عید میلاد النبی ﷺ اور ہماری ذمہ داریاں
(قاری) اخلاق احمد نظامی
پرنسپل دارالعلوم اہل سنت انوار العلوم گولا بازار ضلع گورکھپور
جب ظلم و جبر کی گھٹائیں آسمانِ انسانیت پر چھا گئی تھیں، جب کمزوروں کی فریاد طاقتوروں کے قدموں تلے روندی جاتی تھی، جب عورت کو ذلت کی علامت اور یتیم کو بوجھ سمجھا جاتا تھا، جب قبائلی انتقام اور عصبیت کی آگ نسل در نسل بھڑکتی رہتی تھی، اور جب علم و فکر کے چراغ بجھ چکے تھے، تب ربِ کائنات نے رحمتِ مجسم، سرورِ دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔ یہ آمد محض ایک ولادت نہ تھی بلکہ تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی سحر تھی، ایک ایسا انقلاب جو غلام کو آزادی، عورت کو عزت، یتیم کو سہارا اور انسانیت کو وقار بخشنے والا تھا۔
آپ ﷺ کی ولادتِ باسعادت کو پندرہ صدیاں مکمل ہو رہی ہیں۔ یہ محض ایک عدد نہیں بلکہ تاریخ کا وہ عظیم سنگِ میل ہے جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وقت کی گردش، تہذیبوں کی تبدیلی اور صدیوں کی مسافت کے باوجود محمد عربی ﷺ کی تعلیمات آج بھی اُتنی ہی تازہ، مؤثر اور رہنما ہیں جتنی پندرہ سو سال پہلے تھیں۔ یہ پندرہ سو برس اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ کوئی اور نظامِ حیات اتنی دیرپا معنویت، جامعیت اور آفاقیت کا حامل نہیں ہو سکا۔ فلسفے بدلے، سلطنتیں مٹی میں مل گئیں، نظریات وقت کے طوفانوں میں بکھر گئے، مگر سیرتِ مصطفوی ﷺ آج بھی مینارِ نور کی طرح قائم ہے۔ یہی میلاد النبی ﷺ کی سب سے بڑی معنویت اور افادیت ہے کہ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی
رہنمائی صرف اسی در سے مل سکتی ہے۔میلاد النبی ﷺ محض چراغاں یا جلوس کا دن نہیں، بلکہ تجدیدِ عہد کا لمحہ ہے۔ یہ اپنے آپ سے سوال کرنے کا دن ہے کہ ہم نے نبیِ کریم ﷺ کے دیے ہوئے پیغام کو اپنی زندگیوں میں کس حد تک اپنایا؟ آج جب امت زوال، تعلیمی پسماندگی، اخلاقی بحران اور انتشار کا شکار ہے، تو یہ لمحہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ ہم اصل مقصد سے دور جا پڑے ہیں۔ حقیقی جشن وہی ہے جو ہمارے کردار میں جھلکے، جو یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے، غریب کے آنسو پونچھنے، تعلیم و صحت کے منصوبوں میں حصہ ڈالنے اور خدمتِ خلق کو شعار بنانے سے ظاہر ہو۔
ہندوستان جیسے کثیرالمذہبی ملک میں یہ دن اور بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں ہمارا ہر عمل ملت کی حدوں سے نکل کر پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم میلاد کے اجتماعات اور جلوسوں کو ’’پیغامِ مصطفی کے مراکز‘‘ بنائیں۔ دنیا دیکھے کہ محمد ﷺ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لیے رحمت ہیں۔ یہ پیغام ہندوستانی سماج کے دلوں میں اترے تو نہ صرف ملت بلکہ پورے ملک کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ ہوگا۔
خصوصاً نوجوانوں کے لیے یہ وقت دعوتِ فکر ہے۔ میلاد کی خوشیاں غیر حقیقی رسومات یا وقتی
جوش کا نام نہیں بلکہ اپنے کردار کو حضور ﷺ کی تعلیمات میں ڈھالنے کا موقع ہے۔ اگر نوجوان اپنی توانائیاں تعلیم کے فروغ، غرباء کی خبرگیری اور ملت کی خدمت میں صرف کریں تو یہی سب سے بڑی نعت اور یہی سب سے روشن چراغاں ہوگا۔یہ بھی یاد رہے کہ جلوس و اجتماعات میں وقار، نظم و ضبط اور متانت ہونا چاہیے۔ شور شرابہ اور بدنظمی نہ صرف پیغام کو مدھم کر دیتی ہے بلکہ امت کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ دنیا اسلام کو شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھ رہی ہے، ایسے میں ہمارا سب سے مؤثر تعارف ہمارے اعمال ہیں۔ ہماری زبان سچائی کی گواہ ہو، ہمارے رویے نرمی کا پتہ دیں اور ہمارے کردار میں اخلاص جھلکے، تو یہی سب سے بڑی دعوتِ اسلام ہوگی۔
پندرہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی سیرتِ مصطفوی ﷺ آج بھی ایک روشن مینار ہے۔ دین صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ علم و حکمت، عدل و انصاف، خدمتِ خلق اور محبت و اخوت کی روشنی پھیلانے کا نام ہے۔ آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم میلاد کو محض رسم و رواج کا حصہ نہ بنائیں بلکہ اسے بیداریِ ملت، اتحادِ امت اور اصلاحِ معاشرہ کا ذریعہ بنائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محبوب ﷺ کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے نوجوانوں کو لغویات و خرافات سے محفوظ رکھے، اور یہ پندرہ سو سالہ میلاد امت کے اتحاد، بیداری اور عروج کا زینہ بنے۔ آمین۔
(قاری) اخلاق احمد نظامی
پرنسپل دارالعلوم اہل سنت انوار العلوم گولا بازار ضلع گورکھپور
9935410277