Oct 23, 2025 07:38 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
مشرق وسطیٰ میں طاقت کا بدلتا ہوا توازن  غزہ، اسرائیل ۔ایران جنگ کے تناظر میں

مشرق وسطیٰ میں طاقت کا بدلتا ہوا توازن  غزہ، اسرائیل ۔ایران جنگ کے تناظر میں

10 Aug 2025
1 min read

مشرق وسطیٰ میں طاقت کا بدلتا ہوا توازن  غزہ، اسرائیل ۔ایران جنگ کے تناظر میں 

مشرق وسطی کی نئی انجینیرنگ:_______   

مفتی محمد رضا قادری مصباحی نقشبندی

سربراہ اعلیٰ علما کونسل نیپال 

اس وقت امریکہ اور اسرائیل مشرق وسطی کی نئی انجینیرنگ کرنا چاہتے ہیں ۔ حالیہ غزہ،اسرائیل،لبنان، شام، یمن اور ایران جنگوں کے تناظر میں جو بات نکل کر سامنے آرہی ہے جس کو حاصل نتیجہ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسا مشرق وسطی چاہتا ہے جس کا وہ بے تاج بادشاہ ہو، اس کے اشاروں کے بغیر پتہ بھی نہ ہل سکے۔ وہ ایسا مڈل ایسٹ چاہتاہے جہاں اسرائیل کے لیے کوئی ملک اور کوئی مزاحمتی قوت خطرہ نہ بن سکے۔ وہ ایسا مڈل ایسٹ چاہتا ہے جہاں کی اقتصادیات، عسکری نظام اور نظام سیاست پر اسرائیل کا پورا کنٹرول ہو اس کی مرضی کے بغیر خطے میں کوئی بھی عسکری تنظیم یا ملک پر نہ مار سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایک مزاحمتی قوت کو کچلنا چاہتا ہے، ایسے اس کا یہ خواب پورا بھی ہوگا یا نہیں اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ اسرائیل کے ذریعے مشرق وسطی کی جدید نقشہ سازی میں سب سے بڑی  رکاوٹ کوئی ہے تو وہ ایران ہے پھر اس کے پراکسیز (PROXIES)خواہ وہ حماس ہو یا حزب الله یا حوثی ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے پہلے ایران پر حملہ نہیں کیا بلکہ پہلے اس کے پراکسیز (نمائندہ قوتوں) کو ختم کرنے کی کوشش کی۔سب سے پہلے حماس پر حملوں کا آغاز ہوا اور اس کی قوت کچلنے کی بھر پور کوشش کی۔

حماس عزم ،ہمت اور شجاعت کا آخری چٹان: حماس ایک اسلامی جہادی تنظیم ہے جس کی بنیاد فلسطین کے ایک عالم دین شیخ احمد یٰس نے  1987 میں رکھی ۔ یہ مصر کی مشہور تنظیم "اخوان المسلمین" سے متأثر ہو کر بنائی گئی تھی۔اور اس کے قیام کی بنیاد ہی میں غزہ کو اسرائیل کے ناجائز قبضے سے پاک کرانا،فلسطین کی خود مختار آزاد ریاست کا قیام اور اسرائیل کا خاتمہ جیسی افکار شامل تھیں۔کوئی شبہ نہیں کہ اس جنگ میں حماس کے ہزاروں مجاہدین اور سر بر آورده کمانڈرز مارے گئے ، ان کی قیادتوں کو ہلاک کیا گیا۔ حماس کے سیاسی رہنما اسمعیل احمد ہانیہ کو موساد نے اپنے خفیہ نیٹ ورک اور غداروں کی مدد سے 31۔جولائی 2024ء کو ایران کے دار الحکومت طہران میں نشانہ بنایا جہاں وہ جاں بحق ہوئے۔ اس کے عسکری قائدین جنرل یحی السن وار اور محمد الضیف کو فوجی آپریشن کے ذریعےشہید کر دیا گیا،پورا غزہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے، نہ کوئی گھر سلامت رہا نہ اسکول، نہ ہسپتال، نہ عبادت گاہیں، نہ رہائشی خیمےہر جگہ اسرائیل نے حملے کئے اسرائیل کے متعدد ذرائع ابلاغ نے جو انکشاف کیا اس کے مطابق ایک لاکھ فلسطینیوں کا قتل عام ہو چکا ہے۔ لاکھوں مجروح ہو چکے ہیں۔ ان تمام حملوں کے باوجود وہ حماس کے عزم کو متزلزل کرنے میں ناکام رہے۔ حماس نے  ان کے آگے سرینڈر نہیں کیا ۔ ان سے زندگی کی بھیک نہیں مانگی ، اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں نے ان کی قوت جہاد کو کمزور نہیں کیا، گو عددی اعتبار سے وہ کم ہو چکے ہیں تا ہم ان کی نظریاتی قوت میں، مزاحمت میں اور اسرائیل کو نقصان پہونچانے کی صلاحیت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ وہ آج بھی غزہ میں  I.D.F کو شدید نقصان پہونچا رہے ہیں ۔ روز ان کے تین چار، پانچ، یاسات فوجی مارے جا رہے ہیں ۔ بلکہ یہ حملے اسرائیل ایران جنگ کے بعد اور سخت ہو گئے ہیں،خان یونس ہو یا جبالیہ ہو یا بیت حانون ہر جگہ اسرائیل کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ حماس نے زیر زمین  پورا پورا شہر بسا ر کھا ہے، ان کے بنائے ہوے سرنگوں کا جال بہت دور تک پھیلا ہوا ہے ممکن ہے مصر اور لبنان تک ان کی سر نگیں موجود ہوں جہاں سے ان کو مسلسل اسلحے سپلائی کیئے جا رہے ہوں۔ علاوہ از یں حماس نے  خود زیر زمیں اسلحہ سازی کا بہت بڑا کارخانہ بنایا ہوا ہے اگر باہر کے کسی ملک سے سپورٹ نہ ملے پھر بھی وہ اپنے دم پر سالہا سال اسرائیل سے لڑ سکتا ہے۔

اور آج جنگ کا 641واں دن ہے،۔دوسال پورے ہونے میں صرف تین ماہ باقی ہیں۔ حماس کے لئے زیر زمیں ایسی سرنگیں اور پناہ گاہیں موجود ہیں کہ آئی، ڈی ،ایف یعنی Israel Defence  force' کے لئے وہاں پہونچنا مشکل ہو رہا ہے ۔ جہاں سے اسرائیلی فوج زمینی آپریشن کرکے سب کچھ تباہ کرکے چلی جاتی ہے وہ لڑا کے وہیں سے دوسرے دن حماس کےنو جوان سرنگوں سے نکل کر حملہ کر دیتے ہیں۔ اس لئے اسرائیل کے لئے اس جنگ کو  جیت پانا نا ممکن ہو چکا ہے۔غصے اور انتقام کی آگ میں جل کر اسرائیل غزہ کے نہتے اور بےقصور شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ اس وقت سب سے  بڑی قربانی پیش کر رہا ہے ۔ غزہ کے مسلمانوں کی استقامت اور شجاعت دیکھ کرصحابۂ کرام کی استقامت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ بھوک،پیاس اور بے سرو سامانی کے عالم میں بھی اس غزہ نے اپنے دین کا، عقیدے کا اور ملک کا سودا نہیں کیا، عربوں کی طرح اپنی بیٹیوں کو عیسائی اور یہودی حکمرانوں کے سامنے پیش نہیں کیا ، بلکہ وہ اپنی عزت نفس کے ساتھ کل بھی کھڑے تھے اور آج  بھی کھڑے ہیں ۔ اس مشکل وقت میں بھی انہوں نے اپنی زمین کو نہیں چھوڑا ۔ اس سے نہایت کم اور ہلکے حملے اسرائیل میں ہو ئے۔اور 50 ہزار اسرائیلیوں نے کم و بیش اپنے وطن کو چھوڑ دیا ۔ ۲۵ ہزار سے زائد اسرائیلی جزیرۂ قبرص میں پناہ لے چکےہیں. اسرائیل اگر اپنی پروازیں کھول دے،سفر کی اجازت دےدے تو میرا خیال ہے کہ دو مہینوں کے اندر آدھے سے زیادہ اسرائیل خالی ہو جائےگا۔ رپورٹوں کے مطابق غزہ اسرائیل جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 5 لاکھ اسرائیلی شہری  ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا چکے ہیں۔ اکثریت ان میں ایسے لوگوں کی ہے،جن کے پاس دو دو ملکوں کی شہریت ہے۔ جو جرأت اور استقامت غزہ کے لوگوں نے دکھائی کیا یہی ہمت اسرائیل کے لوگ دکھا سکتے ہیں ؟ہرگز نہیں۔ سورج مغرب سے طلوع ہو سکتا ہےمگر اسرائیلی کبھی اتنی جرأت نہیں کر سکتے۔ جب امریکہ اور اسرائیل کو اندازہ ہو گیا کہ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد غزہ والے سرینڈر نہیں کیے بلکہ یہ روز اسرائیلی سپاہیوں کو مار رہے ہیں تو اب جنگ بندی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔

غزہ اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی سخت ناکامی: 

اس جنگ میں امریکہ و اسرائیل جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے وہ حاصل نہیں کر سکے بلکہ وہ اس میں سراسر نا کام رہے ۔ ان کی سب سے بڑی نا کامی یہ رہی کہ وہ چند درجن ہوسٹیجیز(یرغمالیوں) کو حماس کی قید سے رہا نہیں کرا پائے۔حماس کی قوت مزاحمت کو ختم نہیں کر سکے ، غزہ پر قبضے کا جو خواب تھا  وہ خواب ہی رہ گیا اب سوائے جنگ بندی کے کوئی راستہ نہیں بچا ہے ۔ اسرائیلی پر غمالیوں کے گھر والے،رشتہ دار روز نیتن یاہو حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ خود اسرائیل میں اندرون ملک بغاوت پھوٹ رہی ہے۔اسرائیلی آرمی چیف آیال زامیرنے نیتن یاہو کو صاف صاف کہہ دیا ہےکہ ہماری فوج غزہ کے بیس لاکھ انسانوں کو کنٹرول نہیں کر سکتی ، ہماری فوج اب مزید جنگ لڑنے کی متحمل نہیں ہے۔ بعض فوجی اہلکار ایسے بھی ہیں جو پانچ سو دنوں سے مسلسل غزہ میں میں لڑ رہے ہیں انہیں گھر آنے کی مہلت نہیں مل سکی ہے اس کے علاوہ اسرائیل کی  ایک بہت بڑی کمزوری یہ سامنے آئی ہے کہ ان کے پاس لڑنے والے مستقل آرمی کم پڑ چکے ہیں ، ان کی جگہ وہ ریزرو آرمی کے جوانوں کا استعمال کر رہا ہے۔ جن کی عمریں 19،20  اور پچیس سال کے درمیان ہیں جو ہائی اسکول پاس ہیں  ان کو کھینچ کر لڑنے کے لیے لایا جا رہا ہے ۔ غیر تربیت یافتہ آرمی کے ساتھ کوئی بھی غزہ میں فتح حاصل نہیں کرسکتا ۔ اس کے ساتھ اسرائیل کی فوج ہزاروں کی تعداد میں غزہ کے اندر  ماری گئی ہے ۔ ان ساری تباہیوں کا صحیح تخمینہ جنگ کے خاتمے کے بعد سامنے آے گا . افغانستان کے بعد غزہ اسرائیلی ٹینکوں کا قبرستان بن چکا ہے ۔ غزہ میں آئی ، ڈی، ایف کی جو تباہی ہو رہی ہے وہ دنیا کے سامنے اسرائیلی میڈیا آنے نہیں دے رہی ہے جس طرح ایران کے حملوں کے بعد ہوئی تباہی کو چھپانے کی کو شش کی گئی ۔ غزہ اسرائیل جنگ معاملے پر اسرائیلی آرمی چیف اور نیتن یاہو کے درمیان کئی بار جھڑپ بھی ہو چکی ہے ۔ دونوں میں شدید تکرار دیکھنے میں آئی ،حاصل کلام یہ ہے کہ غزہ نے جو قربانی دی ہے اپنے وطن اور مسجد اقصی کی خاطر آج کی تاریخ میں دنیا کی کوئی بھی قوم نہیں دے سکتی۔ تو غزہ گریڑ اسرائیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آیا ۔ ابھی غزہ سے جیت نہیں سکے تھے کہ لبنان پر حملہ کر کے حزب اللہ کی قیادت کو ختم کر دیا گیا - حزب الله کے ہزاروں مجاہدین اسرائیل کے فضائی اور زمینی آپریشن میں مارے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ کی ساٹھ فیصد حربی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے مگر حزب اللہ ابھی بھی زندہ ہے ختم نہیں ہوا ہے، کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گیا ہے تاکہ از سر نو اپنی قیادت کو بہتر کر سکے ۔۔ 

_حوثیوں کی ایمانی قوت کو سلام :

 تیسرے فرنٹ پر یمن کے حوثی مجاہدین ہیں جن کے بیلسٹک میزائلوں کے حملوں سے تل ابیب لرزاں وترساں نظر آتا ہے۔۔ پورے مشرق وسطی میں علانیہ طور پر شروع سے لے کر اب تک غزہ کے ساتھ کوئی برادر مسلم ملک اگر کھڑا ہے  تو وہ یمن ہے ۔  یمن یقینا سب پر سبقت لے گیا ۔ وہ ہمارا ہیرو  ہے۔ یہ یمن کے مسلمانوں کی قوت ایمانی کا ایک عملی مظاہرہ بھی ہے وہ اگر چہ عددی و عسکری قوت کے اعتبار ہے ایک بڑا ملک نہیں ہے مگر اپنی ایمانی و روحانی قوت کے اعتبار سے خلیج کے تمام عرب ملکوں سے  بڑا ہے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے یمن کے لیے متعدد بار دعا فرمائی تھی اللهم بارك لنا في يمننا الاسلام يمانية - اس دعا کی برکت اور طاقت کا مشاہدہ ہم اپنے سر کی آنکھو سے یمنیوں میں کر رہے ہیں ۔ یمن کے انصار الله حوثی نے بحر احمر سے گزرنے والے تمام امریکی، مغربی اور اسرائیلی جہازوں کا راستہ روک رکھا ہے، یمن کے میزائیل حملوں سے بحر احمر (لال ساگر) سے اسرائیل تک تیل، اسلحہ اور رسد کی سپلائی کرنے والے جہازوں پر حوثی بمباری کرتے ہیں اوران کو شدید نقصان پہونچا رہے ہیں۔ جبکہ اسی جگہ سعودی عرب ، دبئی،  متحده عرب امارات، بحرین اور قطر نے اپنے ہوائی اسپیس، سمندری راستے امریکہ اور اس کےاتحادی ملکوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں ۔ بنظر انصاف دیکھا جائے تو اس جنگ میں حزب اللہ سے زیادہ نقصان یمن کے لڑاکوں نے اسرائیلی مفادات کو پہونچایا ہے ۔ ان کا بس یہی مطالبہ ہے کہ اسرائیل پر حملے بند کرو۔ اور ہم اس وقت تک اپنے میزا ئیل حملے بند نہیں کریں گے جب تک اسرائیل غزہ پر مکمل طور پر حملے بند نہیں کر دیتا۔ یہ ان کی اخوت اسلامی اور غیرت ایمانی کی وہ اعلی ترین مثال ہے جس کی نظیر اس دور میں نہیں مل سکتی۔ ایران بھی اس معاملہ میں اس کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔

واضح ہو کہ حوثی تنظیم کی بنیاد بدر الدین بن امیر الدین الحوثی کے ذریعے 1991 ء میں رکھی گئی تھی، بدر الدین کا شمار یمن کے زیدی شیعوں کے کبار علما میں ہوتا ہے زیدی شیعہ عقیدتاً اہل سنت و جماعت کے زیادہ قریب مانے جاتے ہیں۔ شروع میں اس کا نام " الشباب المؤمن" تھا بعد میں تحریک انصار اللہ یا حوثی جماعت سے مشہور ہوا۔ ابتداءً ایک دینی اصلاحی و رفاہی تحریک کی شکل میں سامنے آئی لیکن2004میں ایک مسلح تنظیم میں تبدیل ہو گیی2004 ء میں بدر بن امیر الدین الحوثی کے قتل کے بعد ان کے بیٹے حسین بن بدر پھر یحی بن بدر ان کے جانشین ہوئے اس وقت عبد الملک بن بدرالدین الحوثی اس کے جانشین اور تنظیم کے سربراہ ہیں۔۔۔۔ جاری

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383