اعلی حضرت کا عشق رسول
از قلم: محمد عادل قادری
شمش العلما عربی کالج تو ڈار کرناٹکا منگلور
وہ عظیم شخصیت جس نے عشق رسالت کو لوگوں کے دلوں میں روشن کیا اور ان کی محبت کی لازوار سرمستیوں سے اباد کیا اور جب وہابی و دیوبندی اور دیگر فرقات نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی گستاخی اور لوگوں میں بد عقیدگی پھیلائی اس وقت وہ عاشق رسول عشق رسالت کی تلوار لے کر ان پر قہر بن کر اترے اس کے عاشق رسالت کی تلوار لے کر ان پر قہر بن کر اترا اور اس عاشق رسول کی عشق رسالت کے بارے میں لکھنے کا شرف حاصل کیا ہوںاس عاشق رسول کا عشق رسالت بیاں کرتے کرتے قلم کی سیاہی ختم ہو جائے گی اور صفحات بھر جائیں گے لیکن تب بھی اس ناچیز سے ان کا عشق رسالت پورا بیان نہ ہو پائے گااس عاشق رسالت کا نام گرامی امام عشق و محبت اعلی حضرت خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ ہے اور اللہ تبارک و تعالی نے اعلی حضرت کو ایسا عظیم رتبہ عطا کیا ہے کیونکہ ان کے دل میں عشق رسالت کا چراغ روشن تھا اور اللہ تبارک و تعالی نے اعلی حضرت کو بے شمار کمالات سے نوازا ہے
اعلی حضرت کا ایک ایسا واقعہ جس کو پڑھ کر اپ کے اندر عشق رسالت کا چراغ روشن ہو جائے گا جب بارگاہ اعلی حضرت میں روزانہ بے شمار خطوط اتے تھے اور اپ کے خادم پڑھ کر سناتا تھا ایک دن خادم نے عرض کیا کسی دیوبندی نے کسی گستاخ نبی اپ کو گالیاں لکھ کر بھیجا ہے اتنا سننا تھا کہ امام عشق محبت کے چہرے پر رونق چھا گئی اور خوشی سے نورانی چہرہ جگمگا اٹھا اور لب پر مسکراہٹ پھیل گئی اپ کا خادم حیران ہو گیا اور عرض کیا حضور اپ خوش ہو رہے ہیں اپ مسکرا رہے ہیں اس گستاخ رسول نے اپ کو گالیاں بھیجی ہیں تو میرے امام عشق محبت نے فرمایا کہ میں اس لیے خوش ہو رہا ہوں کہ جب وہ دیوبندی گستاخ نبی جس وقت مجھے گالیاں لکھتا ہے اس وقت میرے محبوب محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی توہین سے اپنی زبان روکے رکھتا ہے اور پھر امام عشق و محبت فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی توہین برداشت ہے لیکن کوئی سرکار محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی توہین کرے یہ ہرگز برداشت نہیں یہ ہے کہ امام عشق محبت کا عشق رسالت خود گالیاں سننے کو تیار ہے لیکن محبوب الہی کو کوئی گالیاں دے یا ہرگز برداشت نہیں اعلی حضرت کا عشق رسالت یہ تھا کہ جب
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے علم غیب پر لوگوں نے انگلیاں اٹھائی تو اعلی حضرت نے مکہ معظمہ میں صرف ادھ گھنٹے میں الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ جیسی عظیم کتاب کو وجود میں لائے اور منکرانے علم غیب کو گیب مصطفی صلی اللہ تعالی وسلم کو یہ بات بتا دی کہ میرے سرکار محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا علم غیب مصطفی کا بھی باطل نہیں ہو سکتا اور اعلی حضرت کا عشق رسالت اس وقت روزہ روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ جب اعلی حضرت بیماری کی حالت میں کہ یہ اعلی حضرت کی طبیعت ناساز تھی اپ نے دولت المکیہ بالمعادت الغیبیہ جیسی کتاب لکھی اپ کے عشق رسول کا انداز تھا کہ اپ نے علم غیب مصطفی کے ثبوت پر ایک ایسی عظیم کتاب کو تحقیقی انداز میں لکھا کہ عرب کے علماء اپ کے علم اور اس کے رسالت کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور بے ساختہ ان کی زبان سے اپ کی تعریف کے الفاظ نکلتے رہے انہوں نے اپ کو اپ کو عشق رسالت اور عالم تسلیم کیا
اور اعلی حضرت کے دل میں عشق رسالت کا چراغ اس طرح روشن تھا کہ اپ جو بھی کرتے عشق رسالت میں کرتے اپ جو بھی تحریر فرماتے عشق رسالت میں فرماتے اپ جو بھی فیل کرتے ہیں عشق رسالت میں کرتے ہیں اپ جو بھی بیان کرتے عشق رسالت کے ائینے میں کرتے اور اپ جو بھی کام انجام دیتے اس کے رسول اس کے رسالت کے سائے میں انجام دیتے اپ کے دل میں عشق رسالت کا چراغ اس قدر روشن تھا کہ اپ نے بیماری کی حالت میں بھی ایک عظیم کتاب کو تحریر فرمائے اور گستاخ نبی کو سمجھا دیا کہ ایک عاشق رسول اپنے حبیب سرکار محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی کوئی بھی برائی اور گستاخی برداشت نہیں کرے گا اور اپ کا عشق رسالت اتنا پختہ تھا کہ سرکار محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے کبھی غلاموں کو مایوس نہیں کرتے کبھی اپنے غلاموں کو نظر انداز نہیں کرتے اور کبھی اپنے غلاموں کو اپنا دیدارت کراتے ہیں اور اپ کا یہی عقیدہ بھی تھا اور اپ نے عاشق اپ نے عشق رسالت کے پختہ ارادے کے ساتھ مدینہ منورہ میں روز انور کی زیارت کے لیے گئے اور اپ کے دل میں ہزاروں تمناؤں کے ساتھ ایک تمنا یہ بھی تھی کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہو یہی ارزو لے کر روزہ انور کے پاس قیام کیا کہ کاش رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور حبیب خدا ٹوٹے دلوں کے طبیب جناب سرکار محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا کرم فرما دیں اور اپنے دیدار انور سے مصروف فرما دے اور اس فکر میں ڈوب کر وہ یقین اور کامل توجہ کے ساتھ روز انور کے ایک گوشے میں دل کی نگاہ نگاہیں کھول کر انتظار کرنے لگے کہ کاش دیدار مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہو جائے مگر دل کی حسرت پوری نہ ہوئی اور اپ کے دل میں اپ کے دل پر مایوسی کا پردہ چھا گیا مگر بار بار دل سے یہ اواز اتی رہی کہ سرکار ایک بار کرم فرما دو اور اپنے عاشق کو مایوس نہ ہونے دو اپنے غلام پر نظر کرم کر دو اور اپنے غلام کو اپنا دیدار نصیب فرمائے مگر اپ کے دل کی حسرت پوری نہ ہوئی دوسرے دن بھی اپ امید کے ساتھ جالی شریف کے قریب ادب کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور اپ کے دل پر مایوسی کا پردہ چھا گیا مگر بار بار دل سے یا اواز اتی رہی کہ سرکار ایک بار کرم کر دو اور اپنے عاشق کو مایوس نہ ہونے دو اپنے غلام پر ایک نظر کرم کر دو تیسرے دن اپ غمگین ہو کر بارگاہ رسالت میں فرمائے وہ سوئے لال زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں جو تیرے در سے یار پھرتے ہیں دربدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں مگر اپ کا عشق رسول کم نہ ہوا پھر اپ نے اپنے دل میں امید روشن کی اور جالی شریف کے نزدیک عشق و محبت میں درود و سلام اور نعت کے اشعار پیش کر ہی رہے تھے کہ اپ کا مقدر جاگا اور اپ کی نصیب چمکی اور رسول کونین کے عنایات کا سویرا ہوا پھر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے روضہ انور سے باہر تشریف لا رہے ہیں اور اپ کو بیداری کی حالت میں اپنا دیدار کرایا اس بار سے ظاہر و عیاں ہے کہ اعلی حضرت کا عشق رسالت اتنا پختہ اور اتنا مضبوط ہے اور اپ کو اپنے عشق پر اتنا اعتماد تھا کہ سرکار مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے غلاموں کو کبھی مایوس نہیں کرتے اور اپنے غلاموں کو بھی رسوا نہیں کرتے اور اپنے غلاموں کو نظر انداز نہیں کرتے اور اپنے غلاموں کو اپنا دیدار نصیب فرماتے ہیں میں دیکھنا چاہتے ہیں اگر اپ ان کے عشق رسالت کوئی بات تمہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو جا کے ہدایت کے بخشش کھول کر دیکھ لیجئے کہ کس طرح ان کے اس کے رسالت جوش مار رہا ہے
میرا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ خان فاضل بریلوی کا عشق رسالت اتنا ہے کہ بیان کرتے کرتے قلم کی سہائی ختم ہو جائے گی لیکن ان کا عشق رسول کی محبت کہ داستان ختم نہ ہوگی اور اعلی حضرت کا عشق رسول نہ اعلی حضرت عشق رسالت نہ پھیلاتے تو اج ہم دیوبندی اور وہابی کے فرقے میں ملوث ہو جاتے اور اپنے اقا کی گستاخی کر بیٹھے اس ناچز سے اتنا ہی بیان ہو پایا