*امام احمد رضا اور عشقِ رسول ﷺ*
از قلم۔
انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچ شریف*
*استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول
سوار ضلع رامپور یوپی*
تاریخِ اسلام کا ہر دور کچھ ایسی شخصیات سے ضرور مزین رہا ہے جنہوں نے فتنوں کے اندھیروں میں چراغ بن کر امت کو روشنی عطا کی۔ جب علم مٹنے لگے، فکر منتشر ہونے لگے، اور باطل نظریے سراٹھانے لگیں تو ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اپنے کچھ چنیدہ بندوں کو ظاہر فرماتا ہے جو اپنے علم، حلم، اخلاص، استقامت اور سب سے بڑھ کر عشقِ رسول ﷺ سے دنیا کو دین کی اصل راہ پر واپس لے آتے ہیں۔ اسی طرح برصغیر کے پُرفتن دور میں، جب دین پر حملے مختلف محاذوں سے ہو رہے تھے—سیاسی غلامی، ثقافتی یلغار، مذہبی گمراہی، اور فکری ابتری اپنے عروج پر تھی—ایسے وقت میں ایک نورانی شخصیت علم و عمل کا مینار بن کر اُبھری وہ شخصیت نہ صرف مجددِ وقت تھی بلکہ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت جنہوں نے علم کے ساتھ عشق کو جوڑا، فقہ کے ساتھ وفا کو، اور شریعت کے ساتھ شعلۂ محبت کو۔ ان کی زندگی صرف کتابوں کی ورق گردانی نہ تھی، بلکہ ہر لفظ، ہر عمل اور ہر سانس حضور ﷺ کی محبت سے معمور تھا۔ ان کے قلم سے جو نکلا، وہ علم بھی تھا اور عشق بھی۔ ان کی زبان سے جو نکلا، وہ شریعت کی ترجمانی بھی تھی اور درِ محبوب ﷺ پر نالہ و فریاد بھی۔وہ جلیل القدر ہستی ایک روشن ستارہ، ایک بے مثل عالمِ دین، ایک عظیم فقیہ اور محقق، مجددِ ملت، استقامت کے پہاڑ، اور عشقِ رسول ﷺ کے علمبردار حضرت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی ذاتِ گرامی ہے۔ جنہوں نے اپنی عبقری فقہی بصیرت، علومِ قرآن و سنت میں کامل مہارت، اور گہرے دینی شعور کی بدولت مختصر عمر میں ایک ہزار سے زائد علمی و تحقیقی کتب تصنیف فرمائیں۔ امام احمد رضا ایک ایسی ہستی کا نام ہے کہ جن کی خدمتِ علمی میں بڑے بڑے علما و مشائخ نے زانوئے ادب تہہ کیے، لیکن آپ کبھی کسی دولت مند یا صاحبِ اقتدار کے سامنے خم نہ ہوئے۔ وہ علم کا وہ بلند مینار تھے جس سے ٹکرانا گویا اپنے انجام کو دعوت دینا تھا۔ ان کی زندگی کو جس پہلو سے دیکھا جائے، اخلاص، للہیت، دینی غیرت، شریعت پر مضبوطی، سادگی، تواضع اور فقیرانہ جاہ و جلال کی جھلک ہر لمحے جھلکتی ہے۔ آپ نے اپنی تمام تر توانائیاں دین کی خدمت، حق گوئی، تقویٰ اور تبلیغِ اسلام میں صرف کر دیں۔
آپ نے معاشرتی و فکری فتنوں اور گمراہیوں کے خلاف علم و حکمت اور دلائلِ شرعیہ سے سخت مزاحمت کی۔ خصوصاً شریعتِ مطہرہ کے دفاع میں ہمیشہ صفِ اول میں رہے۔ گستاخانِ رسول ﷺ سے مقابلہ کرنا آپ کا فطری جذبہ تھا۔
آپ کی علمی عظمت کا اعتراف نہ صرف برصغیر بلکہ عالمِ اسلام کے طول و عرض میں کیا گیا۔ باوجود اس کے کہ آپ کے ہم عصر علمائے کرام میں ایک سے ایک درخشاں علمی شخصیت موجود تھی، مگر بارگاہِ نبوی ﷺ میں جو مقام و مرتبہ امام احمد رضا کو حاصل ہوا، وہ کسی اور کے حصے میں نہ آیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا عشقِ رسول ﷺ رب کے ہاں شرفِ قبولیت پا چکا تھا۔
امام احمد رضا خان نے کبھی شہرت یا دنیاوی مفاد کے لیے کام نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے اور رضائے الٰہی و خوشنودیٔ رسول ﷺ کے لیے سرگرم عمل رہے۔ ان کے قلبِ مقدس کی صدا ہمیشہ یہی رہی:
کام وہ لے لیجیے تم کو جو راضی کرے ٹھیک ہو نام رضا تم پہ کروڑوں درود
باطل فرقوں کے باطل نظریات کا نہایت مؤثر اور محققانہ ردّ فرمایا، اور حق و صداقت کی علمبرداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے برصغیر میں "الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ" کی صدائیں بلند ہیں، اور یہ اعلیٰ حضرت کی پرخلوص خدمات کا فیض ہے۔ آپ کی فقہی عظمت کا شاہکار "فتاویٰ رضویہ" ہے، جو بارہ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور آج بھی علمائے اسلام اور مفتیانِ کرام کے لیے باعثِ افتخار و اعتماد ہے۔
آپ کا سورجِ علم و معرفت کل بھی آسمانِ حقیقت پر درخشاں تھا، آج بھی تابندہ ہے، اور ان شاء اللہ تاقیامت درخشاں و تابندہ رہے گا:
رہے گا یوں ہی ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ 14 جون 1856ء مطابق 10 شوال المکرم 1272ھ کو پیدا ہوئے اور 25 صفر المظفر 1340ھ، مطابق نومبر 1921ء کو وصال فرما گئے عشقِ رسول ﷺ کی انمول دولت
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی شخصیت کو جہاں ان کی علمی و فقہی عظمتوں کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے، وہیں آپ کی سیرت کا سب سے تابندہ اور درخشندہ پہلو "عشقِ مصطفیٰ ﷺ" ہے۔ یہ وصف آپ کی ذاتِ گرامی کا مرکز و محور تھا، جس کی بدولت آپ کو وہ مقام حاصل ہوا جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔
اگرچہ آپ نے بے شمار علوم و فنون پر کتب اور فتاویٰ تحریر فرمائے، لیکن آپ کا عشقِ رسول ﷺ آپ کی تمام تر علمی و فکری خدمات پر غالب نظر آتا ہے۔ یہ عشق صرف زبانی دعوے تک محدود نہ تھا، بلکہ آپ کا قلب و روح، شعور و وجدان، اور ظاہر و باطن اسی عشق میں ڈوبا ہوا تھا۔ امام احمد رضا کی روحانی پرواز اتنی بلند تھی کہ ان کا جسم ہندوستان میں ہوتا، مگر ان کی روح دربارِ رسالت ﷺ کی خاکساری میں مصروف رہتی۔
عشقِ نبوی ﷺ کی یہ کیفیت آپ کی نعتیہ شاعری، فقہی تحقیقات، اور فتاویٰ میں واضح نظر آتی ہے۔ آپ نے مدینہ منورہ کی گلیوں، اس کی خاک، ہواؤں، صبح و شام، خار و گل، سب کو اپنی محبوبیت کا مرکز سمجھا۔ آپ کے نزدیک مدینہ کے سگان کو بھی دارا و سکندر کی حکومتوں پر فوقیت حاصل تھی۔ مدینہ کے ذراتِ خاک ان کے نزدیک تخت و تاج سے کہیں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔
امام احمد رضا خان کا یہ عالمِ عشق صرف مسلمانوں تک محدود نہ رہا، بلکہ غیر مسلم اور دیگر مسالک کے اہلِ علم بھی ان کے عشقِ نبوی ﷺ کا اعتراف کرتے نظر
آتے ہیں۔ آپ کے نزدیک دربارِ رسالت ﷺ میں جھوٹے جذبات، مصنوعی دعوے، اور بے اصل نظریات کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ آپ خود کو سرکار دوعالم ﷺ کے سامنے ہر حال میں حاظر و ناظر تصور کرتے تھے۔
امام عبدالوہاب شعرانی نے "میزان الشریعۃ الکبریٰ" میں علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں بیداری میں 75 بار رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ امام احمد رضا کو بھی خواب میں بارہا زیارت کا شرف نصیب ہوا۔ ایک بار دوسری حج کے موقع پر روضۂ انور پر حاضری ہوئی، لیکن مواجہہ شریف میں پہنچنے کے باوجود دیدار نصیب نہ ہوا۔ افسردگی کے عالم میں نعت کہی:
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
اور مقطع میں اپنے غم و فخر کو یوں بیان کیا:
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں
یہ نعت دربارِ نبوی ﷺ میں پیش کی، اور دل کی گہرائی سے شوقِ دیدار لیے منتظر رہے، یہاں تک کہ عالمِ بیداری میں زیارتِ مصطفیٰ ﷺ نصیب ہوئی۔ یہ منظر امام احمد رضا کے عشقِ نبوی ﷺ، ان کے عرفان، اور بارگاہِ رسالت میں مقبولیت کی زبردست دلیل ہے۔ ایک شامی ولی نے خواب میں مشاہدہ کیا کہ حضور ﷺ امام احمد رضا کے جنازے کے منتظر ہیں۔اعلیٰ حضرت اپنے عشقِ رسول ﷺ کی کسوٹی پر شخصیات کے مقام و مرتبے کو پرکھتے تھے۔ جتنا زیادہ کسی میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ ہوتا، آپ کی نگاہ میں اس کا رتبہ بھی اتنا ہی بلند ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام و خواص نے آپ سے سیکھا کہ عشقِ رسول ﷺ کیا ہوتا ہے، اور کیسے زندگی کو اس کی روشنی میں ڈھالا جاتا ہے۔
حضرت مفتی سید حامد علی جیلانی دہلوی لکھتے ہیں:
"وہ فاضل بریلوی فنا فی الرسول کریم تھے، اپنے محبوب کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی برداشت نہ کرتے۔"
حضرت محمد ابراہیم فاروقی مجددی (شور بازار، کابل) فرماتے ہیں:
"مولانا امام احمد رضا خان قادری، حضرت خاتم النبیین ﷺ کے عاشقِ صادق تھے۔ ان کا دل عشقِ محمدی کے سوز سے معمور تھا، ان کا نعتیہ کلام مسلمانوں کے دلوں میں عشقِ نبوی ﷺ کی مشعل روشن کرتا ہے۔"
حضرت صاحبزادہ ہارون رشید (دربارِ موہڑہ شریف) رقم طراز ہیں:
"اعلیٰ حضرت کا ہر قول و فعل عشقِ رسول ﷺ سے لبریز تھا، گویا انہیں آقا کریم ﷺ کے عشاق کے لیے مینارِ ہدایت بنایا گیا۔"
واقعی، امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ نے عشقِ مصطفیٰ ﷺ کو دین کا مرکز قرار دیا اور امت کو یہی سکھایا کہ اصل سرمایہ یہی ہے، اور کامیابی اسی میں ہے۔
ڈال دی قلب میں عظمتِ مصطفیٰ
سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام