتقادات پر مضبوطی سے کاربند تھے دین کی تبلیغ و اشاعت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے خلاف کوئی بھی نظریہ قبول نہیں فرمایا آپ کے خلاف بکنے والوں کی ہمیشہ سرکوبی فرمائی۔

 جن عقیدوں پر صحابہ کرام سختی سے کمربستہ و گامزن تھے ان میں سے ایک بنیادی عقیدہ "عقیدۂ ختم نبوت" تھا یعنی ہر صحابی رسول اس پر کامل ایمان رکھتے تھے کہ حضور اکرم علیہ الصلاۃ و التسلیم سب انبیاء و رسل کے اخیر میں تشریف لائیں اور آپ کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا محال ہے۔ 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں سب سے پہلے مسَیلمہ کذاب نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا مسَیلمہ کذاب کا فتنہ عقیدۂ ختم نبوت کا ایک فتنۂ عظیم بن کر سامنے آیا تو آپ تڑپ گئے اور آپ ختم نبوت کے پہلے محافظ بن کر رونما ہوئے۔ آپ نے اہل مدینہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ مدینے میں کوئی مرد نہ رہے خواں وہ اہل بدر ہوں یا اہل احد سب یمامہ کا رخ کرو۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ اگر حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم خلیفہ اول کو نہ روکتے تو آپ خود تلوار لے کر یمامہ کا رخ کر لیتے۔ عقیدۂ ختم نبوت پر سب سے پہلا جہاد یمامہ کی سرزمین پر ہوا جس میں سب سے پہلے لشکر اسلام کی کمان حضرت عکرمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سنبھالی آپ کے شہید ہونے کے بعد حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کمان سنبھالی اور "عقیدۂ ختم نبوت" پر اپنی جان قربان کردی پھر خلیفۂ اول نے حضرت سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا اور فرمایا موت کا حریص بن اللّٰہ تجھے حیات بخشے گا حضرت خالد بن ولید لشکر اسلام کو لے کر یمامہ کا رخ کیا اور عقیدۂ ختم نبوت پر آپ کی قیادت ایسی پر اثر انداز ہوئی کہ دشمنوں کا قلع قمع کردیا،اور آپ کے ہاتھوں مسیلمہ کذاب اپنے کے (30،000) تیس ہزار پیروکار کے ساتھ واصل جہنم ہوا۔ 

جنگ یمامہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو شہید ہوئے صرف ان کی تعداد (1200) بارہ سو تھی اور تابعین عظام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم کی تعداد میں اختلاف ہے متفقہ قول یہی ہے کہ سات سو کی تعداد تھی یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے عقیدۂ ختم نبوت پر اپنی جان قربان کر کے جام شہادت نوش فرمائی۔ 

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے عہد رسالت میں جتنی جنگیں ہوئی ان میں جو صحابہ شہید ہوئے ان کی تعداد 259 تھی لیکن عقیدۂ ختم نبوت پر (1200) بارہ سو صحابہ کرام شہد ہوگئے جن میں سب کے سب حافظ قرآن اور عالم دین تھے۔

 فتنۂ قادیانیت اور اس کا بانی مبانی:

 جوں جوں صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین کا دور گزرتا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی (30 کذاب آئیں گے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے) کی تصدیق ہوتی گئی، اور پھر وہ دور آیا کہ چہار جانب میں امت مسلمہ مختلف فرقوں میں بٹ گئی ہندوستان میں بھی مختلف فرقوں نے جنم لے لیا جن میں فرقۂ باطلہ "قادیانیت" سر فہرست رہا جس کا بانی مبانی غلام احمد قادیانی تھا وہ کسی مدرسے کا فارغ التحصیل نہیں تھا بلکہ ایک ملازم تھا جو اردو و عربی میں اچھی مہارت رکھتا تھا جب کسی کام کے لائق نہ بچا اور بڑھاپا سر پکڑا تو 1879ء میں اس نے پہلی کتاب شائع کی جس کا نام البراہین الاحمدیہ علی حقیقۃ کتاب اللہ القرآن و النبوۃ المحمدیۃ تجویز کیا اور بڑے زور و شور سے چھپوائی اور اس کے بعد ہی مرزا نے بہت بڑے بڑے دعوے کئے 1880ء تا 1888ء ان نو سالوں میں اس خبیث نے ترتیب وار اتنے بڑے بڑے ہفوات و واہیات دعوے کئے جو افسوس ناک اور حیرت انگیز ہے سب سے پہلے اس نے خود کو "مامور من اللہ" کہا پھر "محدث" پھر "مجدد" پھر "مثل مسیح" بعدہ مسیحِ موعود کا بھی اس خبیث نے دعویٰ کیا بالآخر 1890ء میں نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا، اور اسی کی طرف نسبت کرتے یوئے اس کے پیروکار "احمدی" اور قادیانی کہلاتے ہیں اور وہ اپنی جماعت کو احمدیہ کہتے ہیں، مرزا کے دعوئ نبوت سے اہلسنّت وجماعت کا اجماعی عقیدہ " عقیدۂ ختم نبوت" کا صاف صاف رد و انکار ہے اس کے نبی ہونے کا مطلب یہ کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا آخری نبی نہ ماننا ہوا اور یہ قرآن و حدیث کے ظاہری نصوص کا انکار ہے اور تمام صحابہ ،سلف و خلف ائمہ و مجتہدین کے اجماع کا مکمل انکار ہے۔

 رد قادیانیت میں علمائے اہلسنّت کا کردار:

 سب سے پہلے پنجاب میں مولانا غلام رسول بھیری رحمتہ اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے "فتویٰ در ابطالِ نکاح المرتد" لکھ کر مرزا کو مرتد اور مخلَّد فی النیران قرار دیا، اور مفتی غلام دستگیر قصوری نقشبندی نور اللہ مرقدہ کا نام رد قادیانیت میں سرفہرست ہے علامہ قصوری نے 1897ء میں مباہلہ کے لئے للکارا اور مرزا کے رد میں "فتح الرحمانی بہ دفع کید قادیانی" تحریر فرما کر رد بلیغ فرمایا اور مرزا مبہوت و خوف زدہ ہوکر میدانِ مباہلہ میں نہ آسکا، مرزا کے رد میں پیر مہر علی گولڑی نور اللہ مرقدہ نے " شمس الہدایہ فی اثبات حیات المسیح" رقم فرمایا، 1893ء میں مولانا غلام رسول شہید امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے "الالہام الصحیح فی اثبات حیات المسیح" لکھ کر رد بلیغ فرمایا، مولانا ارشاد حسین مجددین رام پوری رحمت اللہ علیہ نے مرزا کے باطل دعوے پر "فتوی در تردید دعاوی مرزا قادیانی، تحریر فرمایا، حضور اعلیٰ حضرت کے دور کے علماء اور آپ کے خلفاء و تلامذہ اور شہزادوں نے بھی زبانی و تحریر خوب رد فرمایا جن میں چند کے نام یہ ہیں حضور اعلی حضرت کے فرزند اکبر حضور حجت الاسلام محمد حامد رضاخاں علیہ الرحمہ نے 1315ھ میں " الصارم الربانی علی اسراف القادیانی" لکھا اور حضور اعلیٰ حضرت کے فرزند اصغر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے "الرمح الدیانی علی رأس الوسواس الشیطانی" اور "تصیح یقین بر ختم نبین " تحریر فرمایا ، خلیفۂ اعلیٰ حضرت حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمیٰ علیہ الرحمہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "بہار شریعت" کے آغاز ہی میں فتنۂ قادیانیت کی خوب نقاب کشائی فرماکر امت مسلمہ کو اس سے دور رہنے کی تلقین فرمائی،خلیفۂ حضور اعلیٰ حضرت مبلغ اسلام مولانا الشاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے مرزا کے رد میں "مرزائی حقیقت کا اظہار" تحریر فرمایا، مولانا قاضی غلام جیلانی شمس آبادی علیہ الرحمہ نے "تیغ غلام گیلانی بر گردن قادیانی" تحریر فرمائی، اور اسی طرح خلیفۂ حضور اعلیٰ حضرت مولانا قاضی عبد الغفور شاہ پوری علیہ الرحمہ نے " عمدۃ البیان فی جواب سوالات اہل القادیان" تحریر فرمایا ، مولانا غلام جان ہزاروی علیہ الرحمہ نے " سیف رحمانی علی راس القادیانی" تحریر فرمایا، اور خلیفۂ حضور اعلیٰ حضرت حضور صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مرادآبادی نے بھی زبانی و تحریری اس ناپاک کا رد بلیغ فرمایا، شہزادۂ حضور صدر الشریعہ مولانا عبد المصطفی ازہری علیہ الرحمہ کا بھی "عقیدۂ ختم نبوت" میں اہم کردار رہا ہےاور دور حاضر میں نبیرۂ حضور اعلیٰ حضرت حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں علیہ الرحمہ اور شہزادۂ حضور صدر الشریعہ حضور محدث کبیر مفتی ضیاء المصطفیٰ قادری امجدی نوری اطال اللہ عمرہ، فخر رضویت علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ اور عاشق اعلیٰ حضرت ڈاکٹر علامہ آصف اشرف جلالی اطال اللہ عمرہ کا "عقیدۂ ختم نبوت" پر قائدانہ کردار رہا ہے ۔ 

رد قادیانیت میں امام احمد رضا کی انفرادیت: 

حضور اعلی حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی بارہویں صدی کے اواخر اور تیرہویں صدی کے اوائل میں علم و عمل اور راسخ فضل و کمال کے نیر تاباں، جاہ و حشمت، شرافت نفس، اتباع شریعت ، زہد و تقویٰ ، سخن سخجی، حق گوئی، جرأت و بےباکی اور دین حق کی حفاظت کے معاملے میں فقید المثال اور تدبر' تحمل' راست فکری' دور اندیشی' صلابت رائے کے ساتھ ساتھ خوش عقیدگی' رسوخ فی العلم و العقیدہ اور تصلب فی الدین، اور محافظ ناموس رسالت کے سچے نقیب و ترجمان تھے آپ نے اللہ رب العزت اور انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں توہین کرنے والےاور اسلام کے دشمنوں کا ہمیشہ رد بلیغ فرمایا اور کافر و مرتد، بدمذہب و گمراہ قرار دیا اسی طرح جب عقیدۂ ختم نبوت پر حملہ ہوا اور نئے نئے فتنوں نے جنم لینا چاہا خاص کر فتنۂ قادیانیت اور عقیدۂ علمائے دیوبند نے اپنے سر کو اسلام کی فلاح و بہبودی کو مسمار کرنے کے لئے اٹھایا تو حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نور اللہ مرقدہ نے عقیدۂ ختم نبوت کی تحفظ و بقا کے لئے قلم اٹھایا اور "المبین ختم النبیین" کے نام سے رسالہ تحریر فرمایا جس میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر دلیلیں پیش کی رد قادیانیت میں "السوء والعقاب علی المسیح الکّذاب" تحریر فرما کر مسیح قادیان غلام احمد قادیانی کے اقوال و افعال کو کفریہ اور اس کا شرعی حکم بیان کیا اور فرمایا کہ مرزا کے مسیح اور مثل مسیح ہونے میں اصلاً شک نہیں مگر "واللہ نہ مسیح کلمۃ اللّٰہ علیہ صلوات اللّٰہ بلکہ مسیح دجال علیہ اللعن والنکال" ہے اسی طرح "قہر الدیّان علی مرتد بقادیان" اور "الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی" اور "جزاء اللّٰہ عدوہ بإبائه ختم النبوة" تحریر فرما کر رد بلیغ فرمایا 

ختم نبوت اور عقائد علمائے دیوبند

: مگر دیو بندیوں کے پیشواے اول قاسم نانوتوی کا عقیدہ ہے کہ حضور اقدس سید عالم خاتم الانبیاء و آخر المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی پیدا ہو سکتا ہے، خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہونا عوام اور جاہلوں کا خیال ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ : عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا سابق کے زمانے کے بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔ (تحذیر الناس : ص ، 3 / ) پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ : اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔ پھر آگے چل کر لکھتا ہے کہ : ( تحذیر الناس : ص ، 13 / ) اگر بالفرض بعد زمانۂ نبوی کبھی کوئی نبی پیدا ہوا تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ ( تحذیر الناس : ص ، 24 / )

 ان عبارتوں کا صاف و صریح غیر مبہم و متعین مطلب یہ ہے کہ حضور اقدس سید کا ئنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خاتم النبیین بمعنی آخری نبی نہیں، حضور اکرم سید الکونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد نیا نبی ہو سکتا ہے۔ تو بلا شبہ پیشواے دیوبند قاسم نانوتوی نے ضرورت دینی کا انکار کیا جو متکلمین وفقہاء سب کے نزدیک کفر وارتداد ہے۔

 احادیث مبارکہ سے ثبوت ختم نبوت :

 یہاں نبی آخر الزماں حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے سے متعلق10اَحادیث تحریر کئے جارہے ہیں 

(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورمجھ سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین وجمیل ایک گھربنایا،مگراس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،لوگ اس کے گردگھومنے لگے اورتعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی ؟پھرآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا میں (قصر ِنبوت کی) وہ اینٹ میں ہوں اورمیں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین، ص1255، الحدیث: 22(2286) 

(2)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں نے اس کے مشرقوں اورمغربوں کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، 4 / 131، الحدیث: 4252)

 (3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے چھ وجوہ سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فضیلت دی گئی ہے ۔(1)مجھے جامع کلمات عطاکیے گئے ہیں ۔ (2)رعب سے میری مددکی گئی ہے۔ (3)میرے لیے غنیمتوں کو حلال کر دیا گیا ہے۔

 (4)تمام روئے زمین کومیرے لیے طہارت اورنمازکی جگہ بنا دیا گیا ہے

(5)مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیاہے۔

 (6)اورمجھ پرنبیوں (کے سلسلے) کوختم کیا گیا ہے۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص266، الحدیث: 5(523) (4)…حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی اسماء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، 4 / 382، الحدیث: 2849) (5)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور یہ بات بطورِ فخرنہیں کہتا، میں تمام پیغمبروں کا خاتَم ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں فرماتا ۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1 / 63، الحدیث: 170) (6)…حضرت عرباض بن ساریہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (لکھا) تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث العرباض بن ساریۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،6 / 87، الحدیث:17163 ) 

(7)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔(ترمذی،کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،4 / 121،الحدیث:2279) 

(8)…حضرت سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے ارشاد فرمایا: ’’اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوسٰی غَیْرَ اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘(مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ، ص۱۳۱۰، الحدیث: ۳۱(۲۴۰۴)) یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم یہاں میری نیابت میں ایسے رہو جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام جب اپنے رب سے کلام کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی نیابت میں چھوڑ گئے تھے، ہاں یہ فرق ہے کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی تھے جبکہ میری تشریف آوری کے بعد دوسرے کے لئے نبوت نہیں اس لئے تم نبی نہیں ہو۔

 (9)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شَمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو کندھوں کے درمیان مہر ِنبوت تھی اور آپ خاتَمُ النَّبِیِّیْن تھے۔(ترمذی،کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،4 / 121،الحدیث:2279) 

(10)…حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ،لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں پڑھو،اپنے مہینے کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ،اپنے حُکّام کی اطاعت کرو (اور) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔(معجم الکبیر، صدی بن العجلان ابو امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، محمد بن زیاد الالہانی عن ابی امامۃ، ۸ / ۱۱۵، الحدیث: ۷۵۳۵) 

یاد رہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیَّت قرآن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اِجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں ۔ جو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہُ ماننا، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی کو اَحد، صَمد، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان ہے، یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقینا محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزء اِیقان ہے۔ ’’وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ نص ِقطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: جزاء اللّٰہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ، 15 / 430) 

فتحِ بابِ نبوّت پہ بے حد دُرود

 ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383