Oct 23, 2025 07:50 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
عکس،معرکہ اور امید: ازہر القادری

عکس،معرکہ اور امید: ازہر القادری

17 Sep 2025
1 min read

عکس،معرکہ اور امید

ازہر القادری  

قدرتی حسن سے مالا مال اور ثقافتی ورثے سے بھرپور ملک اس وقت اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمالیہ کی خاموش چوٹیوں کے دامن میں برسوں سے پنپنے والی سیاسی بےچینی، معاشی دُشواری اور عوامی اضطراب نے حالیہ دنوں وہ صورت اختیار کر لی، جس نے پورے خطے کو متوجہ کر لیا ہے۔ صدیوں پر محیط بادشاہت کے بعد، جمہوریت کی طرف بڑھنے والا یہ چھوٹا سا ملک اب ایک نئی نسل کے ہاتھوں اپنی تاریخ کی سمت از سرِ نو متعین ہوتے دیکھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا سے نکل کر گلیوں، بازاروں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازوں تک پہنچنے والی آوازوں نے نیپال کی سیاسی فضا میں زبردست ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ یہ کوئی عام احتجاج نہیں تھا، یہ نئی نسل کی طرف سے اپنے مستقبل کی بازیافت کی کوشش تھی۔ ایک نسل جو نہ صرف تعلیم یافتہ ہے بلکہ باشعور بھی، جو روایتی سیاست، جھوٹے وعدوں اور بند دروازوں کے فیصلوں کو اب مزید قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ *Gen Z* کے نام سے جانی جانے والی اس نسل نے وہ کام کر دکھایا جو برسوں سے نہ پارلیمنٹ کر سکی، نہ سیاسی پارٹیاں اور نہ ہی پرانے نظام کے دعوے دار۔

 مختصر یہ کہ ناگفتہ بہ حالات رونما ہوئے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیپال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون، سابق چیف جسٹس، سوشیلا کارکی، کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیا گیا تاکہ وہ آئندہ عام انتخابات ۲۰۲۶ء تک ملک کو سنبھالیں۔ یہ فیصلہ بظاہر ایک وقتی انتظام ہے، مگر اس کے اثرات طویل المدتی ہو سکتے ہیں۔ 

یہ احتجاج صرف حکومت یا کسی خاص پالیسی کے خلاف نہیں تھا، بلکہ اس پورے نظام کے خلاف تھا جس نے برسوں سے نوجوانوں کو نظر انداز کیا۔ تعلیم یافتہ مگر بے روزگار، باصلاحیت مگر نظر انداز، جڑے ہوئے مگر الگ! نیپال کا نوجوان طبقہ اس تضاد کا شکار ہے جس میں نئی دنیا کی امیدیں اور پرانا نظام آمنے سامنے ہیں۔ معیشت کی بنیاد بیرونِ ملک سے بھیجے گئے ترسیلاتِ زر پر ہے، جو ایک طرف وقتی سہارا ہیں مگر دوسری طرف مقامی صلاحیتوں کے زیاں کی علامت بھی۔ ملک کے اندر صنعتی، زرعی یا ڈیجیٹل شعبے میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونے کے باعث لاکھوں نوجوان خلیجی ممالک یا بھارت کا رخ کرتے ہیں۔ 

ان واقعات کے اثرات نیپال کی معیشت پر فوری اور شدید انداز میں ظاہر ہوئے۔ سب سے پہلے سیاحتی شعبہ متاثر ہوا، جو نیپال کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہوٹل، ٹریول ایجنسیاں، گائیڈز، ٹریکرز اور مقامی مارکیٹیں سب مفلوج ہوکر رہ گئیں۔ سرحدی تجارت متاثر ہوئی، خاص طور پر بھارت سے آنے والا سامان بندرگاہوں پر پھنس گیا۔ اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں بھاری اضافہ ہوا، مہنگائی نے غریب عوام کی کمر دوہری کردیا، اور بنیادی سہولیات تک رسائی ایک کٹھن مرحلہ بن گئی۔ عبوری حکومت ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے، مگر جب تک سیاسی نظام میں واضح سمت، اعتماد اور عملیت نہیں آئے گی، کوئی بھی قدم عارضی تسلی سے زیادہ نہ ہو گا۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیپال کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا یہ سیاسی بیداری کسی مثبت تبدیلی کا آغاز ہے، یا ایک اور مختصر سانس لینے والی لہر؟ تین ممکنہ راستے ہیں جن پر نیپال کا سفر آگے بڑھ سکتا ہے۔

 بہترین صورت میں، اگر عبوری حکومت شفاف انتخابات منعقد کرنے میں کامیاب ہو جائے، اور نئی منتخب حکومت نوجوانوں کی آواز سُنے، معیشت کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالے اور کرپشن کے خلاف حقیقی اقدامات کرے، تو نیپال ایک نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ ایسا نیپال جو ہائیڈرو پاور، ٹیکنالوجی اور سیاحت کے شعبوں میں علاقائی قیادت حاصل کرے اور جس کے نوجوان اپنا مستقبل وطن میں ہی تلاش کریں۔ عالمی سرمایہ کاری بڑھے، بھارت اور چین سے متوازن تعلقات قائم ہوں، اور جمہوری ادارے مضبوط ہو جائیں۔

 درمیانی راستے میں، حالات کسی حد تک سنبھل تو جاتے ہیں، لیکن اصلاحات سطحی یا محدود رہتی ہیں۔ انتخابات ہو جاتے ہیں، مگر نتائج پر سوالات اٹھتے ہیں۔ معیشت جزوی طور پر بحال ہوتی ہے، مگر روزگار کے بڑے منصوبے نہیں آتے۔ نوجوانوں کا اعتماد جزوی طور پر بحال ہوتا ہے، مگر مایوسی کا سایہ قائم رہتا ہے۔ یہ صورت حال ایک ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے جس میں نہ مکمل ترقی ہوتی ہے، نہ مکمل بگاڑ، بلکہ ایک مسلسل غیر یقینی کیفیت۔ 

بدترین منظرنامہ وہ ہو سکتا ہے جہاں انتخابات ملتوی یا متنازع ہو جاتے ہیں، احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں ہوتی ہیں، اور ریاست دوبارہ ان ہی پرانے سیاسی خاندانوں اور کرپٹ نظام کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے۔ سیاحتی شعبہ تباہ، بیرونی سرمایہ کاری بند، نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور اور معاشی گراوٹ ایسی کہ ملک ایک ناکام ریاست کی صورت اختیار کر لے۔ اس صورت میں نہ صرف نیپال اپنے عوام کا اعتماد کھو دیتا ہے بلکہ عالمی برادری میں بھی تنہا رہ جاتا ہے۔ 

فیصلہ اب نیپالی عوام، اس کی قیادت اور خاص طور پر نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہ تحریک صرف ایک وقتی ردِعمل نہیں بلکہ ایک مستقل بیداری کا اظہار ہے، تو اسے اداروں میں، قانون سازی میں اور پالیسی سازی میں منتقل کرنا ہو گا۔ شفافیت، احتساب، تعلیم، روزگار اور شہری آزادیوں پر توجہ دینی ہو گی۔ نیپال صرف ہمالیہ کی سرزمین نہیں، بلکہ وہ مقام ہے جہاں ماضی کی وراثت، حال کی جدوجہد، اور مستقبل کی امید ایک ساتھ زندہ ہیں۔ اب یہ اسی قوم پر ہے کہ وہ ان امیدوں کو حقیقت میں کیسے ڈھالتی ہے۔ 

.................. *ازہرالقادری* ۱۷،ستمبر۲۵

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383