چور مچائے شور
ازہرالقادری
ایک صدی گزر جانے کے باوجود امام احمد رضا کی حقانیت کا سب سے بڑا ثبوت خود دیوبند کی بے قراری ہے۔ وہ قلم جو اپنے وقت میں صرف دین کی سرحدوں پر پہرا دے رہا تھا، آج بھی ان کے دلوں میں چبھن بن کر زندہ ہے۔ اگر امام احمد رضا کی باتیں وقتی ہوتیں تو زمانہ کب کا ان کے نام کو مٹا دیتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کے فاصلے کے باوجود ان کی صداے حق آج بھی دارالعلوم دیوبند کے نصاب میں سوال بن کر گونج رہی ہے۔ یہ سوال ان کے قلم کا زخم نہیں، ان کی سچائی کی دھڑکن ہے، جو مخالفین کے دلوں میں اب تک دھڑک رہی ہے اور اپنی موجودگی سے اعلان کر رہی ہے کہ حق دبایا جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔
ایک صدی گزر گئی، موسم بدل گئے، سلطنتیں اٹھیں اور بکھر گئیں، مگر دیوبند کے نصاب میں آج بھی احمد رضا کا نام انگارے کی طرح دہک رہا ہے۔ اگر یہ صرف ایک شخص کی رائے تھی تو صدی بھر کے شور میں کب کی دب جاتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے قلم کی چبھن اتنی گہری ہے کہ وقت کا ریتیلا طوفان بھی اسے دفن نہ کر سکا۔ دیوبند چاہے جتنے نئے عنوانات تراش لے، ہر نیا سوال خود اعلان کرتا ہے کہ امام احمد رضا کی سچائی آج بھی ان کے سینے میں کانٹے کی طرح پیوست ہے۔ جو علما کل ان کے فتاویٰ کو "وقتی جھگڑا" کہتے تھے، آج انہی کے علمی ادارے اپنے امتحانی پرچوں میں اس وقتی جھگڑے کو زندہ رکھنے پر مجبور ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں، یہ تاریخ کی طنزیہ مسکراہٹ ہے جو دیوبند کی ہر نشست میں گونج رہی ہے۔
سوال بنانے والے خود نہیں جانتے کہ وہ جسے رد کرنے کے لیے سوال لکھ رہے ہیں، دراصل اسی کی صداقت پر مہر لگا رہے ہیں۔ دیوبند کے در و دیوار شاید آج بھی اس بے بسی کا گواہ ہیں کہ جنہیں امام احمد رضا کی تحریریں "مہم" لگتی تھیں، ان کے لیے اب یہی تحریریں نصابی ضرورت بن گئی ہیں۔ رد کرنے نکلے تھے، مگر رد کی ہر کوشش اعتراف میں بدل گئی۔ یہ تاریخ کا وہ مکانی زلزلہ ہے جو اعلان کرتا ہے کہ امام احمد رضا کی حقانیت کو نہ پرچے مٹا سکے، نہ زمانہ۔ گویا امام احمد رضا کا زلزلہ دیوبندیوں کو زیرو زبر کر کے بریلی کو اہل سنت کا لالہ زار ثابت کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ہر دھڑکن، ہر سوال، ہر امتحانی لمحہ یہ بتاتا ہے کہ وہ جو علمی اور عقیدتی پہرہ رکھتے تھے، آج بھی مخالفین کے نصاب میں اپنا طوفانی نشان چھوڑ گئے ہیں۔ حق ہمیشہ اپنے مخالف کے دل کی دھڑکن سے پہچانا جاتا ہے اور یہاں دھڑکن خود دیوبند ہے، جو یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ امام احمد رضا کی علمی روشنی آج بھی ان کے ادارے کے ہر گوشے میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے اور تاریخ کا ہر ورق ان کے موقف کو بے نقاب کرتا ہوا امام احمد رضا کی سچائی کا جشن منا رہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے شش ماہی امتحان ۲۰۲۵ء میں *"محاضرات علمیہ"* کے *"رد رضا خانیت"* کے عنوان کے تحت یہ سوال کیا گیا کہ:
*"مولوی احمد رضا خان صاحب کی تکفیری مہم کی مفصل تاریخ بوضاحت تحریر کریں۔"*
یہ سوال محض امتحان کا پرچہ نہیں، یہ ایک گہرا تیر ہے جو لفظوں کے نرم غلاف میں لپیٹ کر چھوڑا گیا ہے۔ "تکفیری مہم" کی ترکیب ایسی ہے جیسے کسی کی پوری علمی زندگی کو ایک سیاسی نعرے میں قید کر دینے کی کوشش۔ لیکن تاریخ کے چراغ جلائیں تو یہ نعرہ دھواں بن کر چھٹ جاتا ہے اور حقیقت کا چہرہ طلوع ہو کر کہتا ہے:
"یہ صرف دین کے پہرے دار کا قلم ہے جو عقاید کی سرحدوں پر نگہبانی کر رہا ہے۔"
امام احمد رضا کے قلم سے نکلنے والا ہر فتویٰ آج بھی محفوظ ہے۔ "فتاویٰ رضویہ" کی ضخیم جلدیں، حسام الحرمین کی گواہی اور حرمین کے علما کی تائید، یہ سب چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ انہوں نے کبھی امت کے عام افراد یا کسی پورے مسلک کو کافر قرار دینے کی مہم نہیں چلائی۔ ہر فتویٰ مخصوص عبارات اور معین افراد کے بارے میں ہے، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اگر وہ الفاظ کفریہ پر اصرار کریں تو حکم لگے گا۔
فتویٰ دینا شرعی منصب ہے، جلوس نکالنا یا نعرے لگانا نہیں۔ امتحان کے سوال میں جس "مہم" کا شور ہے وہ محض مخالفین کی اپنی ایجاد ہے، نہ کہ تاریخ کی شہادت۔
خود دارالعلوم دیوبند کے زیرِ اہتمام "محاضراتِ علمیہ" بر موضوع "رد رضاخانیت" میں جو کچھ کہا گیا، وہ اسی بات کی تصدیق کرتا ہے۔ ان محاضرات میں دیوبندی علما نے بریلوی علما کی مخصوص عبارات پر علمی اعتراضات پیش کیے، اقتباسات دیے اورحوالہ جات دیے، مگر کہیں یہ نہیں ہے کہ: "احمد رضا خان نے کوئی عوامی تحریک یا منظم مہم چلائی ہو۔"
ان کے اپنے دلائل یہ بتا رہے ہیں کہ معاملہ محض علمی مناظرہ تھا، نہ کہ کوئی سیاسی لشکر کشی۔
فتاویٰ رضویہ: "
ہر فتویٰ مخصوص سوال کے جواب میں، شرائطِ تکفیر کے ساتھ (جلد 14، ص 452 وغیرہ)
" حسام الحرمین: "
مکہ مکرمہ کے علما کی تصدیق کہ مسئلہ متعین عبارات کا ہے، امت کی عام تکفیر کا نہیں۔
" محاضراتِ علمیہ:
"خود دیوبندی علما کے بیانات کہ یہ علمی اختلاف ہے، کوئی اجتماعی مہم نہیں۔" یہ حوالہ جات بتاتے ہیں کہ جسے "تکفیری مہم" کہا جا رہا ہے وہ دراصل "تحفظ عقاید" کی علمی کاوش ہے۔ امام احمد رضا خان نے عقیدۂ ختمِ نبوت اور حرمتِ رسالت پر جو پہرہ دیا، وہ جراح کے نشتر کی طرح تھا، زہر نکالنے کے لیے چبھتا ہے مگر جان بچاتا ہے۔ ان کی تحریریں سیاست کی گرم بازاری نہیں بلکہ عشقِ مصطفی کی ٹھنڈی روشنی ہیں۔ ان کے فتوے اگر کسی کو کڑوے لگیں تو اس کا سبب زخم کا علاج ہے، نہ کہ کسی گروہ کو مٹانے کی خواہش۔ امتحان کے کاغذ پر اگر یہ سوال آئے تو جواب میں یہ لکھنا عین انصاف ہے کہ: "امام احمد رضا خان پر "تکفیری مہم" کا الزام ایک سیاسی اصطلاح ہے، علمی حقیقت نہیں۔ ان کے فتاویٰ متعین عبارات اور مخصوص افراد کے بارے میں تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی کتاب "محاضرات علمیہ" بر موضوع "رد رضاخانیت" خود اس بات کی شاہد ہے کہ: "اختلاف علمی تھا، مہم ہرگز نہیں." نتیجتا: چاہے
یہ سوال امتحان کے پرچے میں آئے یا منبر کی بحث میں، اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوگا: "امام احمد رضا کی زندگی "تحفظ عقاید" کی ایک داستان ہے، نہ کہ "تکفیری مہم" کا افسانہ۔ ان کے قلم کی ہر سطر دلیل کی روشن دھار ہے، جو الزام کی دھند کو کاٹ کر کہہ رہی ہے: *"یہاں مہم کاشورنہیں،ایمان کی سرحدوں پرپہراہے۔"*
*ازہرالقادری*
۱۷,ستمبر۲۵ 9559494786 نوٹ:یہ ابھی پہلےسوال کاسرسری جائزہ ہے۔(جاری)