Oct 23, 2025 07:36 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
ایک چراغ، ایک داستان

ایک چراغ، ایک داستان

25 Sep 2025
1 min read

ایک چراغ، ایک داستان

مدرسہ مظاہر العلوم: مکتب سے دارالعلوم تک کا سفر

محمد رضوان احمد مصباحی صدر مدرس: مدرسہ مظاہر العلوم صفتہ بستی، راج گڑھ، بارہ دشی ایک، جھاپا، نیپال

 

"چراغ جلانے والے اکثر تنہا ہوتے ہیں، مگر ان کے جلائے چراغ سے نسلیں روشنی پاتی ہیں۔"

زندگی کی راہیں اکثر ایسے موڑ پر لے آتی ہیں جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں: ایک آسانی اور سہولت کا، دوسرا ایثار و قربانی کا۔ تاریخ انہی لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو آرام و آسائش کو چھوڑ کر قربانی کی کٹھن راہ کو اختیار کرتے ہیں۔جہاں فضاؤں میں جہالت کا اندھیرا چھایا ہو، دل و دماغ علم و عرفان کی روشنی سے کوسوں دور ہوں، وہاں اصلاح و تربیت کا چراغ جلانا گویا طوفان کے بیچ نازک سی شمع روشن کرنے کے مترادف ہے۔ یہ کام صبر و استقلال، عزم و حوصلہ اور مسلسل قربانی مانگتا ہے۔ یہی جدوجہد ہے جو تھکے قدموں کو وقار بخش دیتی ہے اور خاموش فضاؤں کو بامعنی بنا دیتی ہے۔

مدرسہ مظاہر العلوم صفتہ بستی کی داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے — ایک اجڑا ہوا گاؤں، ایک پسماندہ بستی، اور ایک دل جس میں خدمتِ دینکا عزم دھڑک رہا تھا۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے مقام کی، جہاں اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ علم کی کوئی کرن نظر نہ آتی تھی۔ یہ قصہ ہے اس بستی کا جسے دنیا غفلت اور گمنامی کے نام سے جانتی تھی۔

یہ بستی نیپال کے ضلع جھاپا کے بارہ دشی گاؤں پالیکا کے وارڈ نمبر ایک میں واقع ہے۔ چاروں طرف کھیت، کچے مکان اور غربت و جہالت کا دور دورہ۔ نہ تعلیم کا چرچا، نہ تربیت کا معیار۔ چھوٹے بڑے سب دین و شریعت سے ناواقف، یہاں تک کہ نماز و جمعہ کے ارکان تک سے بھی بے خبر۔ گویا اندھیروں میں بھٹکتا ہوا ایک قافلہ تھا۔۲۰۱۹ کے اواخر میں فراغت کے بعد تراویح کی غرض سے اس بستی میں آنا نصیب ہوا۔ اس دوران لوگوں کو نماز، روزہ اور دیگر بنیادی مسائل سکھائے تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ کیفیت کچھ ایسی تھی جیسے برسوں کا مسافر منزل کی تلاش میں ہو، یا پیاسا شخص

کنویں کی جستجو میں۔ تراویح اور عید کے بعد واپسی تو ہوگئی، لیکن دل میں ایک خلش سی باقی رہ گئی۔ یوں محسوس ہوا جیسے کوئی آواز پکار رہی ہو:

" یہی وہ جگہ ہے جہاں چراغ جلانا ہے، یہی وہ وادی ہے جہاں روشنی پھیلانی ہے۔"

اسی دوران استادِ محترم اور مربیِ مشفق، دادا جان منشی محمد ابراہیم صاحب کا انتقال ہوگیا انا للہ وانا الیہ راجعون، یہ وہی محسن ہیں جن کی آغوش میں، میں پلا بڑھا، جن کی محنت اور انتھک کوششوں کی وجہ میں اس لائق بنا اور میری زندگی میں ایک انقلاب برپا ہوا ۔ چہلم کے بعد جب گاؤں والوں نے فون پر بار بار اصرار کیا تو دل نے فیصلہ کر لیا: اب یہیں قیام ہے، یہیں سے خدمتِ دین کی فصل اُگانی ہے۔

گاؤں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ ڈھول باجے، جوا، شراب اور بے حیائی عام تھی۔ جمعہ کی نماز میں صفیں خالی رہتیں اور نوجوان سڑکوں پر آوارہ پھرتے۔ ایسے حالات میں حوصلہ پست ہونا فطری تھا، مگر میں نے ہمت نہ ہاری۔ دو امور پر خصوصی توجہ دی:

1. تعلیمِ قرآن( یعنی علم حاصل کرنے پر زور دیا ) 

2. جمعہ کا خطبہ (جس میں حالات کے پیش نظر مختلف موضوعات پر اصلاحی خطاب کا سلسلہ ) 

جہاں صرف ڈیڑھ دو گھنٹے کی ذمہ داری تھی، وہاں دن کے پانچ پانچ گھنٹے بچوں کو پڑھانے میں صرف ہوئے۔ ننھے لبوں کو سب سے پہلے الف اور با کی پہچان کرائی، اور پھر انہی زبانوں سے قرآن کی تلاوت کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ رفتہ رفتہ قرآن کی برکت سے دلوں میں علم و شوق کی روشنی پھیلی۔ وہی مکتب جہاں ٹاٹ پر بیٹھ کر بچے حروف سے آشنا ہوئے، آج قرآن کے ترانے گنگنانے لگا۔ جمعہ کے خطبات اور اصلاحی نصیحتوں نے بڑے بزرگوں کے 

بھی کیفیت اور دل کو بدل دیے۔

کامیابی کی خوشبو:_____

امتحانات اور مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا جس نے بچوں کے اندر جوش اور خوداعتمادی پیدا کی۔ نتائج والدین کے سامنے پیش کیے گئے تو ان کی آنکھیں خوشی سے نم ہوگئیں۔ پڑوسی غیر مسلم افراد بھی پروگراموں میں شریک ہوکر کامیاب طلبہ کو انعامات دینے لگے۔ یہ منظر اس بات کی گواہی تھا کہ تعلیم کا چراغ سب کے دلوں کو روشن کرتا ہے۔

ایک وقت تھا جب پورے گاؤں میں پانچ لوگ بھی قرآن کے قاری نہ تھے، اور آج سینکڑوں بچے قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں۔

مکتب سے دارالعلوم تک:____

وہی مکتب جو ٹاٹ اور ٹین کی چھت کے سہارے قائم ہوا تھا، آج اللہ کے فضل سے پانچ کمروں پر مشتمل عمارت بن چکا ہے۔ جہاں بیت الخلا تک نہ تھا، آج تمام بنیادی سہولتیں موجود ہیں۔

الحمدللہ اب یہ ادارہ دارالعلوم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جہاں قیام و طعام کا معقول انتظام ہے۔ شعبۂ حفظ میں بیس سے زائد بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ کوئی پانچ پارے، کوئی دس، اور کوئی پندرہ پارے کلامِ مقدس اپنے سینے میں محفوظ کر چکا ہے۔ یہ وہی بچے ہیں جو 

کبھی قرآن کی ایک آیت تک نہیں جانتے تھے۔چھ برس کا یہ سفر آسان نہ تھا۔ کبھی آنکھیں اشک بار ہوئیں، کبھی دل تھک گیا۔ مگر بچوں کی ہنسی، والدین کی دعائیں اور گاؤں کے لوگوں کی حوصلہ افزائی نے ہر تھکن مٹا دی۔آج مدرسہ مظاہر العلوم صفتہ بستی کی پہچان نہیں رہا بلکہ جھاپا اور پورے نیپال کی آواز بن گیا ہے۔ اس کی روشنی سرحد پار ہندوستان تک پہنچ رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب نیت خالص ہو تو اجڑی بستی بھی ایمان و علم کا گلزار بن سکتی ہے۔

اللہ کرے یہ چراغ ہمیشہ روشن رہے، یہ بستی قرآن کی صدا سے مہکتی رہے، اور یہ مدرسہ تا قیامت ایمان و تقویٰ کی روشنی پھیلاتا رہے۔ یہ محض ایک ادارے کی تاریخ نہیں بلکہ ایک عہد کی شہادت ہے — کہ جب نیت صاف ہو اور مقصد بلند، تو چھ سال میں ویرانی سے روشنی جنم لے سکتی ہے۔یہ کہانی ہے ایک چراغ جلانے والے کی، اور اس چراغ سے جلنے والی ہزاروں شمعوں کی۔اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں اس ادارے کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، اسے دین کا مضبوط قلعہ بنائے اور اراکین، معاونین، طلبہ و اساتذہ کی تمام خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین۔

نمائندہ: ہفت روزہ نیپال اردو ٹائمز

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383