اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے تجدیدى کارنامے
از: کلام الدین نعمانی مصباحی امجدی
خاک ہند زرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی، اس کی خمیر سے بڑی بڑی نامور اور مقتدر شخصیتوں نے جنم لیا، ملک و وطن اور مذہب و ملت کے لیے جن کی ہمہ گیر خدمات اور قابل فخر کارنامے تاریخ ہند کے قیمتی نقوش ہیں، انہیں محافظان ملت میں ایک تاریخ ساز اور ہر دل عزیز شخصیت علامہ شاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کی بھی ہے، چودھویں صدی کے دامن پر پھیلی ہوئی جن کی خدمات ستاروں کی طرح روشن و عیاں ہیں، آپ کی پروقار اور دل آویز شخصیت ہند و بیرون ہند میں محتاج تعارف نہیں، اور یہ خدمت خلق ، عبادت و ریاضت اور خلوص للہیت کا اثر ہے کہ خدائے وحدہ لا شریک نے آپ کو عوام وخواص میں وہ شہرت و مقبولیت عطا فرمائی کہ رہتی دنیا تک اس کا نقش لوگوں کے دلوں سے نہیں مٹ سکتا۔
اسم گرامی : محمد، تاریخی نام: المختار ۱۲۷۲ ھ ، جدامجد مولا نا شاه رضا علی خان (ولادت : ۱۸۰۹/۱۲۲۴ ، وفات : ۱۸۶۵/۱۲۸۲ ) احمد رضا كہہ کر پکارا کرتے اور آپ نے اظہار غلامی کے طور پر خود عبدالمصطفی کا اضافہ فرمالیا تھا ۔
سلسلۂ نسب : امام احمد رضا بن مولا نانقی علی خان بن مولا نارضاعلی خان بن حافظ کاظم علی خاں بن محمد اعظم خاں بن سعادت یار خاں بن سعید اللہ خاں ۔
والد ماجد : مولانا نقی علی خاں رحمہ اللہ ( ولادت : ۱۲۴۶ ھ / ۱۸۳۰ ء - وفات : ۱۲۹۷ ھ / ۱۸۸۰) اپنے عہد کے بلند پایہ عالم تھے، فتوی نویسی کے علاوہ چھوٹی بڑی پچیس کتابیں تصنیف فرمائیں، جن میں سے کچھ ہی کتابیں چهپ سکیں " سرور القلوب في ذكر المحبوب " اور " جواهر البيان في اسرار الاركان " تفسیر سورہ الم نشرح " ىہ ضخیم کتابیں بار بار چپ کر دنیامیں پھیل چکی ہیں ۔ ان کا شمار شہر کے رؤسامیں تھا ۔
تاریخ ولادت:۱۰؍ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۴؍جون ۱۸۵۶ء بروز شنبہ بوقت ظہر بریلی شریف میں آپ کی ولادت ہوئی۔
اعلی حضرت علیہ الرحمہ خود ارشاد فرماتے ہیں: بحمداللہ میری تاریخ ولادت اس آیت کریمہ میں ہے۔
"اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایدھم بروح منہ"۔(المجادلہ: ۲۲)
ترجمہ:۔ اے محبوب نہ پائیں گے آپ ان لوگوں کو کہ اللہ کے دشمنوں سے اور رسول کے دشمنوں سے دوستی رکھیں اگرچہ وہ (دشمنان خدا و رسول ان کے باپ ہوں یا اولادہوں یا بھائی ہوں یا ان کے کنبہ و قبیلہ کے ہوں)
یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان نقش فرمایا اور اپنی طرف سے روح القدس کے ذریعہ ان کی مدد فرمائی۔
اس آیت کریمہ میں الله رب العزت نے اپنے محبوب بندوں کی فطرت بطور نشانی بیان فرمایا ہے، ان کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ اللہ و رسول کے دشمنوں سے ترک موالات کا اعلان کرتا رہے تاکہ بھولے بھالے مسلمان بھی ان سے بچ کر اس آیت کریمہ کے حکم میں آجائیں، اور جو بشارت ان بندگان خدا کے لیے دی گئی ہے وہ بھی اسی بشارت کے مستحق ہو جائیں۔ وہ بشارت ایمان اور تائید غیبی کی بشارت ہے، یہی آیت کریمہ خدا وند عالم کے محبوب اور پسندیدہ بندوں کی پہچان بھی ہے۔
اعلی حضرت سیدنا امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ عالم اسلام کی اس ہشت پہلو شخصیت کا نام ہے جو فکر و مزاج کے اعتبار سے نہایت نرم ، حسن اخلاق و کردار کے پیکر جمیل اور احسان و مروت ، پیار و شفقت کی اعلی منازل پر فائز تھے، اس کے باوجود بھی حریفوں نے ان کی فکر و شخصیت کو شدت پسند ، مکفر المسلمین، انگریز نواز اور بدعات و منکرات کو فروغ دینے والا کہنے اور مشہور و بد نام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن حقائق و شواہد اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ امام احمد رضا کو بد نام کرنے کی ان کے مخالفوں نے جتنی بھی سازشیں اور جعل سازیاں کیں انہیں جب کسوٹی پر پرکھا گیا ، جانچا گیا تو اصحاب فکر و بصیرت پکار اٹھے کہ جس کے بارے میں اس قدر پروپگینڈے اور بے بنیاد الزامات و اتہامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے وہ تو منکسر المزاجی ، صلہ رحمی ، عفو و در گزر اور بلند اخلاق کا ایک مہ درخشاں ہے، جس کی تابانی اور ضوفشانی کے آگے بڑے بڑے ہیچ نظر آتے ہیں۔
راقم سطور اپنے اس مقالے میں امام احمد رضا محدث بریلوی کے فتاوی و کتب اور رسائل کی روشنی میں اس بات کو اچھی طرح واضح اور روشن کرنے کی کوشش کرے گا کہ محدث بریلوی پر شدت پسندی اور تند مزاجی کا جو بے اصل الزام لگایا گیا ہے، امام موصوف علیہ الرحمہ کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
یہ بات تو آفتاب کے مانند روشن ہے کہ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ جس مذہب مہذب کے داعی و مبلغ تھے وہ مذہب کبھی اور کسی وقت بھی سختی اور تشدد کی تعلیم نہیں دیتا، بلکہ وہ تو ہر وقت نرمی اور آسانی کا پیغام بر ہے۔
دیکھئے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:"لااکراہ فی الدین"۔
ترجمہ:۔ کچھ زبردستی نہیں دین میں۔
"یرید اللہ بکم الیسر و لا یریدبکم العسر"۔
ترجمہ:۔ اللہ تعالی تم پر آسانیاں چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔
"و ماجعل علیکم فی الدین من حرج"۔
ترجمہ:۔ اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔
"لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا"۔
ترجمہ:۔ اللہ تعالی کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا، مگر اس کی طاقت بھر۔
اور احادیث نبوی ﷺ میں بھی واضح ارشادات ملتے ہیں۔ جیسے:
"ان الدین یسر"۔ ترجمہ:۔ بے شک یہ دین آسان ہے۔
حضور نبی رحمت ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہماکو فلسطین کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت فرمائی: "یسرا و لا تعسرا و بشرا و لاتنفرا وتطاوعا و لا تختلفا"۔
ترجمہ:۔ آسانی پیدا کرنا تنگی نہ کرنا، خوش خبری دینا متنفر نہ کرنا، باہم خوش دلی سے کام کرنا، آپس میں اختلاف نہ کرنا۔
"یسروا و لاتعسروا و لا تنفروا"۔
ترجمہ:۔ آسانیاں پیدا کرو، تنگیاں پیدا نہ کرو، خوش خبریاں پھیلاؤ، نفرتیں مت پھیلاؤ۔
بلاشبہ امام احمد رضا محدث بریلوی نے ہمیشہ اس فکر و نظر کو عام و تام کرتے ہوئے اپنی تعلیمات کے ذریعہ مسلمانوں کو بے راہ روی ، گمراہی اور بے دینی سے بچانے کی بھر پور کوشش فرمائی ، جس کی بے شمار نظیریں آپ کی تصانیف میں جا بہ جا دیکھی جا سکتی ہیں۔
امام احمد رضا دین و مسلک کے ایک عظیم پاسبان و ترجمان کا نام ہے، جن کے فکر و مزاج میں ہرگز تلخی و سختی نہ تھی۔
یہ دیکھئے امام موصوف خود لکھتے ہیں:"مقاصد شرع کا ماہر خوب جانتا ہے کہ شریعت مطہرہ رفق و تیسیر پسند فرماتی ہے، نہ معاذ اللہ تضییق و تشدید"۔( فتاوی رضویہ)
ایک دوسری جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں:
"دیکھو نرمی کے جو فوائد ہیں وہ سختی میں ہر گز نہیں حاصل ہو سکتے ، اگر اس شخص سے سختی برتی جاتی تو ہرگز یہ بات نہ ہوتی جن لوگوں کے عقائد مذبذب ہوں ان سے نرمی برتی جائے کہ وہ ٹھیک ہو جائیں، یہ جو وہابیہ میں بڑے بڑے ہیں ان سے بھی ابتدا میں بہت نرمی کی گئی مگر چوں کہ ان دلوں میں وہابیت راسخ ہو گئی تھی اور مصداق "ثم لا یعودون" حق نہ ما نا اس وقت تک سختی کی گئی کہ رب عز وجل فرماتا ہے: "یایھاالنبی جاھد الکفار والمنفقین واغلظ علیھم"۔ اے نبی جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں سے اور ان پر سختی کرو۔ اور مسلمانوں کو ارشاد فرماتا ہے : "ولیجدوا فیکم غلظۃ"۔ لازم ہے کہ وہ تم میں درشتی پائیں"۔
آپ نے ملاحظہ کیا کس قدر واضح الفاظ میں وہ فرما رہے ہیں کہ نرمی اور آسانی میں فوائد ہیں، مگر پھر بھی مخالفوں کا یہ کہنا کہ وہ متشدد سخت گیر تھے، بڑا ہی مضحکہ خیز معلوم ہے۔
جب ایک قاری حیات رضا کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوال بار بار ابھرتا ہے کہ آخر ہر وقت امام احمد رضا ہی کو تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے، تو ماہر رضویات سعادت لوح و قلم پروفیسر مسعود احمد نقشبندی (کراچی) اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: "امام احمد رضا سے مخالفت کی سب سے بڑی وجہ مسلک سلف صالحین پر ان کی بے پناہ استقامت اور اس کی اشاعت کے لیے ان کی سرگرمی اور اس مسلک کے مخالفین پر ان کی سخت تنقیدات معلوم ہوتی ہیں"۔
بہر کیف امام احمد رضا کی مصلحانہ ، مجتہدانہ اور ناقدانہ مساعی کا شدید رد عمل ہوا، طرح طرح کے الزامات لگائے گئے، اور ان کی تشہیر کے لیے پوری توانائیاں صرف کی گئیں، اور جب تک یہ یقین نہیں ہو گیا کہ علمی سطح پر امام احمد رضا کی ہوا اکھڑ گئی دم نہ لیا، شاید سطحی نظر رکھنے والوں کی نگاہ میں الزامات کوئی وقعت رکھتے ہوں، مگر تاریخ پر جن لوگوں کی گہری نظر ہے ان کو معلوم ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد لگائے گئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جب کبھی باطل نے اپنی پوری قوت کے ساتھ سر ابھارا تو اللہ تعالی نے اپنے محبوب بندوں کو پیدا فرما کر اس کی قوت کو کمزور فرمادیا ، حق و باطل میں کبھی صلح نہیں ہوئی اور نہ اس کا خاتمہ ہوا۔ غرض کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر ہمارے حضور علیہ السلام تک ہر دور میں ایسا ہی ہوتا رہا ، حضور علیہ السلام کے دنیا سے تشریف لے جاتے ہی مسلمہ کذاب منکرین زکوۃ جىسا فتنہ مختلف شکل میں نمودار ہوتا رہا اور برابر حق کو سر بلند ی عطا ہوتی رہی۔
لیکن آگے چل کر ایک بہت بڑا فتنہ عبد الوہاب نجدی کی شکل میں نمودار ہوا، اس نے اپنے باطل عقائد پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا نام التوحید رکھا ، اسی کتاب التوحید کا ترجمہ مولوی اسماعیل دہلوی نے تقویت الایمان کے نام سے کرکے انگریز حکومت کی مدد سے شائع کر دیا، اب اس سے الحاد و بے دینی پھیلنی شروع ہوئی۔
لیکن ایک کامل مرد مومن، وارث علوم رسالت، تاجدار اہل سنت امام احمد رضا خدا اور رسول کا سہارا لیکر ان باطل پرستوں اور فتنہ پروروں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے کہ جنہوں نے اپنی زبان اور نوک قلم کو حرکت دے کر اس طوفان کا مقابلہ کیا اور مجدد کی جو ذمہ داری ہوتی ہے یعنی جو لوگ کتاب و سنت پر عمل ترک کر چکے ہوں اور سنت مٹتی جا رہی ہو تو سنتوں کو زندہ کرنے اور کتاب و سنت پر عمل کرنے کا حکم دینا اور باطل پرستوں سے جہاد کرنا وغیرہ، اعلی حضرت امام احمد رضا نے اس کو اپنے پورے کمالات و ہمت کے ساتھ نبھایا۔
تجدیدی کارنامے :
امام احمد رضاقدس سرہ کے زمانے میں نت نئے فتنے سر ابھار رہے تھے ، جن کے ذریعہ مسلمانوں کو مذ ہبی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی سطح پر کمزور کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ۔ اعلی حضرت قدس سرہ نے ان فتنوں کی سرکوبی ، احیائے دین اور ردبدعات و منکرات کی خاطر اپنی زبانی ، قلمی اور علمی توانیاں صرف کیں ، جس کا نہ صرف اعتراف کیا گیا بلکہ آپ کی مجددیت کا اقرار و اعلان بھی کیا گیا ۔
۱۳۱۸ ھ / ۱۹۰۰ ء میں پٹنہ کے عظیم الشان تاریخی اجلاس میں محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی احیاے سنت ، ازالہ بدعت ، رد بدمذہاں اور اصلاحی و رفاہی خدمات کو دیکھ کر مولانا عبدالمقتدر بدایونی ( متوفی ۱۳۳۵ ھ / ۱۹۱۶ ء ) نے ارشاد فرمایا : ” جناب عالم اہل سنت ، مجدد ماۃ حاضرہ مولانا احمد رضاخاں صاحب “ ۔ اجتماع میں موجود تمام علمائے کرام نے اس کی تائید کی۔ ( امام احمد رضا اور جدید افکار و تحریکات ، ص : ۱۸۲ ۔ بحوالہ دبدبہ سکندری ، رام پور ، ۱ ار اکتوبر ۱۹۴۸ ء )
اصلاح و تجدید اور احیاے دین کے منظر نامے پر جو کارنامے درخشاں اور تاباں نظر آرہے ہیں یہ مختصر صفحات ان پر تفصیلی گفتگو کے متحمل نہیں ، البتہ مختصر اًچند اصلاحی اور تجدیدی کارنامے پیش ہیں :
فرقہ نیچریت :
یہ نیچری اکثر ضروریات دین کے منکر ہیں ۔ اسے اپنے من چاہے معنی کی طرف پھیر دیتے ہیں ، تو کہتے ہیں نہ جنت ہے ، نہ دوزخ ، نہ حشر اجسام یعنی قیامت میں زندہ اٹھانا ، نہ کوئی فرشتہ ہے ، نہ کوئی جن ، نہ آسان ہے ، نہ اسرا اور نہ معجزہ اور ( ان کا گمان ہے ) موسی کی لاٹھی میں پارہ تھا ، تو جب اس کو دھوپ لگتی وہ لاٹھی ہلتی تھی ، اور سمندر کا پھاڑ دینامد و جزر کے سوا کچھ نہیں تھا ۔
اس طرح کے مختلف عقائد اسلامیہ کے منکر ہوئے اور ان چیزوں کے ثبوت میں وارد آیات قرانیہ کی ایسی تاویل کی جس سے مسلمہ عقائد کی صورت ہی بدل گئی ۔ ( المستند المعتمد على المعتقد المستقد ، ص : ۲۲۲ ۔ سوانح اعلی حضرت ، ص : ۱۲۴ تا ۱۳۰ )
امام احمد رضا محدث بریلوی نے ان کی پر زور تردید فرمائی اور سات رسائل تحریر فرمائے۔( مجددىن اسلام نمبر) فرقۂ قادیانیت: ختم نبوت اہل سنت کا اجماعی عقیدہ ہے جس پر ایمان رکھنا ضروریات دین سے ہے ۔لیکن انیسویں صدی کے اخیر میں قادیانی فتنہ اٹھا ، خاتم النبین ﷺ کی پیغمبرانہ انفرادیت پر جارحانہ حملے ہوئے اور ختم نبوت کا انکار کیا گیا ۔ مرزا غلام احمد قادیانی ( ولادت ۱۸۳۹ یا ۱۸۴۰ / متوفی ۱۹۰۸ ) نے مہدی ، مسیح موعود اور نبوت کا دعوی کیا ، صرف یہی نہیں بلکہ نبی آخر الزماں ﷺ سے خود کو افضل گردانا ، اپنے نبی ہونے کی دلیل میں قرانی آیت " مبشرا برسول ياتي من بعدي اسمه احمد " ۔ ( المجادلہ ، ۲۲ ) پیش کی ۔
مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس نے لکھا : ليس المراد به محمد رسول اللہ ﷺ بل المراد بأحمد في هذه الأية المرزا غلام احمد. یعنی مذکورہ آیت میں احمد سے مراد رسول اللہ ﷺ نہیں بلکہ اس سے مراد مرزا غلام احمد ہے ۔ ( المتنبی القادیانی ، ص : ۱۷ ۔ بحوالہ امام احمد رضا کے افکار و نظریات ، ص : ۱۹۰ )
اس کے علاوہ کئی گستاخیاں کر کے اپنی دریدہ دہنی اور خوف قیامت سے بے پرواہی کا ثبوت دیا ۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیں حدوث الفتن و جہاد اعیان السنن ، ص : ۴۲ ، ۱۴۳ اور حیات اعلی حضرت ، ج : ۲ )
امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ نے اس قسم کے ہفوات و اباطیل کا قلعہ قمع کرنے کے لیے کئی فتوے تحریر فرمائے ۔ جو ” فتاوی رضویہ ‘ ‘ اور ’ ’ المستند المعتمد “ میں شائع ہوئے ہیں ، اس کے علاوہ درج ذیل کتابیں ان کی نوک قلم سے منصہ شہود پر آئیں ، مثلاً : (۱) قهر الديان على مرتد بقاديان ۱۳۳۲ ھ ( ۲ ) السوء والعقاب على المسيح الكذاب ۱۳۲۰ ھ ( ۳ ) المبين ختم النبيين ١٣٢٦ ھ ( ٤ ) جزاء الله عدوہ بابائه ختم النبوة ١٣١٧ ھ ( ٥ ) الجراز الدياني على المرتد القادياني ١٣٤٠ ه .. آخرالذکر رسالے سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلی حضرت قدس سرہ تادم واپسیں قادیانیت کے خلاف برسر پیکار رہے ۔ ( حسام الحرمین ، ص : ۹۹،۹۸،۹۷،۹۲ )
فرقہ شیعیت :
اہل سنت اور اہل تشیع کے اختلاف کی ابتدا عہد صحابہ و تابعین میں ہی ہو چکی تھی ۔ مرور ایام کے ساتھ اس میں شدت آتی گئی اور اعمال و عقائد کی حیثیت سے ان کی ایک الگ شناخت قائم ہوگئی ، مختلف ادوار میں روافض کی متعدد شاخیں نکلیں ، ہندوستان میں بھی ان کی عددی قوت میں اضافہ ہوا ، اکابر نے ان کے خلاف قلمی جہاد جاری رکھا ، امام احمد رضاقدس سرہ نے بھی اسلاف کے طریقہ کار پر عمل کیا اور متعدد رسائل لکھ کر ان کا شدید تعاقب کیا ۔
تفصیلات کے لیے امام احمد رضا قدس سرہ کی مندرجہ ذیل کتابیں مطالعہ کریں : ( ۱ ) غاية التحقيق في امامة العلى والصديق ( ٢ ) وجه المشروق بجلوة أسماء الصديق والفاروق ( ۳ ) مطلع القمرين في ابانة سبقة العمر ين ( ٤ ) لمعة الشمعة لهدى شيعة الشنعة ( 5 ) الأدلة الطاعنة في اذان الملاعنة ( 6 ) اعالى الإفادة في تعزية الهندو بيان الشهادة ( 7 ) ردالرفضة . ( مجددىن اسلام نمبر)
فرقہ وہابیت :
ملت اسلامیہ کی عمارت جس بنیاد پر کھری ہے وہ شان الوہیت و رسالت ہے ، امام احمد رضاقدس سرہ کی حیات میں ان دونوں پہلوں پر مختلف طریقے سے یلغار ہوئی ، تنقیصی اور کفری عبارتیں شائع کی گئیں ۔ اعلی حضرت قدس سرہ کی پیدائش سے قبل ہی اسلامیان ہند پر یہ فتنہ منڈلانے لگا تھا ، اسمعیل دہلوی ( متوفی ۱۲۴۶ ھ / ۱۸۳۱ ھ ) نے ’ ’ تقویۃ الایمان “ لکھ کر اس فتنے کی تخم ریزی کی ۔ اس وقت علماے اہل سنت بالخصوص علامہ فضل حق خیر آبادی ( متوفی ۱۲۷۸ ھ ) نے شدید رد کیا ، اس وقت میں فتنہ دب چکا تھا ، لیکن خال خال اس کی حمایت کرنے والے موجود تھے ۔ ابھی چند دہائی ہی گذری تھی کہ ایک ہنگامہ خیز کتاب ” تحذیر الناس “ ۱۲۹۰ ھ / ۱۸۷۴ ء میں منظر عام پر آئی ۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کے طول و عرض میں سراسیمگی پھیل گئی ، مگر کوئی اس کتاب کا حامی نہیں تھاسوائے عبدالحى برھانوی کے ۔ جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی الافاضات الیومیۃ ، چہارم میں لکھا ہے ۔
اسی " تحذیر الناس “ کے مفہوم کے زیر اثر انگریزوں کے زر خرید غلاموں کے حوصلے بلند ہونے لگے ، شان الوہیت و رسالت پر حرف گیری شروع ہوگئی ، مولانار شید احمد گنگوہی نے اسماعیل دہلوی کے بوئےہوئے بىج کو سینچا اور تناور درخت کی شکل دینے کا منظم منصوبہ بنالیا ، جس طرح اسماعیل دہلوی نے امکان کذب باری تعالی کا قول کیا اسی طرح موصوف گنگوہی نے بھی کیا
امام احمد رضا قدس سرہ نے اس کے ہذیان کا اپنے رسالہ ” سبحان اللسبوح عن عيب كذب مقبوح “ ( ۱۳۰۷ ) میں ردفرمایا۔
اس کے علاوہ متعد داہانت آمیز عبارتیں انھوں نے اپنی کتابوں میں لکھیں ، کسی بھی مسلمان کے لیے یہ امر نا قابل برداشت تھا ، پھر ایک عاشق صادق کیوں کر خاموش تماشائی بنار ہتا ۔ امام احمد رضاقدس سرہ نے اسلامی خول میں چھپے چہروں کی نقاب کشائی کی اور دنیا کے سامنے ان کی فکری آوارگی اور ذہنی کج روی کو اجاگر کیا ۔ انھوں نے نصوص قطعیہ کے منکرین اور کفریات کا ارتکاب کرنے والوں سے شرعی مواخذہ فرمایا ۔(مجددىن اسلام نمبر) ناموس رسالت کی حفاظت ان کا بنیادی کار نامہ ہے ، اگر وہ کسی طرح کی رعایتی پہلو اپناتے تو امت مسلمہ فرقہاے باطلہ کی دامتزویر سے بمشکل ہی خلاصی حاصل کر سکتی ۔ آج دنیائے سنیت ان کی محبت میں سرشار نظر آتی ہے ؛ کیوں کہ آج عشق رسول ﷺ کی جو صدائے دل پذیر سنائی دے رہی ہے یہ انہی کے کارہاے نمایاں کی مرہون منت ہے ۔
حکمت و فلسفہ :
یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ جس مذہب میں فلسفہ در آیا ، اس کی چولیں ہلا کر رکھ دیا ۔ اسلامی ممالک میں فلسفہ خلیفہ عباسیہ مامون رشید کے عہد میں عام ہوا ۔ فلاسفہ اور ملاحدہ نے عہد عباسی میں اسلامی عقائد و نظریات پر کاری ضر بیں لگائیں ۔ علمائے اسلام نے انہیں کے اصول و ضوابط کی روشنی میں ان کے مزعومات کو تار عنکبوت کے مانند بکھیر کر رکھ دیا ۔
امام احمد رضا قدس سرہ کا دور بھی سائنسی اختراعات کا تھا ، فلسفہ قدیمہ اور فلسفہ جدیدہ کے ذریعہ اسلام مخالف نظریات کی تشہیر کی جارہی تھی ، انھوں نے قلم اٹھایا ، فلسفیوں کی راہ وار فکر نے جہاں ٹھوکر کھائی تھی ، اس کی نشان دہی کی ، اس کی نوک پلک کو درستگی کی راہ سے گذارا اور جس بنیاد پر اسلام مخالف افکار استوار تھے اس کی زبر دست بیخ کنی کی ، ردفلسفہ خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے ؛ کیوں کہ مادیت کے دور میں مغربی نظریات کا مقلد ہوجانا کوئی عجب نہ تھا ، جیسا کہ حاکم علی صاحب اور دیگر اباحیت پسند حضرات اٹھے ، جنھوں نے سائنس کو مسلمان بنانے کے بجائے اسلام ہی کو سائنس کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ۔ امام احمد رضا نے ان کی فاش غلطیوں پر سخت گرفت کی اور ان کی انوکھی تشریحات سے متاثر اذہان کو ان غلط تعبیرات سے آگہی بخشی جن سے دین مجروح ہورہا تھا ۔
فلسفہ کے حوالے سے محدث بریلوی کی تصنیفات: ( ۱ ) معین مبین بہ رد درشمس و سکون زمین( ۲ ) فوز مبین در رد حرکت زمین ( ۳ ) الكلمة الملهمة ( ۴ ) نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسان اور ( ۵ ) مقامع الحدید .
امام احمد رضاقدس سرہ نے اپنی تحقیقات میں جو سائنسی فکری اور تنقیدی اثاثے چھوڑے ہیں ، اسے مغربی ممالک میں آج بھی ستائشی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے ، یہ دعوی بلا دلیل نہ رہ جائے ، اس لیے سطور زیریں میں آنے والے شواہد کو سامنے ركهىے:
آکسفورڈ یونیورسٹی نے گذشتہ صدی کے سائنس دانوں کی فہرست شائع کی ہے، اس میں بطور مسلم سائنس داں امام احمد رضا محدث بریلوی رحمہ اللہ کا نام شامل کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے لیے یقینا باعث صد افتخار ہے ۔ علاوہ ازیں " آکسفورڈ کمشنری " کے تازہ ایڈیشن میں لفظ "بریلی" کو بھی شامل کیا گیا ہے ، اور معنی کی جگہ صوفی امام احمد رضا کی جائے پیدائش درج کیا گیا ہے ، وجہ اس کی یہ ہے کہ عام طور پر کسی مقام کی شہرت وہاں کی صنعت و حرفت یا مشہور تاریخی مقامات کی وجہ سے ہوتی ہے جب کہ شہر "بریلی" کی شہرت اعلی حضرت قدس سرہ کی نسبت سے ہے ۔ (مزىد معلومات كے لىے "مجددىن اسلام نمبر "كا مطالعہ فرمائىں)
ترک تقلید کی وبا : سرزمین ہند پر شاہ اسماعیل دہلوی ( متوفی ۱۲۴۶ ھ / ۱۸۳۱ ء ) کے ذریعہ وہابیت نے قدم رکھا ، آگے چل کر یہ دو شاخوں میں تقسیم ہوگئی ، ایک اپنے عقائد فاسدہ کے ساتھ تقلید کی قائل رہی ، جسے مسلک دیو بند کہتے ہیں اور دوسری شاخ اپنے افکار باطلہ سے وابستگی کے ساتھ ساتھ ترک تقلید پر بھی مصر رہی ۔ تقلید جیسے اجتماعی اور اتفاقی مسئلے سے انحراف عام ہونے لگا ، تو اعلی حضرت قدس سرہ نے ان کا معرکۃ الآرا جواب قلم بند فرمایا اور اس کے سد باب کے لیے اپنی قلمی قوت و توانائی کا زبردست مظاہرہ کیا اور غیر مقلدین کی تردید میں ٫ ۲۶ کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ جن میں چند درج ذیل ہیں :
( ۱ ) حاجز البحرين الواقي عن جمع الصلاتين . ( ۲ ) النهى الحاجز عن تكرار صلاة الجنائز . ( ۳ ) اکمل البحث على اهل الحدث . ( 4 ) مبين الهدى في نفی امکان مثل المصطفى (مجددىن اسلام نمبر)
کنز الایمان:۔اعلی حضرت رضی اللہ عنہ چوں کہ چودھوی صدی ہجری کے مجدد اعظم ہیں اس لیے آپ کے تجدیدی کارنامے بھی عظیم ہیں، سب سے پہلے آپ نے کتاب الہی کی وہ خدمت کی جس کی ادوار سابقہ میں مشکل سے کوئی مثال ملے گی۔ جب علمائے دیوبند قرآنی آیات کی غلط ترجمانی کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے ، آپ نے تلمىذ خاص صدرالشریعہ مفتی امجد علی علىہ الرحمہ ( مصنف بہار شریعت) کی گذارش پہ قرآن پاک کی مسلک اہل سنت کے مطابق صحیح ترجمہ " کنز الایمان" كى شكل مىں لکھ کر کے قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر احسان عظیم فرمایا۔ اور آج دنیاے سنیت اس ترجمے سے استفادہ کر رہی ہے ۔ فتاوی رضویہ:
اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے تجدیدی کارناموں میں سے ایک عظیم الشان کارنامہ فتاوی رضویہ شریف ہے جس کا پورا نام "العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ" ہے، یہ قدیم بارہ ضخیم جلدوں میں ہے اور ہر جلد کم از کم ایک ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے ، جو كہ مرجع فتاوی ہے، اس فتاوی کى انداز تحریر بھی نہایت حسین و جمیل اور الفاظ کی موتیوں کے مانند آراستہ ہیں۔الدولۃ المکیہ:اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے حج کے موقع پر مکۃ المکرمہ میں بعض حضرات نے علم غیب کے بارے میں کچھ سوالات کیے اور صرف دو دن میں جوابات لکھ دینے کا مطالبہ کیا، اعلی حضرت کی طبیعت اس وقت ناساز تھی، لیکن اس کے باوجود آپ نے صرف آٹھ گھنٹے میں بزبان عربی ان سوالات کے اس قدر طویل جوابات لکھ دی کہ ایک ضخیم کتاب بن گئی، اور اس کا نام "الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ" رکھا۔
رد بدعات و منكرات:اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان نے جہاں جہاں سنت مصطفی ﷺ کی جگہ بدعت سىئہ کو رائج ہوتا دیکھا وہاں آپ نے بلا تاخیر ٹوک دیا اور اس بدعت کو آگے بڑھنے نہ دیا۔ایک مرتبہ اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے آپ نے ایک بار دیکھا کہ مؤذنین حضرات نے اذانوں اور تکبیروں میں نغمے ایجاد کر رکھے تھے آپ نے فورا خطیب مکہ سے اس مسئلہ پر بات چیت فرمائی اور انہیں ترغیب دی کہ اس بدعت کو ختم کرے۔( الشاہ احمد رضا)اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے تجدیدی کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ ہے کہ سنت طریقہ یہ تھا کہ مسجد سے باہر اذان ہو، مگر عرصہ سے مسجد میں اذانیں دی جارہی تھیں، علمائے کرام مسئلہ کے معلوم ہونے کے باوجود عوام کو برا ماننے کے خدشے سے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے، مگر اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اس بدعت کا بھی قلع قمع فرمادیا۔
اذان ثانی کا حکم : مخالفین اہل سنت کی جانب سے جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر سے ہونے لگی تھی ، یہ بدعت سراسر اسلامی روایت سے متحارب تھی ، امام احمد رضا قدس سرہ نے احادیث اور اجماع صحابہ کی روشنی میں شرح وبسط کے ساتھ تحریر فرمایا کہ اذان ثانی حضور نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر رضى الله عنہما کے زمانے میں منبر شریف کے سامنے دروازے پر ہوتی تھی ۔ (ملخص ، امام احمدرضا اور رد بدعات و منکرات ، ص : ۲۹۹ )
حرمت سجدہ تعظیمی:اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے تجدید ی کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ جب تصوف کے دعویداروں نے اپنی ناپاک ذوات کو مریدوں سے سجدہ کرانے شروع کر دیئے تھے، تو اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے قرآن پاک و احادیث کریمہ اور علما و فقہا کے اقوال كى روشنى میں ایک مستقل کتاب "الزبدة الزكية لتحريم سجود التحية " لکھی اورثابت کیا کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام اور گناہ ہے، پھر اگر عبادت کی نیت سے ہو تو شرک ہے۔
بوسہ و طواف قبر : بوسہ و طواف قبر کے متعلق فرماتے ہیں : مزار کا طواف بہ نیت تعظیم کیا جائے، نا جائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص بخانہ کعبہ ہے ، مزار کو بوسہ نہ دینا چاہیے ، علما اس میں مختلف ہیں اور بہتر بچنا ہے اور اس میں ادب زیادہ ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ ( فتاوی رضویہ ، ج : ۴ ، ص : ۸ ، رضاکیڈمی )
فرضی قبریں :”فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا معاملہ کر نا ناجائز و بدعت ہے ‘‘ ۔ ( ایضا ، ص : ۱۱۵ )
عورتوں کے لیے زیارت قبور : اعلی حضرت قدس سرہ نے عورتوں کے لیے زیارت قبور کے متعلق مختلف سوال کے جواب میں جابجا ارشاد فرمایا : رسول ﷺ فرماتے ہیں : لعن الله زوارات القبور ( ایضا ، ص : ۱۲۸ ) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں : اصح یہ ہے کہ عورتوں کو قبر پر جانے کہ اجازت نہیں ۔ ( ایضا )
قوالی : ایسی قوالی ( جس میں ڈھول سارنگیاں بجیں ) حرام ہیں ، حاضرین سب گنہ گار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے ۔اور قوالوں کا بھی گناہ اس عرس کرنے والے پر ۔
تعزیہ داری: مروجہ تعزیہ داری جس میں آج کل کے بہت سے جاہل سنی بھی گرفتار ہیں ، اس میں بہت سے قبیح وشنیع رسمیں بھی رائج ہوگئی ہیں۔ بہت سی باتیں اس کے اندر ایسی ہوئی ہیں جو مسلمانوں کے لیے باعث شرم ہیں۔اور ناجائز و حرام ہے۔
انفرادى شان : اعلی حضرت امام احمد رضاقدس سرہ کو باری تعالی نے بے شمار خوبیوں سے آراستہ کیا تھا ، صوری حسن و جمال اور معنوی محاسن و کمالات کے پیکر تھے ، ذہانت و فطانت میں بے مثل تھے ، تدوین علوم دینیہ میں وہ کمال دکھایا کہ دشمن بھی آپ کا لوہا مانے بغیر نہ رہ سکا ، آپ نے ایسے علما پیدا کیے جو دنیا ئے اسلام کے لیے ہدایت و رہنمائی کے روشن مینار بن گئے۔ تحریر کے میدان میں بهى ایسے آگے نکلے کہ ادوار سابقہ میں اس کی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے ۔ یہی وہ امتیازی خصوصیات ہیں جس کا اعتراف اپنوں اور بے گانوں نے بلا جھجک کیا ۔
اس سلسلے میں ایک تاریخی شہادت پیش ہے ۔
مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے شاگرد ، سید ابوالاعلی مودودی کے سابق معتمد ، ہفت روزہ ” شہاب ‘ ‘ لاہور کے چیف ایڈیٹر مولاناکوثر نیازی ( ولادت : ۱۹۳۴ ء ) نے امام احمد رضا کانفرنس اسلام آباد منعقدہ ۱۹۹۳ ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا :
” میری اپنی ذاتی لائبریری میں دس ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں وہ سب مطالعہ سے گذری ہیں ، اس مطالعہ کے دوران امام احمد رضا رحمہ اللہ کی کتب نظر سے نہیں گذری تھیں اور مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ علم کا خزانہ پالیا ہے اور علم کا سمندر پار کر لیا ہے ۔ علم کی ہر جہت تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ مگر جب امام اہل سنت ( مولانا احمد رضا بریلوی کی کتابیں مطالعہ کیں ، ان کے علم کے دروازے پر دستک دی اور فیض یاب ہوا تو اپنے جہل کا احساس اور اعتراف ہوا ۔ یوں لگا کہ ابھی تو میں علم کے سمندر کے کنارے کھڑا سیپیاں چن رہا تھاعلم کا سمندر تو امام کی ذات ہے “ ۔ ( مجلہ امام احمد رضا کانفرس ، ص : ۴۹ ، اداره تحقیقات امام احمد رضا ۱۹۹۴ ء ، بحوالہ امام احمد رضا کے جدید افکار و تحریکات ، ص : ۳۱ )
محمد کلام الدین نعمانی مصباحی امجدی
بنوٹا، مہوتری، نیپال
نائب ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز