ناموس رسالت کی حفاظت کرنے میں اہل ایمان کی کامیابی ہے
مولانا اختر حسین قادری
مقام و پوسٹ گلرہا وایا مہنداول
ضلع سنت کبیر نگر
اللہ رب العالمین کے بعد جس ہستی کا ہم پر سب سے زیادہ احسان ہے؛ وہ سرور کائنات رحمت عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے.
مسلمانوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جو تعلق ہے؛ وہ تعلق تمام دوسرے انسانی تعلقات سے بالا تر ہے۔ دنیا کا کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق، اس تعلق سے جو نبی کریم اور اہل ایمان کے درمیان ہے ، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں. لہٰذا وہی سب سے زیادہ قریب بھی ہیں یہاں تک کہ جان سے بھی زیادہ قریب، حقدار اور ولی بھی ہیں.
ہہی وجہ ہے کہ امتی کا ایمانی و روحانی وجود نبی کی روحانیت کبریٰ کا پرتو اور ظِل ہوتا ہے اور جو شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے، ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ باپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی۔ لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملی ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری وہ ہمدردی اور خیر خواہانہ شفقت و تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے پیغمبر کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں.
یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے جس شخص سے جتنی محبت ہوتی ہے اس کی عزت وناموس اس کے لیے اتنی ہی اہم ہوتی ہے، جو سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے اس کے ناموس کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتا ہے.. رسول اللہ کی ذات چوں کہ اہل ایمان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اس لیے محبت کے تقاضے کے عین مطابق حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین نے محبت رسول اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوکر سرفروشی اور جاں سپاری اور فدائیت کے ایسے انمٹ نقوش قائم کیے ہیں جو قیامت تک ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں. اپنے بڑوں کی طرح مسلم امۃ کے بچے بھی اپنے رسول کے لیے جان نثاری کے جذبات سے لبریز تھے اس حوالے سے سینکڑوں واقعات کتب سیرمیں موجود ہیں.. یہاں صرف ایک واقعہ پر اکتفا کیا جاتا ہے.
سیدنا عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ اُنہوں نے کہا میں بدر والے دن صف میں کھڑا تھا۔ میں نے اپنے دائیں بائیں جانب نظر ڈالی تو دیکھا کہ میرے دونوں طرف دو نوجوان انصاری لڑکے کھڑے ہیں۔ میں نے تمنا کی: کاش !میرے نزدیک کوئی طاقتور اور مضبوط آدمی ہوتے۔ ا ن میں سے ایک مجھے میرے پہلو میں ہاتھ مار کرکہنے لگا: چچا ! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں ؟''میں نے کہا: ہاں ، بھتیجے!تمہیں اس کی کیا غرض ہے؟ اُس نے کہ'مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ رسو ل اللہﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا جسم اس کے جسم سے اتنی دیر تک جدا نہیں ہوگا جب تک ہم میں سے جس کو جلدی موت آنی ہے، آجائے۔'' عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ مجھے اس نوجوان لڑکے کے جذبات پر بڑا تعجب ہوا۔پھر مجھے دوسرے لڑکے نے بھی اسی طرح پہلو میں ہاتھ مارا او راُس جیسی بات کہی۔ اتنے میں میری نظر ابوجہل پر پڑی۔ وہ لوگوں میں گھوم رہا تھا۔ میں نے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ ابوجہل ہے. جس کے بارے میں تم دونوں سوال کررہے تھے۔ابن عوف کہتے ہیں: وہ دونوں جلدی سے اس کی طرف دوڑے اور دونوں نے اس پر تلوار کا وار کیا یہاں تک کہ اسے جہنم رسید کردیا۔ پھر وہ رسول اللہﷺکےپاس آئے اور آکر آپ کو خبر دی۔ آپﷺ نے پوچھا تم دونوں میں سے کس نے اس کو قتل کیا ؟ اُن دونوں میں ہر ایک کہنے لگا: ''میں نے اسے قتل کیا ہے۔ آپﷺنے فرمایا: ''کیا تم دونوں نے اپنی تلواریں صاف کردی ہیں؟ اُنہوں نے کہا: نہیں آپﷺنے ان دونوں تلواروں پر نظر دوڑائی اور فرمایا:تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے اور ابوجہل کا پہنا ہوا سامان وغیرہ معاذ بن عمرو بن الجموع کو عطا کردیا۔
اور وہ دونوں نوجوان لڑکے معاذ بن عمرو بن جموع اور معاذ بن عفراء تھے اورصحیح البخاري میں ہے کہ عبداللہ بن عوف کہتے ہیں''میں نے ابوجہل کی طرف ان دونوں کو اشارہ کیا ۔وہ دونوں لڑکے دو عقابوں کی طرح اس پر شدت سے ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ اسے واصل
جہنم کردیا اور وہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔''
موجودہ زمانے میں بھی اس محبت کے کچھ عملی تقاضے ہیں اور کچھ نظری وفکری تقاضے ہیں..
عملی تقاضہ تو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو اپنی تمام خواہشات وجذبات پر مقدم رکھا جائے، ان کی سنتوں پر پوری دیانت داری کے ساتھ عمل کیا جائے، ان کے لائے ہوئے دین پر مکمل یقین اور اٹوٹ وفاداری ہو، ان پر نازل کردہ کتاب قرآن کریم سے بھر پور تعلق اور اس پر عمل ہو، ان کی سیرت وسنت کو اپنی ذات اپنے گھر اور اہل خانہ پر نافذ کیا جائے، ان کی اخلاقی تعلیمات کو پوری دنیا میں عام کیا جائے، ان کی انسانیت پر مبنی پیغامات سے اپنے برادران وطن خاص طور پر اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کو واقف کرایا جائے اور نبی کریم کے اسوہ کے عین مطابق اپنے پڑوسیوں کے دکھ درد مصیبت وغم میں شامل ہوا جائے
فکری ونظری پہلو یہ ہے کہ ان کو اپنا سب سے بڑا محسن جان کر اور ان کے حقوق کا ادراک کر کے ان کی اعلیٰ درجے کی تعظیم کی جائے ان کے لیے جان ودل قربان کرنے کو تیار رہیں اور اگر ان کی عزت وناموس پر کوئی بدبخت ملعون حملہ آور ہو تو اس کا دندان شکن جواب دیا جائے،
شرعی وفقہی طور پر گستاخ رسول کی وہی سزا ہے جو مرتد کی سزا ہے، عہد رسالت میں یہ سزا جن ملعونوں پر نافذ کی گئی، احادیث، سیرت النبی اور فقہی کتابوں میں اس کی مکمل تفصیل مذکور ہے ، لیکن موجودہ حالات میں اقلیتی ودیگر جمہوری ممالک میں چونکہ ان سزاؤں کی تعمیل کروانے میں مشکلات ہیں اس لیے سردست عملی وفکری
طور بھی ایسے افراد اور ایسی ذہنیت کا تعاقب کیا جائے، اگر ان کے ہفوات پہلے سے مشتہر نہ ہو تو ایسے آڈیو، ویڈیو اور گستاخانہ تحریروں اور خاکوں کی تشہیر وترویج سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے. قانونی و جمہوری طور پر ہمارے لیے جو کچھ بھی کرنا ممکن ہو اس میں دریغ نہ کیا جائے، اور جمہوری انداز میں متحد ہو کر ہر قسم کے فروعی اختلاف کو پس پشت ڈال کر سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بن کر مذھبی شخصیات بالخصوص حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت وگستاخی پر پھانسی کی سزا کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ ملکی طور پر بھی کی جائے اس کے لیے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے فضا بھی ہموار کی جائے اقوام عالم کو بھی اپنی قلمی، اخلاقی وفکری طاقت سے اس سمت میں قانون سازی کے لیے مجبور کیا جائے. مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید نے ایک موقع پر حضرت امام دار الہجرہ مالک بن انس رح سے دریافت کیا کہ : اگر دنیا میں کسی جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کا واقعہ رونما ہوجائے تو ایسے حالات میں آقا ﷺ کی امت کی کیا ذمہ داری ہے؟؟؟؟؟؟
حضرت امام مالک نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا
کہ: امت مسلمہ اس سے بدلہ لے، پوچھا اگر حالات ایسے ہوں کہ
ایسا نہ کرسکے تو پھر؟؟؟؟؟ امام مالک رح نے وہ تاریخی جملہ کہا جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔۔۔۔
آپ نے فرمایا۔ پھر حضور ﷺ کی ساری امت مرجائے۔۔ اس کو جینے کا بھی کوئی حق نہیں نہیں۔
اس واقعہ سے مسئلے کی حساسیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس پر حملے ہوتے رہیں، رسول اللہ کے حرم پاک کو نشانہ بنایا جاتا رہے حضرات امہات المومنین پر ہفوات بکے جاتے رہیں اور ہم خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں تو واقعتاً یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے..
ایسے مواقع پر قانون کے دائرے میں جو کوشش ہمارے لیے ممکن ہو وہ کرگذریں تو ضرور اللہ تعالیٰ کی نصرت ومدد ہمارے شامل حال ہوگی.
مشکل حالات میں ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا اہل ایمان کی کامیابی کی ضمانت ہے.. یہ ضمانت خود اللہ رب العالمین نے دی ہے :
ترجمہ :تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
کل ملا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے آئی لوو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہنا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ ایک سچے عاشق رسول کی نشانی ہے لہذا مسلمانوں کو ہر پل اللہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے رہنا چاہیے یہی ایک سچے رسول کی نشانی ہے