Oct 23, 2025 07:51 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
ملک نیپال کا "Gen Z" احتجاج تاریخ کا ایک نیا باب

ملک نیپال کا "Gen Z" احتجاج تاریخ کا ایک نیا باب

18 Sep 2025
1 min read

ملک نیپال کا "Gen Z" احتجاج تاریخ کا ایک نیا باب

کہنے والے کہتے ہیں کہ وقت کسی کا غلام نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی چال اپنے آپ چلتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وقت کا پہیہ کبھی بھی ایک جگہ نہیں رکتا بلکہ وہ مسلسل چلتے رہتا ہے ۔ کچھ ایسے ہی نیپال میں حالیہ دنوں جو کچھ ہوا، وہ دراصل اسی گردشِ زمانہ کی ایک جھلک ہے۔ سڑکوں پر اترے ہوئے نوجوانوں نے جس جرات و بے باکی کا مظاہرہ کیا، اس نے برسوں پرانی سیاسی اشرافیہ کی کرسیوں کے نیچے سے زمین کھسکا دی۔نیپال کی سیاست میں حالیہ دنوں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ "جنریشن زی" کے نام سے مشہور نوجوانوں کے احتجاج نے نہ صرف دارالحکومت کاٹھمنڈو کو ہلا ڈالا بلکہ پورے ملک کے سیاسی ڈھانچے کو لرزا دیا۔

بہت سے لوگوں کے دل و دماغ میں آتا ہوگا کہ یہ جنریشن زی جس کو "Gen Z" کہتے ہیں آخر ہے کیا چیز تو میں آپ کو بتاتے ہوئے چلوں کہ : 

"دنیا بھر میں "زین زی" یا Gen Z ان نوجوانوں کو کہا جاتا ہے جو 1997ء سے 2012ء کے درمیان پیدا ہوئے۔" یہ وہ نسل ہے جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں پلی بڑھی۔ اظہارِ رائے کی آزادی، فوری رابطہ اور آن لائن دنیا سے جڑے رہنا اس کی فطرت ہے۔ یہی نسل آج نیپال میں تبدیلی کا نعرہ بلند کر رہی ہے۔

احتجاج کیوں ہوا؟؟؟ 

"جنریشن زی" کا یہ احتجاج بظاہر سوشل میڈیا پر لگائی گئی پابندی کے خلاف تھا، مگر درحقیقت یہ برسوں کے زخموں کا شعلہ تھا۔ نوجوانوں نے محسوس کیا کہ جب ان کے ہاتھوں سے موبائل اور زبانوں سے آواز چھین لی جائے تو یہ ان کی روح پر قدغن ہے۔ مگر اس آگ کو  اقربا پروری، کرپشن اور سیاسی خاندانوں کی چمک دمک نے ایندھن کا کام دیا جو عام آدمی کی غربت اور بے روزگاری کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔

احتجاج کچھ اس طرح زور پکڑا کہ :

15 اگست 2025: حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سخت قوانین نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ نوجوانوں نے اسے آزادیٔ اظہار پر حملہ قرار دیا۔

ستمبر 2025 کے آغاز میں طلبہ اور نوجوانوں نے کرپشن، اقربا پروری اور معیشتی بدحالی کے خلاف  ملک گیر احتجاج شروع کیا۔ " Nepo Kids نپو کڈز" یعنی سیاسی رہنماؤں کے عیش و عشرت زدہ بیٹوں اور بیٹیوں کی زندگیوں نے عوامی غصہ اور بڑھا دیا۔

5 تا 10 ستمبر 2025: احتجاج پُرتشدد رخ اختیار کر گیا۔ پولیس کی فائرنگ، آنسو گیس اور گرفتاریوں کے باوجود عوامی ریلاں  تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ درجنوں افراد زخمی اور کئی جانیں ضائع ہوئیں۔

11 ستمبر 2025: وزیراعظم کے۔پی۔شرما اولی نے عوامی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور استعفیٰ دے دیا۔ پارلیمنٹ تحلیل ہوئی  پھر اگلے چند دنوں ہی میں فوج اور سکیورٹی فورسز نے گھٹتا ہوا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا، عبوری انتظامات کے لیے مذاکرات ہوئے اور سابق چیف جسٹس Sushila Karki کو عبوری وزیرِ اعظم مقرر/تجویز کیا گیا۔ نئے انتخابات کے لیے مارچ (حتمی تاریخ — مثال کے طور پر 5 مارچ) مقرر کیے گئے۔ 

شوشل میڈیا پر پابندی کے باوجود بھی احتجاج کچھ اس طرح کور اور کامیاب ہوا کہ : 

 Discord، Instagram، TikTok، اور دیگر پلیٹ فارمز کو کوآرڈینیشن، کال-ٹو-ایکشن، اور لائیو اپڈیٹس کے لیے استعمال کیا گیا۔ کئی نوجوان گروپس، خاص طور پر Hami Nepal جیسی تنظیمیں سامنے آئیں جنہوں نے آرگنائزنگ اور پبلک نیٹ ورک بنانے میں اہم رول نبھایا۔ 

میمنگ اور ثقافتی علامات: میمز، ہیش ٹیگز، اور پاپ کلچر کے حوالہ جات (مثلاً "nepo kids" ٹرینڈ) نے پیغام کو بہتر پہنچایا اور نوجوانوں کی شناخت کو یکجا کیا۔

دوران احتجاج جانی و مالی نقصان کچھ اس طرح ہوا کہ : 

ابتدائی رپورٹس میں 19 ہلاکتیں بتائی گئیں، بعد کی رپورٹس میں 34، 51 اور بعض ذرائع نے 72 تک ذکر کیا؛ زخمیوں کی تعداد بھی سینکڑوں سے لے کر ہزار تک بتائی گئی۔ 

عمارتیں و سرکاری املاک مثلاً : پارلیمنٹ، سپریم کورٹ کے اطراف، اور Singha Durbar (وزاراتی کمپلیکس) سمیت کئی سرکاری عمارات اور مقامی دفاتر کو آگ اور توڑ پھوڑ کا سامنا کرنا پڑا۔  جس کی وجہ اتنی قلیل مدت میں ہوٹلز، سیاحت، چھوٹے بزنس اور ایئر لائنز کو نقصان پہنچا — سیاحتی آمد کم ہوئی اور نجی شعبہ نے متاثر ہونے کی اطلاع دی۔ ریٹیل، لاجسٹکس اور روزمرہ کاروبار بھی رکاوٹ کا شکار ہوئے۔ 

خلاصہ یہ کہ : نیپال کا Gen-Z احتجاج صرف سوشل میڈیا پابندی پر ردِعمل نہ رہا بلکہ یہ ایک وسیع پیمانے پر غم و غصے کا عروج تھا، جس نے کرپشن، روزگار اور سیاسی شفافیت جیسے مسائل کو ایک ساتھ سامنے لا دیا۔ نتیجے نے فوری طور پر حکومت کو ہٹایا اور عبوری سیاست میں تیزی پیدا کی، مگر طویل مدتی فائدہ تبھی ممکن ہے جب شفافیت، احتساب، اور نوجوان شمولیت کو حقیقی پالیسی بدلاؤ میں تبدیل کیا جائے۔ اور اگرچہ خطرہ ہے کہ یہ بیداری وقتی نہ ہو جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیپال کی سیاست میں ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ باب روشن مستقبل کی طرف لے جائے گا یا پھر پرانی روایات کے اندھیروں میں گم ہو جائے گا؟ 

تحریر :

محمد رضوان احمد مصباحی 

نمائندہ : نیپال اردو ٹائمز 

صدر مدرس : مدرسہ مظاہر العلوم صفتہ بستی، راج گڑھ، بارہ دشی ایک، جھاپا، نیپال

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383