اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی 10 نمایاں اور خوبصورت عادات
مولانا نور محمد نظامی
استاذ جامعہ اہل سنت نظامیہ و فاطمۃ الزھراء
شنکر پور ضلع کپل وستو نیپال
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی برصغیر کی علمی و دینی دنیا کا وہ درخشاں ستارہ ہیں جس نے صدیوں تک رہنمائی کا چراغ جلائے رکھا۔ آپ کا مقام صرف فتاویٰ نویسی یا علمی مباحث تک محدود نہ تھا بلکہ آپ کی روزمرہ کی عادات بھی ایسی تھیں جو ایک مسلمان کے لیے مثالی نمونہ ہیں۔ یہاں آپ کی دس نمایاں عادات مختصر مگر پراثر انداز میں پیش کی جاتی ہیں۔
1. محبت رسول میں سرشار زندگی۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کی پوری حیاتِ مبارکہ عشقِ مصطفیٰ کا آئینہ تھی۔ آپ کے دل کی دھڑکن میں درود و سلام کی لَے سنائی دیتی، آپ کی زبان ذکرِ رسول سے ہمیشہ معطر رہتی، اور آپ کا قلم جب بھی حرکت میں آتا تو خوشبوئے نعت بکھیر دیتا۔ آپ کے فتاویٰ، علمی تحریروں اور بیانات میں ایک ہی روح کارفرما تھی کہ امت کا ہر فرد حضور کی محبت کو اپنی زندگی کا سرمایہ بنا لے۔ آپ نہ صرف علمی دلائل سے عشق رسول کا دفاع کرتے بلکہ اپنے عمل، عبادات اور معمولات سے اس محبت کو جیتا جاگتا مظاہرہ بنا دیتے۔ آپ کی مجلس میں بیٹھنے والا شخص محسوس کرتا کہ گویا ایک دل درود کی روشنی میں ڈوبا ہوا ہے اور ایک روح حضور کے عشق میں محو پرواز ہے۔
2. عبادات میں استقامت
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو عبادات میں غیر معمولی استقامت تھا۔ آپ کے نزدیک عبادت صرف ایک فرض یا رسم نہ تھی بلکہ محبوب حقیقی سے ملاقات کا سب سے حسین ذریعہ تھی۔ نماز آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون تھی؛ چاہے شدید سردی ہو یا سفر کی تھکن، بیماری ہو یا مصروفیت، آپ نے کبھی نماز کو مؤخر یا سست روی کا شکار نہ ہونے دیا۔ تہجد کی عادت بچپن سے آخری عمر تک قائم رہی، اور فجر کی اذان سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر و درود کا معمول زندگی بھر برقرار رہا اور آپ عبادات میں صرف وقت کی پابندی ہی نہیں بلکہ کیفیت کا بھی اہتمام کرتے تھے—وضو ہمیشہ سکون اور یکسوئی سے کرتے، قیام و رکوع میں خشوع نمایاں ہوتا، اور ہر دعا میں عاجزی جھلکتی۔ روزہ، ذکر، درود شریف اور تلاوتِ قرآن آپ کے معمولات کا حصہ تھے، مگر ان سب میں سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ آپ عبادت کو محض فرض کی ادائیگی نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے کی جانے والی محبت کا اظہار سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی عبادات میں ایک ایسی روحانی لذت محسوس ہوتی جس نے آپ کے قریب رہنے والوں کو بھی عبادت کی طرف مائل کر دیا۔
3. عاجزی و انکسار
علم و فضل کے باوجود آپ ہر ایک کے ساتھ محبت اور نرمی سے پیش آتے، کبھی اپنی برتری کا اظہار نہ کرتے۔
4. تحقیق میں باریکی
فتویٰ یا علمی جواب دینے سے پہلے آپ دلائل کی تہہ تک پہنچتے۔ بے بنیاد بات آپ کے نزدیک دین سے خیانت تھی۔
5. زبان کی شائستگی
آپ کی گفتگو نرم، پاکیزہ اور سننے والے کے دل میں اترنے والی ہوتی۔ سخت لہجہ یا تلخ الفاظ آپ سے منسوب نہیں ملتے۔ 6. خدمتِ انسانیت
آپ حاجت مندوں کے لیے سہارا اور غم زدوں کے لیے ڈھارس تھے۔ مالی امداد سے زیادہ روحانی اور علمی رہنمائی کو ترجیح دیتے۔
7. صفائی اور سادگی لباس ہمیشہ صاف، سنت کے مطابق اور خوشبو سے معطر ہوتا۔ سادگی میں بھی ایک جاذبِ نظر وقار جھلکتا۔
8. شاگردوں کی تربیت
اعلیٰ حضرت کا اندازِ تربیت دو پہلوؤں پر قائم تھا: علم کی گہرائی اور کردار کی بلندی۔ آپ درس کے دوران مسئلہ بیان کرنے کے ساتھ اس کا عملی پہلو اور اخلاقی اثر بھی واضح کرتے، تاکہ شاگرد صرف عالم نہ بنے بلکہ صالح انسان بھی بنے۔ آپ اپنے شاگردوں کو وقت کی پابندی، زبان کی شائستگی، اور دین کے معاملے میں احتیاط کی سخت تلقین کرتے اور شاگردوں کے ساتھ آپ کا تعلق محض استاد اور طالب علم کا نہ تھا بلکہ ایک باپ کی طرح شفقت بھرا تھا۔ اگر کوئی شاگرد غلطی کرتا تو آپ غصے کے بجائے نرمی سے سمجھاتے، اور ہمیشہ یہ جملہدہراتے کہ علم وہی ہے جو عمل کے ساتھ جڑا ہو، ورنہ وہ بوجھ بن جاتا ہے اعلیٰ حضرت کی تربیت کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے شاگرد نہ صرف علمی میدان میں نمایاں ہوئے بلکہ اپنے اخلاق، تقویٰ اور تبلیغی خدمات میں بھی مثال بنے۔
9. صبر اور حلم
مخالفت یا بدگوئی پر بھی آپ صبر کرتے اور دلیل سے جواب دیتے، جذبات میں آکر کبھی ردِعمل نہ دکھاتے۔
10. اخلاصِ نیت
ہر کام میں آپ کی نیت اللہ اور اس کے رسول کی رضا ہوتی۔ دنیاوی منفعت یا شہرت سے آپ کو کوئی رغبت نہ تھی۔اختتامی کلمات اعلیٰ حضرت کی یہ عادات ایک روشن راستہ ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی میں ان کو اپنالیں تو دین کی روشنی ہمارے کردار اور معاملات میں جھلکنے لگے۔ ان عادات کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اصل عظمت صرف علم سے نہیں بلکہ اخلاص، اخلاق اور خدمت سے حاصل ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ امام احمد رضا خان بریلوی پر اپنی بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرما، ان کے درجات کو بلند سے بلند تر کر، ان کے علم، تقویٰ، اخلاص اور عشقِ رسول کے فیض کو قیامت تک جاری و ساری رکھ اور ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما، ہمارے دلوں کو محبتِ رسول سے منور کر، اور ہمیں دین کا سچا خادم بنا۔ آمین بجاہِ سید المرسلین۔