شیخُ الاسلام حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی علیہ الرحمہ
از: محمد شمیم احمد نوری مصباحی
باڑ میر راجستھان انڈیا
برِصغیر میں روحانیت، علم، دعوت اور حکمت کا درخشاں مینار دنیا کے نقشے پر اگر کسی ایسی شخصیت کو تلاش کیا جائے جس نے اپنے کردار سے علم و عرفان کی شمع کو روشن کیا، ایمان و عمل، عرفان و اخلاص اور خدمتِ خلق کے حسین امتزاج سے انسانیت کو جادۂ حق پر گامزن کیا، خانقاہ و جامعہ کے سنگم سے اصلاحِ فرد و معاشرہ کی مثال قائم کی، اور اپنی دعوتی بصیرت سے اقوامِ عالم کے قلوب کو نورِ اسلام سے منور کیا تو ایسی عظیم المرتبت ہستیوں میں ایک درخشندہ نام شیخ الاسلام والمسلمین، شیخُ المشائخ، قطبِ عالم، غوثِ زماں حضرت سیدنا بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی علیہ الرحمہ کا ہے، جو روحانیت و علم کا ایک روشن مینار ہیں۔
آپ نہ صرف سلسلہ سہروردیہ کے جلیل القدر پیشوا تھے، بلکہ ایک صاحبِ کمال مدرس، مدبر، مربی، مصلح، داعی اور صوفی باصفا بھی تھے، جنہوں نے اسلام کے جمال کو حسنِ عمل، حکمتِ تبلیغ اور روحانیت کے آہنگ سے دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچایا۔
نسبِ مقدس اور ولادت:
حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کاتعلق ایک بلند پایہ علمی وروحانی خاندان سے تھا چنانچہ آپ کا سلسلہ نسب صحابیِ رسول حضرت سیدنا ہَبّار بن اَسْوَد ہاشمی قرشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کی ولادت 27 رمضان المبارک 566ھ مطابق 3 جون 1171ء بروز جمعہ، کوٹ کروڑ (ضلع مظفر گڑھ، پنجاب، پاکستان) میں ہوئی۔[احوال و آثار حضرت بہاؤالدین، ص 25-26]
تحصیلِ علم اور سفرِ بیعت:
آپ نے علومِ ظاہری و باطنی کے حصول کے لیے خراسان، شیخُ الشیوخ حضرت شیخ شہاب
بخارا، اور حجازِ مقدس جیسے علمی مراکز کا سفر فرمایا۔ بغداد میںالدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرفِ بیعت حاصل کیا اور انہی کی زیرِ تربیت روحانی منازل طے کیں۔[گلزارِ ابرار، ص 55-56، ملخصاً]
سترہ دن میں خلافت اور مرشد کی حکمت:
بیعت کے صرف 17 دن بعد آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا گیا۔ دیگر مریدین کے لیے یہ امر حیرت کا باعث بنا تو حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "تم سب گیلی لکڑی کی مانند ہو، جس پر عشقِ الٰہی کی آگ جلد اثر نہیں کرتی، جبکہ بہاؤالدین زکریا سوکھی لکڑی کی طرح ہے، جو ایک ہی پھونک سے بھڑک اٹھا۔"[حوالۂ سابقہ]
خانقاہ کی بنیاد اور اصلاحِ فرد:
وطن واپسی کے بعد آپ نے ملتان کو اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا۔ اُس وقت ملتان بت پرستی، الحاد اور جاہلیت کی آماجگاہ تھا۔ حضرت بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عظیم روحانی کردار، جاذب شخصیت، دل نشین بیان اور باطن کی روشنی سے اس خطے کو نورِ اسلام سے روشن کر دیا۔ وہ خانقاہ جو آپ نے ملتان میں قائم کی، نہ صرف روحانیت کا گہوارہ بنی بلکہ درس و تدریس اور سلوک و معرفت کا عالمی مرکز ثابت ہوئی۔ آپ کی صحبت میں آنے والے ہر زائر کے ساتھ یکساں حسنِ سلوک روا رکھا جاتا، اور وہ روحانی فیض و برکت سے منور ہوکر رخصت ہوتا۔
علم و عمل کا امتزاج:
آپ علم و عمل کے حسین امتزاج تھے۔ آپ کی زبان علم سے مزین تھی اور دل معرفتِ الٰہی کا خزینہ۔ آپ نے صرف خانقاہی نظام کو فروغ نہیں دیا بلکہ شریعت کی پاسداری پر بھی زور دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو شیخ الاسلام جیسے عظیم القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے سلوک و طریقت کو فقہ و شریعت کے دائرے میں رکھ کر تصوف کو اعتدال کی راہ پر گامزن کیا۔
جامعہ کی بنیاد اور اصلاحِ معاشرہ:
آپ نے ایک منظم اقامتی جامعہ کی بنیاد رکھی جس میں صرف برصغیر ہی نہیں، بلکہ عراق، شام اور حجاز سے بھی طلبہ علم حاصل کرنے آتے۔ اس ادارے میں علم کے ساتھ تربیت کا بھرپور انتظام تھا، اساتذہ کے لیے قیام و طعام اور مناسب مشاہرے کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔[احوال و آثار حضرت بہاؤالدین، ص 85، مفہوماً]
دعوت و تبلیغ: ایک انقلابی نظام:
آپ نے مبلغین کی تربیت کا ایک مستقل شعبہ قائم فرمایا۔ ان مبلغین کو مختلف زبانیں، مقامی ثقافتیں، اور حسنِ معاشرت سکھائی جاتی۔ انہیں تبلیغی سفر پر روانہ کرتے وقت سامانِ تجارت بھی دیا جاتا تاکہ خود کفیل رہیں اور وقار کے ساتھ دین کی خدمت انجام دیں۔
یہ تربیت یافتہ مبلغین افغانستان، انڈونیشیا، فلپائن، خراسان اور چین جیسے ممالک تک اسلام کا نور لے کر پہنچے۔[اللہ کے ولی، ص 470؛ احوال و آثار حضرت بہاؤالدین، ص 85، مفہوماً]
سالانہ دعوتی احتساب:
سال میں ایک بار تمام مبلغین اپنی کارکردگی کے ساتھ خانقاہ میں حاضر ہوتے۔ اس اجتماع کے ذریعے دعوتی نظام کی نگرانی، تجزیہ اور اصلاح کی جاتی، جس سے اس تحریک میں شفافیت، منصوبہ وصالِ مبارک: بندی اور نظم و نسق کی اعلیٰ مثال قائم ہوتی۔7 صفر المظفر 661ھ مطابق 21 دسمبر 1262ء کو آپ حسبِ معمول اپنے وظائف میں مشغول تھے۔ آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ صدرالدین عارف رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نورانی شخصیت کو دیکھا، جنہوں نے ایک رقعہ والدِ گرامی کی خدمت میں پیش کرنے کو کہا۔ صاحبزادے رقعہ لے کر حجرہ میں داخل ہوئے اور پیش کرکے واپس آگئے۔تھوڑی ہی دیر بعد حجرہ سے صدا آئی:
"وَصَلَ الْحَبِیْبُ اِلَی الْحَبِیْبِ"(دوست اپنے دوست سے جا ملا)یہ اعلانِ وصال تھا۔ جب صاحبزادے واپس گئے تو دیکھا کہ آپ اس دارِ فانی سے رخصت ہوچکے تھے۔[سیرتِ بہاؤالدین زکریا، ص 189، مفہوماً]
مزارِ مبارک:آپ کا مزارِ مبارک آج بھی "مدینۃ الاولیاء" ملتان (پنجاب، پاکستان) میں واقع ہے، جو مرجعِ خلائق، مرکزِ فیضان، اور زیارت گاہِ خواص و عوام ہے۔
ہر سال 5 تا 7 صفر کو آپ کا سالانہ عرس مبارک بڑی شان و شوکت اور عقیدت واحترام کے ساتھ منایا جاتا ہے، جس میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان ودیگر ممالک سے زائرین لاکھوں کی تعداد میں شریک ہو کر آپ کے فیضان سے مالامال ہوتے ہیں۔
بارگاہِ مولیٰ تعالیٰ میں عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شیخ المشائخ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض وبرکات سے مستفیض فرماۓ اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔
آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ
