غوث الاعظم نے اپنی تعلیمات میں دہشت گردی و انتہا پسندی کی شدید مذمت کی ہے۔
مولانا غلام یزدانی احمد نظامی
ٹیچر کالونی گولا بازار میں جلسہ غوث الوری کا انعقاد ،لنگر غوثیہ تقسیم
گورکھپور (اخلاق احمد نظامی)
ماہ ربیع الثانی کو گیارہویں والے پیر کے نام سے جانا جاتا ہے اسی لئے عقیدت مند اس ماہ مبارک میں لنگر تقسیم کرتے ہیں، ذکر و اذکار کی محفلیں منعقد کرتے ہیں ،صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور جلوس غوثیہ نکالتے ہیں اسی تسلسل کے تحت گولا بازار و اطراف میں جشن غوثیہ،جلسہ غوث اعظم ،قصیدہ بردہ شریف اور نذر و نیاز کی محفلیں منعقد ہورہی ہیں اسی کڑی میں گزشتہ شب ایک شاندار لنگر غوثیہ کا اہتمام ہوا جس میں سینکڑوں لوگ خوب سیر ہوکر لطف اندوز ہوئے اس کے بعد عظیم الشان جشن غوث الوری کا پروگرام بنام جشن غوث الاعظم کا انعقاد ہوا جس کی سرپرستی شہزادہ خطیب البراہین علامہ الحاج محمد حبیب الرحمٰن قادری رضوی سجادہ نشین خانقاہ نظامیہ اگیا شریف و صدرات مولانا الحاج قطب الدین نظامی و قیادت مولانا الحاج مفتی اقبال احمد مصباحی نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری مولانا محمد ہارون علیمی چشتی اور حافظ جواد رضا راعینی نے نبھائی اس سے قبل پروگرام کا آغاز حافظ ریاض اللہ نے تلاوت قرآن مجید اور اعجاز احمد نے حمد باری تعالیٰ سے کیا اس کے بعد شاعر اسلام محمد حسین انصاری ، حافظ عباس علی نظامی ،حافظ محمد عارف نظامی ،حافظ محمد مسعود رضا خان ،حافظ محمد فیضان ،حافظ محمد عمیر انصاری سمیت دیگر شعراء اور نعت خواں حضرات نے بارگاہ رسالت میں منظوم خراج عقیدت و غوث پاک کی شان میں منقبت کے اشعار نذر کئے
تاہم پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے مہمان خطیب مولانا غلام یزدانی احمد نظامی بستوی نے کہا کہ ہمارے یہاں معمول یہ ہے جب کبھی بزرگان دین کے ایام منائے جاتے ہیں تو اس حوالے سے منعقدہ کانفرنسز اور اجتماعات میں ہمارا موضوع اکثر و بیشتر کرامات ہوتا ہے۔ کرامت سے کسی بھی ولی اللہ کا ایک گوشہ تو معلوم ہوتا ہے مگر یاد رکھ لیں کہ صرف کرامت کا نام ولایت نہیں اور ولایت صرف کرامت تک محدود نہیں۔ ولایت، کرامت کو نہیں کہتے بلکہ ولایت، استقامت کو کہتے ہیں۔ جب کرامت کا بیان ہوتا ہے تو یہ اولیائے کرام کی شان کا ایک گوشہ ہے۔ ان کے اصل مقام کا پتہ استقامت سے چلتا ہے۔ کتاب و سنت کی متابعت اور استقامت ہی سے ولایت کا دروازہ کھلتا اور اس میں عروج و کمال نصیب بنتا ہے۔
مولانا بستوی نے کہا کہ آج عدمِ برداشت کے کلچر نے پوری دنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانی کا امن خاک میں ملا دیا ہے۔ دہشت گردی کا فروغ اسی کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ اسلام اخوت و محبت، تحمل و بردباری کا علمبردار دین ہے مگر آج کچھ نادان دوستوں کی غلط کاریوں اور خود تراشیدہ تصورات کی وجہ سے ادیانِ عالم میں محبتوں کے امین اس دین کو دہشتگرد اور امن دشمن قرار دیا جارہا ہے مگر صوفیائے کرام کی تعلیمات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں مذہب کے نام پر انسانوں میں دوریاں پیدا نہیں کیں بلکہ مخلوقِ خدا ہونے کی بنیاد پر ہر ایک کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا معاملہ کیا۔ چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل سے گلشنِ اسلام میں بہار آئی اور لوگ ایسے مخلص مبلغینِ اسلام کے طرزِ عمل، سیرت و کردار سے متاثر ہوکر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگے اور اس طرح اسلام انسانیت کے خیر خواہ ہونے کے باعث ایک آفاقی دین بن گیا اور چہار دانگ عالم میں دینِ محمدی کا پھریرا لہرانے لگا۔
مولانا بستوی نے کہا کہ برداشت کا درس دیتے ہوئے حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ برداشت کو اپنے اوپر لازم پکڑ اور شر کو دور کر۔ کلموں کے بہت سے ساتھی ہیں۔ جب تم سے کسی نے ایک کلمہ شرارت کا کہا اور تم نے اس کا جواب دیا تو اس کلمۂ بد کے اور شریر ساتھی آجائیں گے حتی کہ تم دونوں کلام کرنے والوں کے درمیان شرارت قائم ہوجائے مولانا بستوی نے کہا کہ تعلیماتِ غوثیہ میں اخلاص کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اخلاص کے بغیر کوئی عمل عنداللہ مقبول نہیں ہوتا۔ اس لیے معاشرتی اصلاح کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہر فرد جو بھی نیکی کا عمل کرے وہ صرف اور صرف اخلاص اور للہیت سے اللہ کی خوشنودی کے لیے سرانجام دے۔ مولانا بستوی نے کہا کہ غوث اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات میں دہشت گردی و انتہا پسندی کی شدید مذمت کی ہے۔ حضور غوث الاعظم سے عقیدت و محبت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد آپس میں اخوت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح زندگی بسر کریں کہ ہر طرف ایثار و قربانی کے پھول کھلتے نظر آئیں اور محبت کی مہکار معاشرے کے ہر فرد کے مشامِ جاں کو معطر کررہی ہو۔
مولانا بستوی نے دعویٰ کیا کہ بڑے پیر دستگیر نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ علم میں بھی غوث الاعظم تھے۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدر آئمہ آپ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپ سے علم الحدیث، ہعلم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فنی علوم، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے۔انہوں نے کہا کہ جملہ اولیاء کرام بشمول حضور غوث الاعظم کا تذکرہ کرتے ہوئے عموماً ہمارے پیش نظر اُن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم ان کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں صحیح اور درست اسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیاء کاملین کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوئوں کا بھی مطالعہ کریں کہ اُن کا علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار ہے
مولانا بستوی نے کہا کہ حضور غوث الاعظم کی شخصیت مبارکہ ہمہ جہت اوصاف کی حامل ہے۔ ان جہات میں سے کرامات صرف ایک جہت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم غوث پاکؒ کی تعلیمات کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جن کے ہم نام لیوا ہیں اور پوری دنیا جنہیں غوث الاعظم دستگیر اور پیران پیر کے نام سے یاد کرتی ہے پروگرام میں قاری اخلاق احمد نظامی پرنسپل مدرسہ انوار العلوم گولا بازار ،مولانا محمد صدیق قادری پرنسپل دارالعلوم رضویہ گولا بازار ،مفتی وصی اللہ نظامی مولانا محمد حامد علی قادری ،قاری محمد محمود عالم برکاتی ،حافظ محمد سعید نظامی اور حافظ عبد الوحید برکاتی کے علاوہ کثیر تعداد میں فرزندان توحید و رسالت موجود تھے پروگرام کا اختتام قصیدہ بردہ شریف صلوۃ و سلام اور حبیب العلماء کی دعا سے ہوا