نیپال کی حاليہ انقلاب کا پس منظر
از قلم : ادیب شہیر ماہر تقابل ادیان حضرت علامہ نور محمد خالد مصباحی ازہری
مرکزی خازن علما فاؤنڈیشن نیپال
قرآن مقدس کے مطالعہ سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ پاک نے بنی نوع انسان کو مختلف قوموں اور قبيلوں میں پیدا کیا اور اس تخلیق کی علت بھی لتعارفوا سے بيان فر ماديا، چنانچہ ارشاد باری ہے: ’’یا ايها الناس انا خلقنكم من ذكر وانثي وجعلنكم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمكم عند الله اتقاكم‘‘ ترجمه (.اے بنی نوع انسان ہم نے تمہیں آدم وحواء سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں كي شكل میں بنایا کیا، تاکہ تم بطور حسب و نسب ایک دوسرے کو پہچانو، الله کے نزدیک معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔)۔
یعنی کسی خاص قبیلہ میں پیدا ہونا وجہ فخر نہیں، بلکہ پرہیزگار ہونا وجہ فخر ہے، جیسے یہودی فخریہ کہا کرتے ہیں ’’نحن أبناء الله‘‘ ہم اللہ کے بیٹے ہیں، کیونکہ بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے، اور برہمن بھی فخریہ کہا کرتے ہیں کہ ہم برہما کے منہ سے پیدا کئے گئے ہیں۔ قرآن مجید ایسی باطل نظریات کی تردید کرتا ہے۔
نیپال میں بھی مختلف شعوب وقبايل کے لوگ بستے هيں، مثلا برهمن ايک شعبہ ہے اور اس کے متعدد قبائل ہیں، جیسے کوئرالہ، دحال، اريال، شرما، پانڈے، اپدھیائے، بھنداری، گھیمیرے وغيره۔ اسي طرح راجپوت ایک شعبہ ہے، اس کے متعدد قبائل ہیں، مثلا كاركي، تھاپا، کھنال وغیرہ۔ اسی طرح لفظ مسلمان نيبال كی اصطلاح ميں ايک سمادائے (سماج )کو کہا جاتا ہے، جس میں مختلف برادریاں آتیں ہیں۔ مثلا: خان، پٹھان، انصاری، تیلی، منصوری، دھوبی، درزی، صدیقی، منیہار وغیرہ۔ یہی حال گرنگ، مدھیسی، تھارو وغیرہ كا ہے۔
نيبال ميں ہزاروں ذات تہذيب وثقافت ہیں۔
بنی نوع انسان کو مختلف قبائل میں خالق کائنات کے پیدا کرنے کا مقصد اپسی تعارف و تعاون ہے، نہ کہ باہمی رقابت وچپقلش، مگر معاملہ بر عکس ہو گیا، برہمنون اور راجپوتوں نے اپنے علاوہ دوسرے شعوب و قبائل كو ان کے بنیادی حقوق سے محروم كرنا شروع كر ديا اور عصبيت کے شكار هوگئے۔
آئیے اب ہم تھوڑا نیپال کی تاریخ پر نظر دوڑا لیتے ہیں، جب ہم لفظ ’’نیپال‘‘ بولتے ہیں تو فورا ہمارا ذہن اس ملک کی طرف چلا جاتا ہے جو چین و ہند کے درمیان واقع ہے، جو شمالا و جنوبا 193کلو میٹر چوڑا و شرقا وغربا ,885 کیلو میٹر لمبا ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے نیپال تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: ہمالی، پہاڑی، ترائی۔
لیکن موجودہ نیپال 240 برس پہلے ایسا نہیں تھا جیسا کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں، بلکہ اُس وقت نیپال مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ گورکھا کے راجہ پرتھوی نارائن شاه نے اپنے دور حكومت 1768 میں ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر قبضہ کر کے ایک عظیم الشان نيبال کی بنیاد رکھی، اور اس طرح نیپال مختلف مذاہب و ثقافت کے لوگوں کا مشترکہ ملک بن گیا۔
موجودہ نیپال میں برہمنوں کی آبادی 13فيصد جنہیں نیپالی میں بابھن اور راجپوتوں کی آبادی 17 فيصد، جنہیں نیپالی میں چھتری بھی کہا جاتا ہے، ان دونوں قبیلوں کو نيبال ميں آریہ کھس بھی کہا جاتا ہے ۔بقیہ 70 فيصد آبادی ميں مختلف شعوب وقبايل کے لوگ آتے ہیں، مثلا تھارو ۔مدھیشي ۔گرنگ ۔تمانگ ۔مسلمان .وغيره۔
اب اس تمہید کے بعد جین جی انقلاب کا پس منظر کیا ہے اس پر روشنی ڈالتا ہوں۔
در حقیقت اس کے پس پردہ وہ غیر منصفانہ سیاسی ۔معاشی ۔سماجی عوامل کارفرما ہیں جو صدیوں سے برہمنوں اور راجپوتوں نے ان قبائل کے ساتھ انجام دیا ہے، نیپال کے دور ملوکیت میں زمام حكومت انہیں راجپوتوں اور برہمنون کے ہاتھوں میں تھی راجپوت اور برہمن ہی نیپال کے سیاہ و سفید کے مالک تھے زمینیں اور جائیدادیں ان کے زیر تسلط تھیں۔
وہ۔(Nepotism.یا Nepokids) موروثيت میں مبتلا تھے ۔یہ۔ایک۔جدید اصطلاح ہےجس کا مطلب ہوتا ہے شعبه سياسيات .مذهبيات تفریحي
مقامات ہالي وود بالي وود ميں باپ کے بعد بیٹا ۔بیتی بھتیجا بھتیجی ۔بھانجہ بھانجی يا كسي اور قريبی رشتہ دار کو اپنا ولی عہد یا جانشين مقرر كر دينا چاہے وہ اس کا مستحق ہو يا نہ ہو۔
پڑوسی ملک بھارت میں گاندھی خاندان، بہار میں لالو یادو خاندان، یوپی میں ملائم سنگھ خاندان، مہاراشٹر میں ٹھاکرے خاندان، کشمیر میں عمر عبداللہ خاندان، اور دوسرے صوبہ جات کا بھی یہی حال ہے۔
پاکستان میں بھٹو خاندان، شریف خاندان، زرداری خاندان، بنگلہ دیش میں حسينہ خاندان، نيپال ميں كويرالا، ديوا، پرچنڈ خاندان یہ سب نیپوازم کی روشن مثالیں ہیں۔
یہی حال فلمی دنیا میں بھی ہے، خاندانی دبدبہ۔
مذہپیات ميں بھی Nepotism موروثيت پائی جاتی ہے مثلا ایک خانقاہی نظام کے حامل پیر صاحب قبلہ اپنے بعد اپنے ہي بیٹا کو اپنا گدی نشین یا سجادہ نشیں منتخب کر تے ہیں، خاص طور پر یہ اس وقت اور برا ہو جاتا ہے جب کہ وہ ولی عہد يا جانشینی کا اہل نہ ہو، ہاں اگر وہ اس لائق ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمة کے جانشیں حضرت خواجہ بختیار کاکی علیہ الرحمة. ان کے جانشیں بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمة. ان كے جانشیں خواجہ نظام الدین اولیاء عليه الرحمة. ان کے جانشیں خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی عليه الرحمة .ان کے جانشیں خواجہ بندہ گیسو دراز عليه الرحمة۔
غور كريں کسی نے اپنے بیٹے کو اپنا گدی نشیں یا جانشیں نامزد نہ کیا، بلکہ اپنے مریدوں میں سے جو زیادہ بہتر تھا اسے ہی نامزد کر دیا ۔خیر اس موضوع پر میں زیادہ تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہتا ہوں کہ گریز کرنے ہی میں میری سلامتی ہے۔
شعبہ سیاسیات میں حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنی حيات ظاہری ميں ریاست مدینہ کے لئے اپنے خاندان کے کسی فرد کو خلافت کے لئے منتخب نہ فرمایا، بلکہ اشارة حضرت ابو بكر الصديق رضي الله عنه كو نامزد كيا، یہی۔حال حضرت ابو بكر الصديق رضي الله عنه كاتھا آپ نے اپنے بیٹوں ميں سے کسی کو نامزد نہ کیا، یہی حال حضرت عمر قاروق رضي الله عنه، حضرت عثمان غني رضي الله عنه وحضرت علي كرم الله وجهه الكريم كا حال تھا، چونکہ اسلام Nepotism کا مخالف ہے ’’وامرھم شورى بينهم‘‘ اس پر دال ہے۔
خیر نیپالی عوام نیپال کے اس جابرانہ نظام کے خلاف متعدد بار سڑکوں پر آئے، مگر ان کی آوازیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں اور وقت کے فرعونوں نے لاٹھی ڈنڈے کی طاقت سے ان کی آوزوں کو دبا دی، بالآخر کمیونسٹ ماوبادی پارٹی ، پرچند دہال کی قیادت میں ملوکیت کے خاتمہ کے لیے پر عزم ہو چکی تھی، اس نے عوام کی حمايت سے 2008 میں ملوكيت کا خاتمہ کیا، جس میں 17000 افراد نے اپنی جانوں کا ندرانہ پیش کرکے جمہوریت کو بحال کیا، تاکہ اس نظام جمہوریت میں تمام طبقات کو سیاسی معاشی سماجی مساوات نیز مذہبی آزادی حاصل ہو سکےمگر عملا یہاں بھی برہمنوں اور راجپوتوں نے ملک کو یرغمالی بنا لیا اور مشہور سیاسی جماعتوں کے رہنما بن کر زمام اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں ہے لیا۔ موجودہ دور جمہوریت 2008 تا 2025 ان سالوں میں 14 وزراء اعظم ہوئے، مگر وہ یا تو برہمن تھے یا راجپوت۔ ذرا آپ اس سیاسی عدم مساوات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 2025 ميں نیپال کے 164 پارلیمنٹ ممبران میں سے 95 ممبران پارلیمنٹ برہمن اور چھتری تھے ، یہی حال محكمه پولیس .فوج. اور دوسرے اداروں كا بھی ہے، تھارو، مدھیشي، مسلم منغول تمانگ گرنگ وغيره قبائل كو آبادی کے تناسب سے ان کے عهدوں سے محروم کر دیا گیا۔ جو ایک جمہوری ملک کے لئے مناسب نہیں۔
ملک میں بے روزگاری ۔مہنگائی ۔رشوت خوری کا بازار گرم تھا نوجوانوں کے دلوں میں حكومت مخالف لاوے ۔جنم لیے رہے تھے چنانچہ اسی سال کے 4
ستمبر كو حكومت نے 26 شوشل ميديا پر پابندی لگا کر وجہ یہ بتائی کہ یہ سب سوشل میڈیا پلیٹ فارم حكومت نیپال سے رجسٹرڈ نہیں ہیں ۔عوام جو پہلے سے ہی بے روزگاری مہنگائی ۔بدعنوانی ۔رشوت خوری ۔سے تنگ آ چکی تھی ۔خاص کر نوجوان نسل جنہیں اصطلاح جدید میں Genz کہا جاتا ہے(پندرہ سال سے 28 سال تک کے نوجوان، ) آج کے دور میں جین جی چونکہ۔سوشل میڈیا کے بہت دلدادہ ہوتے ہیں مزید بے روزگاری کی وجہ سے وہ لوگ یوٹوبر بن کر یو ٹیوب کے ذریعہ روزی روٹی بھی کماتے ہیں اس لئے انہیں غصہ آيا. عوام الناس نے حكومت كي طرف سےسوشل ميديا بند كرنے کی۔دو اور وجهيں بيان كي ہیں 1۔ مشرقی نیپال کی رہنے والی محترمہ پانڈے کہتی ہیں کہ نیپال کے کورے نامی پہاڑی علاقے سے کان کنی کے ذریعہ قیمتی معدنیات کو ایک پرائیویٹ کمپنی کے ذریعہ کھود کر نکالا جا رہا تھا جو کہ عوامی ملکیت ہے اور نکالنے والے موجودہ حكمران جماعت کے قد آور سیاسی شخصيت ہیں جب ان کی یہ کان کنی کی ویڈیو سوشل میدیا پر وائرل ہوئی تو حكومت كو پریشانی لاحق هو گئی کہ اب تو عوام بپھر جائے گی ۔اس لئے سوشل میڈیا کو بند کر دیا ۔دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ حكمران جماعت کے لڑکے لڑکیاں پیرس ولندن کے مہنگے مہنگے برانڈذ کے کپڑے زیب تن کرکے اس کی پوز بنا کر نیز ہوٹلوں کی لگزری لایف اسٹائل ۔کا پوز بناکر سوشل میڈیا میں ڈالتے تھے عوام نے بالخصوص نوجوانوں نے جب اس منظر کو دیکھا تو انہیں بڑی تکلیف ہوئی کہ ایک۔ہم۔لوگ ہیں کہ کالج کی فیس اسپتال۔میں علاج ومعالجہ کے لئے روپیہ نہیں رکھتے اور آنجناب وزراء کے بچے بچیاں عوامی ٹیکس کے پیسوں سے پیرس ولندن کی گلیوں میں رنگ رلیاں منا رہے۔ہیں ۔
آخر 8 ستمبر كو نيبال كی دارالحکومت کاٹھمندو کے میتی گھر سے Genzکا ایک پر امن احتجاجی جلوس نکلتا ہے اور
دھیرے دھیرے ایک جم غفیر کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس احتجاج ميں ہزاورں بایک سوار بھی تھے جو دیکھنے میں Genz نہیں بلکہ چور اور لٹیرے معلوم ہو رہے تھے، کاٹھمنڈو میں عجب شور و شرابہ تھا بس سب کی۔زبان پر یہی جملہ تھا اولی چور دیش چھوڑ ۔بھرسٹاچار بند گرا ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ ریلی مایتی گھر سے نکل۔کر بھانیشور ۔نیپال کی پارلیمنٹ تک پہچ گئی ۔بایک سوار موٹر سائیکلوں سے پٹرول۔نکال۔نکال کر اپنے ہی ملک کی قانون ساز اسمبلی پر ڈال کر اسے ہی نذر آتش کر رہے تھے، كيا انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کے مقدر کا فیصلہ یہیں ہوتا ہے۔ کچھ نوجوان تو پارلیمنٹ ہاؤس میں گھسنے کے لئے دیوار کو پھلانگنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، بالآخر پولیس اہلکاروں نے آنسو گیس چھوڑ کر بھیڑ کو قابو میں کرنے کی کوشش کی مگر تشدد بڑھتا گیا اور پولیس نے بھیڑ کو بے قابو دیکھ کر گولی چلا دی جس میں 19 افراد جاں کی بازی ہار گئے۔ سینکڑوں زخمی ہوئے، اب کیا تھا ایک نہ رکنے والے سیلاب کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، وزير داخله مستعفی ہوگئے اور ایک ایک کرکے سارے وزارء مستعفی ہوگئے، آخر میں ملک کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے بھی صدر جمہوریہ کے سامنے استعفی دے کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ۔
انقلابیوں نے وزراء کو چن چن کر مار ا ان کے ذاتی مکانات کو نذر آتش کر دیا ۔ان کے مال ومتاع کو یا تو لوٹ لیا یا نذر آتش کر دیا، انقلابیوں میں اکتریت منغولوں یعنی گرنگ ۔تمانگ اور ۔خانہ بدوش قبائل کی تھی۔ جنہوں نے اپنے جد اعلی چنگیز خان و ہلاکو خان کی یاد تازہ کرتے ہوئے نیپال کی پارلیمنٹ ۔سپریم کورٹ ۔سنگھ دربار فائیو اسٹار ہوٹل کو نذر آتش کر دیا، 48 گھنٹوں کے دوران کاٹھمنڈو کو جاپان کا ہیرو شیما یا دوسری جنگ عظیم کے بعد کا جرمنی بنا دیا گیا ۔
صدریہ جمہوریہ فوجی ہیڈ کوارٹر میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے پورے ملک میں ایک عجیب سی کیفیت رونما تھی ہر کسی کی زبان پر يہ محاورہ تھا کہ دیکھو اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے آخر کار 12 ستمبر كو صدر جمہوریہ نے بڑی گہما گہمی کے بعد پارلیمنٹ کو تحليل کر دیا اور محترمہ شوشیلا كاركي سابق چیف جسٹس آف نیپال كو ملک کی پہلی خاتون و پندرہویں عبوری وزیر اعظم بننے کا شرف حاصل ہوا ۔
اس انقلاب میں 3 ٹريلين نیپالی روپئے کا مالی نقصان ہوا جو تقریبا 15 بلین امریکی ڈالر کے مساوی ہے ۔اور نیپال کی فی کس سالانہ آمدنی يعني GDPجو كہ 1500 سو امریکی ڈالر تھی اس سے بھی کم ہوگئی،
اب آگے دیکھنا ہے کہ اس انقلاب سے بے روزگاری مہنگائی ۔رشوت خوری ۔ Nepotism کا خاتمہ ہوتا یا نہیں، ملک دس سال آگے جاتا ہے یا پیچھے، یہ تو آنے والا وقت طے کر ے گا ۔