Oct 23, 2025 04:23 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
گلوبل صمود فلاوٹیلا

گلوبل صمود فلاوٹیلا

02 Oct 2025
1 min read

گلوبل صمود فلاوٹیلا

ابو خالد بن ناظر الدین 

فاضل دار العلوم دیوبند

        دنیا کے دلیر لوگ ہمیشہ تاریخ کے اوراق میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں جو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر پوری انسانیت کے لئے سوچتے ہیں، وہ لوگ جو ظلم کے آگے سر نہیں جھکاتے بلکہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں، اور وہ جو اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر مظلوموں کی دستگیری کرتے ہیں۔ آج کے دور میں جہاں طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں کمزوروں کو کچلنے پر تلا ہوا ہے، وہاں یہ دلیر انسان اپنے ضمیر کی پکار پر لبیک کہتے ہیں اور ساری دنیا کے لئے مثال بن جاتے ہیں۔                                         فلسطین اور بالخصوص غزہ کی پٹی آج دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی ہے، جہاں لاکھوں بے قصور انسان محصور ہیں۔ اسرائیلی محاصرہ انہیں خوراک، ادویات، تعلیم اور آزادی جیسی بنیادی نعمتوں سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں دنیا کے مختلف خطوں سے اٹھنے والی انسانی ہمدردی کی آوازیں اور عملی کوششیں وہ چراغ ہیں جو ظلمت کے سمندر میں امید کی کرن بن کر ابھرتی ہیں۔

اسی جذبے کا ایک عظیم مظہر ’’گلوبل صمود فلاوٹیلا‘‘ ہے۔ ’’صمود‘‘ عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ثابت قدمی اور استقامت، اور یہی لفظ اس جدوجہد کی روح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ فلاوٹیلا عالمی ضمیر کی ایک گونج ہے۔ یہ پیغام ہے کہ دنیا کے مختلف براعظموں، مختلف زبانوں، رنگوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے انسان سب مل کر ظلم کے مقابلے میں مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔

               اس منصوبے کا آغاز 2025 میں اس وقت ہوا جب غزہ کی جنگ نے انسانی المیے کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ہزاروں معصوم بچے بھوک اور بیماری سے تڑپ رہے تھے، ہسپتالوں میں دوائیں ختم ہو چکی تھیں، اور لوگ صاف پانی جیسی بنیادی سہولت کے لئے ترس رہے تھے۔ ایسے وقت میں عالمی کارکنان، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عام رضاکار اکٹھے ہوئے اور ایک ایسے سفر کا فیصلہ کیا جو خطرات سے خالی نہیں

تھا مگر جس کی منزل انسانیت کی خدمت اور مظلوموں تک پہنچنا تھی۔گلوبل صمود فلاوٹیلا کی پہلی کشتیاں 31 اگست 2025 کو اسپین کے شہر بارسلونا سے روانہ ہوئیں۔ یہ مقام محض ایک جغرافیائی بندرگاہ نہیں تھا بلکہ علامتی طور پر یہ وہ جگہ تھی جہاں سے عالمی اتحاد کی صدا اٹھی۔ اس کے بعد 4 ستمبر کو تونسیا سے مزید بحری جہاز اس قافلے کا حصہ بنے اور یوں ایک عالمی کارواں تشکیل پایا۔ اس قافلے میں اب تک کم از کم چوالیس ممالک کے نمائندے شریک ہیں، جن میں یورپ، ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ تک کے ممالک شامل ہیں۔ مزید برآں اس میں شرکت کرنے والے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم ہیں ۔ یہ تنوع خود اس بات کی دلیل ہے کہ فلسطینی مسئلہ کسی ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ انسانی ضمیر کا امتحان ہے۔

اس فلاوٹیلا میں شامل افراد ہزاروں کی تعداد میں ہیں، اور ان میں ہر طبقۂ فکر کے نمائندے شامل ہیں: طبی عملہ، سماجی کارکنان، اساتذہ، صحافی، فنکار، خواتین، نوجوان اور بزرگ سب ایک ہی مقصد کے ساتھ جمع ہیں۔ ان سب کی زندگیوں میں شاید کوئی اور قدر مشترک نہ ہو، لیکن مظلوم فلسطینی عوام کے لئے ان کی محبت اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا جذبہ انہیں ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے۔ اس قافلے میں مختلف تنظیمیں شریک ہیں جن میں ’’فریڈم فلاوٹیلا کولیشن‘‘ سب سے نمایاں ہے، جس نے ماضی میں بھی ایسے کئی خطرناک مگر عظیم مشن سر انجام دیے۔ اسی طرح ’’گلوبل موومنٹ ٹو غزہ‘‘، ’’مغربی صمود فلاوٹیلا‘‘ اور ’’صمود نوسانترا‘‘ جیسی تحریکیں بھی شامل ہیں۔ یہ سب مل کر ایک ایسی آواز بلند کر رہی ہیں جو سرحدوں سے ماورا ہے۔

            گلوبل صمود فلاوٹیلا کا مقصد  امداد پہنچانا ، اور اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کی عملی کوشش کرنا ہے۔ یہ وہ محاصرہ ہے جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے، لیکن طاقت کے زعم میں اسرائیل اسے مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلاوٹیلا کے شرکاء دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر حکومتیں اور عالمی ادارے انصاف نہیں کرتے تو عام انسان اپنے حصے کا فرض ادا کریں گے۔ یہ قافلہ خوراک، ادویات اور طبی سامان لے کر جا رہا، بلکہ یہ دنیا کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کا پیغام بھی ساتھ لے کر جا رہا ہے۔

             اسرائیل کی طرف سے اس قافلے کو شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے اسے ایک ’’میدانِ جنگ‘‘ میں داخل ہونے کی کوشش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت فلاوٹیلا کو غزہ پہنچنے نہیں دے گا۔ بعض کشتیوں پر ڈرون حملے اور راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اگر امداد واقعی انسانیت کے لئے ہے تو وہ اشدود یا عسقلان میں اتار دی جائے، لیکن فلاوٹیلا کے منتظمین اس تجویز کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ غزہ تک براہِ راست رسائی انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی شرائط کو ماننا محاصرے کو مزید جائز بنانا ہے۔

یہ سب خطرات اور رکاوٹیں دراصل اس حقیقت کو اور نمایاں کرتی ہیں کہ یہ سفر کتنا دلیرانہ ہے۔ دنیا کے عام انسان جب اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر سمندر کی موجوں پر ایسے سفر پر نکلتے ہیں جس کا انجام نامعلوم ہے تو یہ وہ لمحہ ہے جہاں انسانیت اپنی اصل شکل میں سامنے آتی ہے۔ یہ لوگ کسی فوج یا حکومت کے زیر سایہ نہیں ہیں، یہ اپنے ضمیر کے سپاہی ہیں، جو تاریخ میں اسی طرح یاد رکھے جائیں گے جیسے ماضی کے وہ لوگ جو ظلم کے سامنے ڈٹے رہے۔

یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب فلسطینی محاصرے کو چیلنج کرنے کے لئے فلاوٹیلا روانہ ہوئی ہو۔ 2010 میں’’ماوی مرمرہ‘‘ کے نام سے جانے جانے 

والاقافلہ پوری دنیا کے سامنے ایک علامت بنا تھا، جب اسرائیلی فورسز نے اس پر حملہ کر کے کئی افراد کو شہید کر دیا۔ اس وقت بھی دنیا نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی تھی، مگر اس کے باوجود محاصرہ ختم نہ ہو سکا۔ آج گلوبل صمود فلاوٹیلا اسی روایت کو آگے بڑھا رہی ہے، مگر اس بار شرکاء کی تعداد، ممالک کی شمولیت اور عالمی دباؤ کہیں زیادہ ہے۔

           غرض یہ سفر محض کشتیوں کا نہیں، بلکہ یہ عزم اور ایمان کا سفر ہے۔ یہ دنیا کو یہ بتانے کا اعلان ہے کہ دلیر انسان ابھی زندہ ہیں، کہ دنیا کے ہر خطے میں وہ لوگ موجود ہیں جو اپنے آرام کو قربان کر کے دوسروں کی بھلائی کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہ چراغ ہیں جو امید دلاتے ہیں کہ ظلم چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، مظلوم کی آواز کبھی دبائی نہیں جا سکتی۔ دنیا کے یہ دلیر لوگ ہماری اجتماعی انسانیت کی اصل طاقت ہیں، اور اگر دنیا میں کوئی حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے تو انہی کے قدموں سے آ سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ان دنوں اقوام متحدہ میں تقریباً ١٤٤ ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرلیا ہے ، اس لیے امید ہے کہ اس بار کشتیاں پار لگ جائیں گی ۔ اللّٰہ تعالیٰ حامی و ناصر ہو ۔

فَلتَسْتَمِرَّ سُفُنُ الصُّمودِ رَواسِياً فِي البَحرِ، تَحْمِلُ عِزَّةَ الأَحرارِ

مَا زالَ يَسْطَعُ نُورُها فِي أُفْقِنا يَهْدِي الشُّعوبَ إِلى طُرُقِ الانتصارِ

لَا تَنْحَنِي رِيحُ الحُقوقِ لِعاصِفٍ مَا دامَ يَسْنُدُهَا قُوَّةُ الإِصرارِ

فَلْتَكْتُبِ التَّاريخَ سُطُوراً خالِدَةً عَنْ أُمَّةٍ صَبَرَتْ عَلَى الأَخطارِ۔

چلو کہ عزم کا پرچم ہوا کے دوش پہ ہے

صمود قافلۂ حُر ہوا کے دوش پہ ہے

نہ ظلم موجِ بلا سے سفینہ روک سکے

یہ کشتیاں ہیں کہ صبر و رضا کے دوش پہ ہیں

جہاں جہاں بھی ستم کی گھٹائیں چھا جائیں

وہاں یہ قافلے خورشید سا کے دوش پہ ہیں

یہی سفینے ہیں آئندہ نسل کی امید

یہی ثبوت وفا ہیں، دعا کے دوش پہ ہیں

لکھے گا وقت کہ تاریخ نے یہ دیکھا ہے

فلاوٹیلا کے یہ قافلے خدا کے دوش پہ ہیں۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383