Oct 23, 2025 07:42 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
سالگرہ (Birthday)  کی حقیقت اور اس کا تاریخی پس منظر

سالگرہ (Birthday)  کی حقیقت اور اس کا تاریخی پس منظر

07 Aug 2025
1 min read

سالگرہ (Birthday)  کی حقیقت اور اس کا تاریخی پس منظر

🖊️بقلم محمد عادل ارریاوی

سالگرہ کوانگریزی میں  برتھ ڈے(Birthday) منانا کہتےہیں،جس کا مطلب ہے پیدائش کا دن یہ ایک رسم ہےجو تقریب کی شکل میں منائی جاتی ہے،

اس رسم کا آغاز عیسائیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کا دن مناکر کیا، انسائیکلوپیڈیا برناٹیکاکے مطابق میلادِ مسیح کی پہلی تقریب روم میں جنوری ۳۳۶ء کو منعقد کی گئی مگر بعد میں مغربی یورپ نے اس میلاد کو ۲۵ دسمبر میں مقید کردیا مشرقی یورپ کے چرچ اس تاریخ کو نہیں مانتے بلکہ ۶ جنوری کو کرسمس یعنی عیسٰی علیہ السلام کابرتھ ڈے مناتے ہیں ۔

سالگرہ منانے کا پس منظر ۔ 

بت پرست قوموں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ جس روز بچہ پیدا ہوتا ہے ہر سال سات سال کی عمر تک اس روز یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کچھ نادیدہ طاقتیں یعنی روحیں بچے کی جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں چنانچہ اس روز بچے کو مصروف رکھنے نیز اپنے حصار میں رکھنے کیلئے سالگرہ (Birthday) کا آغاز کیا ۔

دوسری بات یہ کہ مشرک قوموں میں دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کیلئے کئی قسم کے تہوار مناۓ جاتے ہیں نیز ان قوموں کے خیال میں کوئی غیر معمولی شخصیت جس تاریخ کو پیدا ہوتی ہے وہ تاریخ بھی غیر معمولی ہوتی ہے ان قوموں کے عقائد کے مطابق ہر غیر معمولی شخصیت دیوتاہی کا اوتار ہوتی ہے اس لیے اس شخص کا برتھ ڈے 

 

یعنی پیدائش کا دن اور برسی یعنی موت کا دن بھی مناتے ہیں۔

سالگرہ منانے کا آغاز مذہبی شخصیات سے ارادت و عقیدت کی وجہ سے شروع ہوا لیکن  آہستہ آہستہ یہ رسم مذہبی شخصیات کے دائرے سے نکل کر ہر شخص کا برتھ ڈے منانے تک آپہنچی جب یورپی لوگ دنیا کے دیگر خطوں میں پہنچے تو یہ رسم ان خطوں میں بھی متعارف ہوگئی اور اس وقت جب کہ میڈیا بہت زیادہ متحرک ہے پوری دنیا میں پھیلاتی جارہی ہےاورایک دوسرے کے قریب کرتی جارہی ہے اور ہر قوم کی روایت بنتی جارہی ہے،

المیہ یہ ہے کہ مسلمان گھرانے بھی یہ رسم بڑے اہتمام سے مناتے ہیں کارڈ چھپوانا ہوٹل بک کروانا ناچ گانے کا اہتمام تحفہ تحائف دینا مبارک بادی دینا اور جو خود شامل نہ ہوسکے اس کو کارڈ یا موبائل کے ذریعہ مبارک اور دعائیں دینا بھی شامل ہے ۔

بےتحاشا تقریبات اور تہوار منانا مشرک اقوام کا مزاج ہے کیونکہ انہوں نے ہر کام کیلۓ الگ الگ دیوی دیوتاؤں کو گڑھ رکھے ہیں ۔ لیکن جس امت نے صرف ایک اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا زبان اور دل سے اظہار اور اقرار کیا ہو وہ اللّٰہ جس نے تنہا زمین آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز پیدا کرنے والا ہے جو موت اور زندگی کا خالق ہے جس کیلۓ تمام بدنی اور مالی عبادتیں ہیں جو اولاد دینے بارش برسانے موسم بدلنے نباتات اگانے پر قادر ہے جس کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی حرکت نہیں کرتا جس نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی رضا کیلۓ اسی کے حکم کے مطابق ہر کام کیاجاۓ جس نے اپنے علاوہ کسی اور کو خوش کرنا اس کیلۓ نزر و نیاز یا قربانی دینا اس کی پوجا کے طریقہ اپنانا یا کسی کو خوش کرنے کیلئے جشن منانا ممنوع قرار دیا ہو وہ کسی غیر مسلم قوم کی رسومات اپنانا کیسے گوارا کرسکتا ہے زرا سوچو تو صحیح میرے بھائیو ۔

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ من تشبه بقوم فھو منھم۔ جس  کسی نے جس قوم کی  مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے (الحدیث ابوداؤد ۴۰۳۱)

سالگرہ منانا یورپی عیسائیوں کا طریقہ ہے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم تابعین تبع تابعین اور ان کے بعد کے علماء اور فقہا نے نہ کسی مذہبی شخصیت کا اور نہ ہی کسی عام شخصیت کا یوم پیدائش منایا نہ سالگرہ کی ۔سالگرہ یا برتھ ڈے منانے کا انداز بھی خالصتاً یورپی ہے کیک کاٹنا موم بتیاں جلانا ہپی برتھ ڈے جیسے گیت گانا کارڈ بھیجنا ان میں سے کوئی بھی چیز اسلامی نہیں ہے ان میں سے کسی کا اسلام سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں ہے ۔اسلام میں خوشی منانےکے صرف دو دن اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بحیثیت تقریب و تفریح کے دۓ ہیں ان دونوں کا تعلق نہ تو کسی کی پیدائش سے ہے نہ موت سے نہ موسم سے نہ تاریخی واقعات سے بلکہ ان کا تعلق دو اہم عبادات سے ہے اور یہ عبادات ہر سال نۓ سرے سے ادا کی جاتی ہے اس لحاظ سے یہ دو دن تہوار نہیں بلکہ عبادات کا ہی ایک اہم حصہ ہے رمضان کے اختتام سے

ملحق عید الفطر اور ذوالحجہ میں قربانی کرنے کا دن ۔

گو ان ایام میں اچھا کھانا اچھا پہننا اور جواز کی حد تک سیر و تفریح کرنا یا اپنے کام کاج سے چھٹی کرنا بظاہر غیر مسلم اقوام کے تہواروں کی طرح لگتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی ان دو عیدوں اور مشرک اقوام کے تہواروں میں بہت زیادہ فرق ہے جس میں سے چند باتیں یہ ہے ۔

مشرک اقوام کسی گزشتہ واقعے کی یاد میں یہ تہوار مناتی ہیں جب کہ مسلمانوں میں کسی گزشتہ واقعے کی یاد میں تہوار یا دن منانا قطعی ممنوع ہے ۔

مشرک اقوام عام دنوں میں جن بظاہر اچھے کاموں کا یا کچھ تہذیب و ادب کا خیال رکھتی ہیں تو تہوار یا تقریب پر اسے نظر نداز کرکے ہر قسم کی خرافات بد تہذیبی حیا باختگی پر اتر آتی ہیں مثلاً غلیظ اور. چھوٹے مذاق کرنا رنگ پھینکنا جھنڈیاں غبارے کیک کرسمس ٹری چرنیاں وغیرہ لایعنی چیزیں بنانا جواء کھیلنا شراب پینا ناچ رقص اور ڈھول ڈھمکا کرنا ۔ 

اس کے برعکس اسلام نے جو دن عطا کئے ہیں ان میں خوشی منانے کے باوجود شریعت کی حدود کا خیال رکھنا لازمی ہے جو بلّے گلّے گناہ کے دیگر کام رقص و سرور شراب و جواء وغیرہ ہمیشہ کیلئے حرام ہیں وہ عید کے دنوں میں بھی حرام ہی رہتے ہیں بلکہ عام دنوں کی بنسبت گناہوں کا وبال و عذاب ستر گنا سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔

سالگرہ منانے والے لوگ شاید باور کرانا چاہتے ہیں کہ موت کو ایک سال مزید مؤخر کرنے میں ان کا اپنا ہاتھ ہے نعوذ بااللہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کا اس میں کوئی دخل نہیں تبھی وہ شیطان کو خوش کرنے کیلئے رقص و سرور کی محفل جماتے ہیں اور سالگرہ کا کیک کاٹ کر دعوت اڑاتے ہیں اگر انہیں یہ یقین ہوتا کہ موت اور زندگی ربّ قدیر کی دست قدرت میں ہے تو وہ اس وقت غم میں ہلکان ہورہے ہوتے کہ اب تک انہوں نے آخرت کیلئے کیا کیا ؟ اور اگر ابھی موت کا فرشتہ پیغامِ اجل لے کر آگیا تو کیا ہوگا ؟ ۔ اللہ ربّ العزت تمام مسلمانوں  کو ہدایت دے اور بے جا رسومات و خرافات سے ہم سب کی حفاظت فرماۓ آمین ثم آمین یارب العالمین۔

8235703061

 

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383