شہرِ کاٹھمانڈو اور بیداری کی قیمت
نوشاد احمد قادری
کاٹھمانڈو
نیوز ایجنسی
نیپال کا دارالحکومت کا لٹھمنڈو آج ایک ایسے اندوہناک سانحے کا گواہ بنا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ نوجوانوں نے بدعنوانی اور سماجی رابطوں پر عائد پابندی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، مگر یہ صدا خون و خاک میں نہا گئی۔
احتجاج کے دوران عوام اور ریاستی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپ نے خوفناک صورت اختیار کرلی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم از کم انیس افراد شہید ہوئے، جب کہ تین سو چالیس سے زائد زخمی حالت میں اسپتال پہنچائے گئے۔ زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ عوامی آواز کو دبانے کی ہر کوشش آخرکار خون کے دریا سے گزر کر ہی ناکام ہوتی ہے۔
اس المیہ نے سیاسی منظرنامے پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ وزیرِ داخلہ رمیش لیکھک نے اس سانحہ کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ دوسری طرف وزیراعظم کے پی شرما اولی کو بھی عوامی دباؤ کے نتیجے میں منصب چھوڑنا پڑا۔ یوں نیپال کی سیاست ایک بڑے بحران میں داخل ہوگئی۔
حادثے میں سابق وزیراعظم جلا ناتھ خانل کی اہلیہ، روی لکشمی خانل، جان لیوا زخموں کے باعث زندگی کی بازی ہار گئیں۔ وزیرِ خزانہ بنشو پُڈیل پر بھی عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بنایا گیا، اور ان پر ہونے والے حملے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
اس ہنگامہ خیز صورتحال کے باعث تریبھوان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر تمام ملکی و غیر ملکی پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ شہر کی فضا سوگوار ہے، گلی کوچے زخمیوں کی آہیں اور لواحقین کے بین سے گونج رہے ہیں۔
یہ المناک واقعہ اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ طاقت کا بے جا استعمال کبھی بھی پائیدار امن کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ انصاف، شفافیت اور عوامی اعتماد ہی وہ ستون ہیں جن پر ایک مستحکم معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ اگر حکمران عوامی آواز کو سننے سے گریز کریں گے تو تاریخ کا دھارا انہیں بہا لے جائے گا۔ کٹھمنڈو کے اس خونی دن نے ثابت کیا کہ عوامی بیداری کی قیمت خون سے ادا کرنی پڑتی ہے، مگر یہ خون آنے والی نسلوں کے لئے روشنی کا چراغ بن سکتا ہے۔